راجندر یادو کا نام ہندی ادب کی نمایاں تحریک ‘نئی کہانی’ سے منسوب ہے۔ آپ نے منشی پریم چند کے رسالے ‘ہنس’ کی دوبارہ اشاعت کا بھی اہتمام کیا۔ راجندر یادو کا پہلا ناول ‘پریت بولتے ہیں’ کے نام سے 1951 میں شائع ہوا جس پر بعدازاں باسو چیٹرجی نے فلم بھی بنائی۔ ناولوں کے علاوہ آپ نے کہانیاں بھی لکھیں اور روسی ادب کا ہندی میں ترجمہ بھی کیا۔ محمد عباس ان کی کہانیوں سے اردو قارئین کو متعارف کرا رہے ہیں۔ محمد عباس کے کیے یہ تراجم ‘دستاویز مطبوعات، لاہور’ نے شائع کیے ہیں جنہیں اب لالٹین پر شاٰئع کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بات نہ میرا نے اٹھائی نہ خود اُس نے۔ ملنے سے پہلے ضرور لگا تھا کہ کوئی بہت ضروری بات ہے جس پر دونوں کو باتیں کر ہی لینی ہیں لیکن جیسے ہر پل اس بات کی توقع میں اسے ٹالتے رہے۔بات گلے تک آ آ کر رہ گئی کہ وہ ایک بارپھر میرا سے پوچھے: ’کیا اس تعلق کو مستقل روپ نہیں دیا جا سکتا؟‘لیکن کہیں پہلے کی طرح پھر اسے برا لگے تو؟اس کے بعد دونوںمیں کتنا کھنچاؤ اور دوری آ گئی تھی۔
پتا نہیں کیوں،’ تاج‘ اسے کبھی خوب صورت نہیں لگا۔پھر دھوپ میں سفید سنگِ مر مر کا چوندھا لگتا تھا، اسی لیے وہ ادھر پیٹھ کیے بیٹھا تھا۔ لیکن چوندھا میرا کو بھی تو لگتا ہے ناں؟ہو سکتا ہے تاج اسے سندر ہی لگتا ہو۔ پرچھائیں ادھر جمنا کی طرف ہو گی، ادھر سے سپاٹ دھوپ میں جھل جھل کرتا سنگِ مر مر ہے۔ بس۔ اس تپتے ہوئے پتھر پر چلنے میں تلووں کے جھلسنے کے خیال سے اس کے سارے جسم میں پھریری دوڑ گئی۔
تین سال بعد ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ دیکھ کر صرف مسکرائے تھے۔مطمئن انداز میں۔ ہاں دونوں ہیں اور ویسے ہی ہیں۔ میرا کچھ نکھر آئی ہے اور شاید وہ، وہ پتا نہیں کیسا ہو گیا ہے۔ جانے کتنے پورے کے پورے مکالمے، سوال جواب اس نے میرا کوسامنے بٹھا کردل ہی دل میں بولے تھے، گفتگو کے تصور باندھے تھے اور اب بس کھسیانے انداز سے مسکرا کر ہی استقبال کیا تھا۔ اس پل سے ہی اسے اپنے ملنے کی بے معنویت کا احساس ہونے لگا تھا۔جانے کیوں۔ کیا ایسی بات کریں گے وہ،جو اکثرنہیں کر چکے ہیں؟ سال چھ مہینوںمیں ایک دوسرے سے خیر وعافیت کی خبر جان ہی لیتے ہیں۔
اٹھے ہوئے گھٹنوں کے پاس لان کی گھاس پر میرا کا ہاتھ چپ چاپ رکھا تھا۔ بس انگلیاں اس طرح اٹھ گر رہی تھیں جیسے کسی بہت نازک باجے پر ہلکے ہلکے گونجتے سنگیت کی تال کو باندھ رہی ہوں۔ میرا نے لوہے کا چھلا ڈال رکھا تھا،شاید شنی کی نحوست دور رکھنے کے لیے۔اس نے دھیرے سے اس کی سب سے چھوٹی انگلی میں اپنی انگلی ہک کی طرح اٹکا لی تھی۔ پھر ہاتھ اٹھا کر دونوں ہتھیلیوں میں دبا لیا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے باتوں کی دھارا پھوٹ پڑی۔
وجے کا دھیان گیا۔ بڑی بڑی مونچھوں والا کوئی چھوٹا سا کیڑا میرا کی کھلی گردن اور بلاؤز کے کنارے آ گیاتھا۔ جھجک ہوئی، خود جھاڑ دے یا بتا دے۔ اس نے اپنا منہ دوسری طرف گھما لیا۔ داخلے کی دہلیز کی سیڑھیاں جھاڑیوں کی اوٹ میں آ گئی تھیں، صرف اوپر کا حصہ نظر آ رہا تھا۔ ہچکچاتے ہوئے کیرم کا سٹرائیکر مارنے کی طرح اس نے کیڑا انگلیوں سے پرے چھٹک دیا۔ نسوں میں سنسناہٹ اترتی چلی گئی۔ انگلیوں سے وہ جگہ یوں ہی جھاڑ دی،جیسے گندی ہو گئی ہو۔میرا اُسی پہلے کے سے انداز میں اپنی سہیلی کے بیاہ کی پارٹی میں آئے لوگوں کی تفصیل بتاتی رہی۔اس نے کچھ نہیں کہا، نہ وہاں رکھا وجے کا ہاتھ ہٹایا ہی۔ وجے نے ایک بار پھر چور نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھااور آگے بڑھ کر اس کی دونوں کنپٹیوں کو ہتھیلیوں سے دبا کر اپنے پاس کھینچ لیا۔ نہیں، میرا نے غصہ نہیں کیا،جیسے وہ امید کر رہی تھی کہ یہ لمحہ آئے گا ضرور۔ لیکن پہلے اس کے ماتھے پر تیکھی لکیروں کی پرچھائیاں ابھریں اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ کی لہروں میں بدل گئیں۔ ایک عجب، بکھرتی سی، سمٹی، دھوپ چھاؤں مسکراہٹ۔وجے کا جی چاہا، ریگستان میں بھٹکتے پیاسے کی طرح دونوں ہاتھوں سے صراحی کو پکڑ کر اس کی مسکراہٹ کی شراب مجنونانہ انداز میں پیتا چلا جائے۔۔۔پیتا چلا جائے۔۔۔ غٹ ۔۔۔غٹ ۔۔۔ اور آخر لڑکھڑا کر گر پڑے۔ پتلے پتلے ہونٹوں سے ایک نامعلوم سی پھڑکن لرز رہی تھی۔ اس رومانی خمار میں بھی وجے کو خیال آیا کہ پہلے میرا کا چشمہ اتار لے۔ ٹوٹ نہ جائے۔ تب اس نے دیکھا، ہریالے فواروں جیسے مورپنکھوں کے دوتین پیڑوں کے پیچھے پورے پورے دو تاج محل چشمے کے شیشوں میں اتر آئے ہیں۔ دودھیا ہاتھی دانت کے بنے سے دو سفید ننھے ننھے کھلونے۔۔۔
پتا نہیں کیوں، اسے تاج محل کبھی اچھا نہیں لگا۔ دھیان آیا، بن بلائے بوڑھے چوکیدار کی طرح تاج محل پیچھے کھڑا دیکھ رہا ہے۔ باتوں کے بیچ وہ اسے کئی بار بھول گیاتھا لیکن دانتوں میں اٹکے تنکے سا اچانک ہی اسے یاد آ جاتا تھا کہ وہ اس کے سائے میں بیٹھے ہیں جو بہت بڑا ہے،جوعظیم ہے۔۔۔جو ۔۔۔؟اتنی بڑی عمارت !اس کی مکمل خوب صورتی کو ایک ساتھ وہ کبھی تصور میں لا ہی نہیں پایا۔۔۔ ایک ایک حصہ دیکھنے میں کبھی اس میں کچھ خوبصورت نہیں لگا۔ لوگوں کے اپنے ہی دل کی خوبصورتی اورشعریت رہی ہو گی جواس میں تبدیل کر کے دیکھ لیتے ہیں، کبھی موقع ملے گا تو وہ ہوائی جہاز سے تاج کی خوبصورتی کے کلی جائزے کی کوشش کرے گا۔ کئی بڑے فن پارے اس طرح کے دیکھے تو ہیں۔۔۔ اور تب سارے ماحول کے بیچ کوئی بات لگی تو ہے۔۔۔ مگر یہ چشمے کے کانچوں میں جھلملاتے، دھوپ میں چمکتے تاج ۔۔۔ کھنچاؤ وہیں تھم گیا۔ اس نے بڑے بے معلوم انداز سے گہری سانس لی اور اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔ آہستہ سے:’نہیں! یہاں نہیں۔ کوئی دیکھ لے گا۔۔۔‘یہ اسے کیا ہو گیا؟
اچانک میرا کو ہوش سا آ گیا۔ امڈتی لاج چھپانے کے لیے سٹ پٹا کر ادھرادھر دیکھا، کوئی بھی تو نہیں تھا۔پاس والی لال لال اونچی دیوار پرابھی ابھی راج مزدور سے لگنے والے مرمتیے لوگ آپس میں ہنسی مذاق کرتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے گئے ہیں۔ انھیں بندر کی طرح دیوار پر بھاگ لینے میں مہارت ہے۔ روش کے پار پڑوس کے لان میں دو تین مالی پائپوںکو ادھر ادھر گھماتے پانی لگارہے تھے، وہ بھی اب نہیں ہیں۔ کھانا کھانے گئے ہوں گے۔ میرا نے بغل سے ساڑھی کھینچ کر کندھے کا پلا ٹھیک کر لیا۔ پھر وجے نے اَن منے انداز سے گھاس کا ایک پھول توڑا اور آنکھوں کے آگے انگلیوں میں گھمانے لگا۔ میرا نے چشمہ اتار کر منہ سے ہلکی سی بھاپ دی اور ساڑھی سے کانچ پونچھے، بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اٹکایا اور چشمہ لگا کر کلائی کی گھڑی دیکھی۔
بڑ ابوجھل سکوت آ گیا تھا دونوں کے بیچ۔ وجے کو لگا انھیں کچھ بولنا چاہیے ورنہ یہ خاموشی کا بوجھ دونوں کے بیچ کی کسی بہت کومل چیز کو پیس دے گا۔ ہتھیلی پر یوں ہی اس تنکے سے کراس اور تکون بناتا وہ لفظوں کو ٹھیل کر بولا:’’تو پھر اب چلیں۔۔۔؟ دیر بہت ہو رہی ہے۔‘‘
میرا نے سر ہلا دیا۔ لگا جیسے وہ کچھ کہتی کہتی رک گئی تھی یا انتظار کر رہی ہو کہ وجے کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن وہ نہیں کہہ پا رہا۔ پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ کوئی نہیں اٹھا۔ تب پھر اس نے مرے مرے ہاتھوں سے جوتوں کے فیتے کسے، اخبار میں سنگترے اور مونگ پھلی کے چھلکے پھینکے۔ بیٹھنے کے لیے بچھائے گئے رومال سمیٹے گئے اور دونوں ٹہلتے ہوئے پھاٹک کی طرف چلے آئے۔
تین کا وقت ہو گا۔ ہاتھ میں گھڑی ہوتے ہوئے بھی اس نے اندازہ لگایا۔ دھوپ ابھی بھی تیز تھی۔ ایک آدھ بار گلے اور کنپٹیوں کا پسینہ پونچھا۔ آتے وقت تو بارہ بجے تھے۔ اس وقت اسے ہنسی آ رہی تھی۔ ملنے کا وقت بھی ان لوگوں نے کتنا عجیب رکھا ہے۔
جیسے اس وقت سے بہت دور کھڑے ہو کر اس نے دہرایا تھا’بارہ ۔۔۔بجے، جون کا مہینہ اور تاج محل کا لان،وہ پہلے آ گیا تھا اور انتظار کرتا رہا تھا۔ اس وقت کیسی بے چینی، کیسی چھٹپٹاہٹ،کیسی بے تابی تھی۔۔۔ یہ وقت بیتتا کیوں نہیں ہے؟بہت دنوں سے گھڑی کی صفائی نہ ہو پائی۔ اس لیے شاید سست ہے۔ابھی تک نہیں آئی۔ ان لڑکیوں کی اسی بات سے سخت جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔ کبھی وقت کا خیال نہیں رکھتیں۔ جانے کیا مزا آتا ہے انتظار کرانے میں۔ وہ جان بوجھ کر ادھرآنے والے راستے کی جانب سے منہ پھیرے تھا۔ امید کر رہا تھا کہ اچانک ادھر مڑ کر دیکھے گا تو پائے گا کہ وہ آ رہی ہے لیکن دو تین بار ایسا کر چکنے کے بعد بھی وہ نہیں آئی۔جب دوسری طرف منہ موڑے رہ کر بھی وہ کن اکھیوں سے ادھر ہی جھانکنے کی کوشش کرتاتو خود اپنے پر ہنسی آتی۔ اچھا سیڑھیاں اتر کر آنے والے تین لوگوں کو وہ اور دیکھے گا اور اگر ان میں بھی میر انہیں ہوئی تو دھیان لگا کر کتاب پڑھے گا۔ جب آنا ہو، آ جائے۔ ایک دو تین، ہوسکتاہے،اگلی وہی ہو۔ ہش، جائے جہنم میں نہیں آتی تو، ہاں تو نہیں۔ اچھا،آؤ، تب تک یہی سوچیں کہ میرا ان تین سالوں میں کیسی ہو گئی ہو گی۔ کیسے کپڑے پہن کر آئے گی؟ ایک دوسرے کو دیکھ کر وہ کیا کریں گے؟ ہو سکتا ہے، جو ش سے لپٹ جائیں، کچھ بول نہ پائیں۔ اس کے ساتھ ایسا ہوتا نہیں ہے، لیکن کون جانے، اس جوش میں ۔۔۔
آخر وہ آئی تو وہ اسے پاس آتے دیکھتا رہا تھا۔ ہر بار وہ ادھر سے نگاہیں ہٹانے کی کوشش کرتا کہ اسے یوں نہ دیکھے، پاس آنے پر ہی دیکھے اور اچانک ملنے کے تھرل کو محسوس کرے۔ لیکن وہ دیکھتا رہا تھا اور نہایت مؤدب طریقے سے بولا تھا۔۔۔’’نمستے میرا جی۔۔۔‘‘جھینپ کر میرا مسکرا پڑی تھی۔ دھوپ میں اس کا چہرا لال پڑ گیا تھا۔ پھر دونوں اس لان میں آ بیٹھے تھے۔ ایسے مطمئن، ایسے پر سکون جیسے روز ملتے ہوں۔
’’میں نے سوچا، تم شاید نہ آؤ، یاد نہ رہے۔‘‘
’’آپ نے لکھا تھا تو یاد کیسے نہیں رہتا؟لیکن ٹائم بڑا عجیب ہے۔‘‘
’’ہاں سردیوں کی چودھویں کی چاندنی رات تو نہیں ہے۔‘‘اپنے مذاق پر وہ خود ہی شرمندگی محسوس کرتا سنجیدہ ہو کر بولا:’’اس وقت یہاں ذرا تنہائی ہوتی ہے۔‘‘
سچ مچ بڑا عجیب ٹائم تھا۔میرا کے ساتھ ایک ایک قدم لوٹتے ہوئے اس نے سوچا۔ دوپہر کی دھوپ اور ۔۔۔پیار کرتے دو پریمی۔۔۔ پیار کرتے پریمی، اس نے پھر دہرایا۔ یہ پیار تھا؟جیسے برسوں سے ملنے والے دو دوست ہوں، جن میں باتیں کرنے کی لذت ختم ہو گئی ہو۔سفید سنگِ مرمرپر دھوپ پڑ رہی تھی، چوندھا تھا، اس لیے ادھر پیٹھ کر لی تھی۔ رہ رہ کر جھنجھلاہٹ آتی۔ کس بد دعا نے ہمارے خون کو جما دیا ہے؟یہ ہو کیا گیاہے ہمیں ؟کوئی گرمی نہیں، کوئی جوش اور کوئی جذبہ نہیں۔۔۔ کیا بدل گیا ہے اس میں؟ہاںمیرا کا رنگ کچھ کھل گیا ہے۔۔۔ بدن نکھر آیا ہے۔
لوٹتے وقت بھی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بوجھ، یہ کھنچاؤ کیا ہے؟ دونوں یوں ہی گھاس میں کاٹی ہوئی لال پتھروں کی جالی پر قدم قدم ٹہلتے ہوئے سیڑھیوں تک جائیں گے۔۔۔پھاٹک میں بیٹھے ہوئے گائیڈوں اور دربانوں کی تیز امیدوارانہ نگاہوں کو زبردستی جھٹلاتے بجری پر چر چر، چر چر کرتے تانگے یا رکشے میں جا بیٹھیں گے۔۔۔ اور ایک موڑ لیتے ہی سب کچھ پیچھے چھوٹ جائے گا۔ کل وہ لکھے گا۔’’میرا! میرا ! کل کے میرے رویے پرتمھیں حیرت ہو ئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے برا بھی لگا ہو ۔۔۔لیکن ۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘
اور پھر چشمے کے کانچوں میں جھانکتا تاج محل مجسم ہو کے چلا آیا۔ ’تمھاری پلکوں پر تیرتے دو تاج محل!‘‘کتنا سندر جملہ ہے(یہ تونئی غزل ہو گی) ٹیگور نے دیکھا ہوتا تو ’دنیا کے گالوں پرڈھلک آئی آنسو کی بوند‘ کبھی نہ کہتے۔۔۔کہتے’گالوں پر ڈھلک آئے آنسوؤ ں میں جھانکتے تاج محل کی رو پہلی مچھلیوں سی پرچھائیاں ۔۔۔‘ لیکن میرا کی آنکھوں میں تو اسے نمی کا بھی سایہ نہ دِکھا تھا، کتنے بے روح ہو گئے ہیں ہم بھی آج کل۔ وہ کل والے خط میں لکھے گا۔’’ہکسلے کی نقل نہیں کر رہا،جانے کیوں،مجھے تاج محل کبھی خوبصورت نہیں لگا۔ لیکن پہلی بار جب میں نے تمھاری پلکوں پر تاج کی پرچھائیں دیکھی تو دیکھتا رہ گیا۔ پچھلے دنوں کی ایک عجیب سی بات مجھے یاد ہو آئی۔ اس گھڑی۔۔۔‘‘
ارے ہاں، اب یاد آیا، کہ کیوں وہ اچانک یوں سست ہو گیا تھا۔ اس بات کو بھی کبھی جھٹلایا جا سکتا ہے؟ ’ہاں، میرے لیے تو وہ بات ہی تھی۔۔۔ ‘وہ لکھے گا۔ اسے لگا، دل ہی دل میں وہ جسے پکار رہا ہے، جسے خط لکھ رہا ہے، وہ ساتھ ساتھ چلنے والی یہ میرا نہیں ہے، وہ تو کوئی اور ہے ۔۔۔ کہیں دور ۔۔۔بہت دور۔۔۔ر ۔۔۔وہی میرا تو اس کی اصلی عزیز اور محبوب ہے۔ یہ ۔۔۔ یہ اس سے تو جب جب ملا ہے، اسی طرح اداس ہو گیاہے لیکن اُس میرا سے ملنے کی کشش اِس کے پاس کھینچ لاتی ہے۔اِس کی تو نہ جانے کتنی باتیں ہیں جو اسے قطعی پسند نہیں ہیں۔ جیسے ؟ وہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا، کہ کیا کیا پسند نہیں ہے؟ جیسے اس وقت اسے اسی بات پرجھنجھلاہٹ ہو رہی ہے کہ میرا نیچے بنی جالی کے پتھروں پر ہی پاؤں رکھ کرکیوں نہیں چل رہی۔ بیچ بیچ میں گھاس پہ پاؤ ں کیوں رکھ دیتی ہے۔
اور اس سب کے پار دونوں کان لگائے رہے کہ دوسرا کچھ کہے۔ایک بات سوچ کر وہ اچانک خود ہی ہنس پڑا۔جب وہ لوگ بہت بڑے بڑے ہو جائیں گے،سمجھو چالیس پچاس سال کے تو ہنس ہنس کر کیسے دوسروں کو اپنی اپنی بے وقوفیاں سنایا کریں گے۔ کیسے وہ لوگ چھپ چھپ کر تاج محل میں ملا کرتے تھے۔
’’چار پانچ سال ہو گئے ہوں گے اس بات کو ۔۔۔‘‘ اس کے من کے اندر کی سطروں پر خط چلتا رہا۔یہ سب وہ اس خط میں لکھے گا نہیں،وہ صرف اس بہانے سلسلہ وار لفظوں میں اس سارے اتفاق کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔ وہ، دیو، راکا جی، اور مُن مُن اسی طرح تو لوٹ رہے تھے۔ چپ چپ، اداس اور منحوس شام تھی اس لیے پرچھائیاں پیچھے خوب لمبی لمبی چلی گئی تھیں۔
اچھی طرح یاد ہے، ستمبر یا اکتوبر کا مہینہ تھا۔ کالج سے آ کر چائے کاکپ ہونٹوں سے لگایا ہی تھا کہ کسی نے بتایا: ’’آپ کو کوئی صاحب بلا رہے ہیں۔‘‘
وہ چڑ کر اٹھا :’’کون آ گیا ہے اس وقت۔‘‘
’’ارے آپ؟‘‘
’’پہچانا نہیں آپ نے؟‘‘
’’ارے صاحب! خوب آپ کو نہیں پہچانوں گا؟‘‘ لیکن سچ مچ اس نے پہچانا نہیں تھا۔ دیکھا ضرور ہے کہیں، شاید کلکتہ میں۔ ایسا کئی بار ہوا ہے۔ لیکن وہ حتی الامکان یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ پہچان رہا ہے اور بات چیت سے پہچان کی ڈور پکڑ کر یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے:’’اندر آئیے ناں!‘‘
’’نہیں مسٹر ماتھر! بیٹھوں گا نہیں۔گلی کے باہر میری وائف اور بچہ کھڑے ہیں۔۔۔‘‘انھوں نے معذرت چاہنے کے لہجے میں کہا:’’آپ کچھ کر رہے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘
’’لیکن انھیں وہاں۔۔۔؟یہیں بلا لیجیے ناں۔‘‘
’’نہیں دیکھیے۔ ایسا ہے کہ ہم لوگ ذرا تاج دیکھنے آئے تھے۔یاد آیا، آپ بھی تو یہیں رہتے ہیں۔ جگہ یاد نہیں تھی، سو ایک ڈیڑھ گھنٹا بھٹکنا پڑا۔ خیر آپ مل گئے۔ اب اگر کچھ کام نہ ہو تو ۔۔۔ بات ایسی ہے کہ ہمیں آج ہی لوٹ جانا ہے۔۔۔‘‘وہ سیڑھی پر ایک پاؤں رکھے کھڑے تھے: ’’آپ کسی طرح کے تکلف میں نہ پڑیں۔ پاؤںمیں چپل ڈالیے اور چلے آئیے۔‘‘
گلی کے باہر گاڑی کھڑی تھی۔ پیچھے کا دروازہ کھلا تھا اور اس کو پکڑے پچھلے مڈ گارڈ سے ٹکی ایک خاتون کھڑی تھیں۔گہری ہری بنگلوری ریشم کی ساڑھی، بنگالی طرز کا چوڑا چوڑا جُوڑااور بیچوں بیچ جگ مگ کرتا ہشت پہلو رو پہلا ستارہ۔مڈ گارڈ پر چھوٹا سا چار پانچ سال کا بچہ پھسلتے جوتوں کو جیسے تیسے روکے بیٹھا تھا۔ دونوں بانہوں سے اسے سنبھالے ہوئے وہ اس کی کلائی پکڑے چھوٹی سی انگلی سے دھول لدے مڈگارڈ پر لکھا رہی تھیں۔ ٹی اے جے۔ قدموں کی آواز سے چونک کر مڑیں اور استقبال میں مسکرائیں۔ بچے کو سنبھال کر اتارا، پھر دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔ پھر خود ہی بولیں: ’’دیکھیے! آپ سے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔‘‘
’’حضرت آ ہی نہیں رہے تھے۔۔۔‘‘وہ بیچ میں ہی بات کاٹ کر بولے۔ پھر اچانک بولے:’’اچھا راکا! اب بیٹھو، ورنہ اندھیرا ہو جائے تو دیکھنے کا مزا بھی نہیں رہے گا۔‘‘
راکا۔۔۔راکا۔۔۔ہاں کچھ یاد تو آرہا ہے۔ ڈرائیور کی بغل میں بیٹھ کر اس نے ایک آدھ بار گھوم کر دیکھا جیسے یہاں کہیں ان کا نام بھی لکھا مل جائے گا۔
’’کیسے ہیں؟ بہت دنوں بعد ملے ہیں۔ آپ کو یاد ہے،کلکتہ میں ہم لوگ ملے تھے۔۔۔؟اس دن ہم لوگوں نے آپ کو کتنی دیر کرا دی تھی۔‘‘سنہرا رنگ، کانوں میں گول کنڈل، بہت ہی بے معلوم سی لپ اسٹک۔ ساڑھی کا پلا سنبھالنے کے لیے کھڑکی پر ٹکی کہنی۔
ارے ہاں!اب یا د آیا۔ ان سے تو ملاقات بڑے عجیب اندازسے ہوئی تھی۔ نیو مارکیٹ کے ایک ریستوران میں بیٹھا وہ شوقیہ اپنی اپنی موسیقی کی مہارت کا مظاہرہ کرنے والوں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر جانے کیا من میں آیا کہ خود بھی اٹھ کر ماؤتھ آرگن پر دیر تک سینما کے گیتوں کی دھنیں نکالتا رہا۔ اس چھوٹے سے اسٹیج سے ہٹ کر جس میز پر وہ بیٹھا تھا، اس پر بیٹھے تھے یہ لوگ۔ یہ راکا جی اور یہ مسٹر ۔۔۔کیا؟ہاں مسٹر دیو۔
’’سچ مچ آپ نے بہت ہی سندر بجایا۔ بڑی اچھی پریکٹس ہے۔ ‘‘ دیو نے اس کے بیٹھتے ہی کہا۔ رومال سے باجے کو اچھی طرح پونچھ کر جیب میں رکھ ہی رہا تھا کہ چونک گیا۔ راکا کے چہرے پر تحسین اتر آئی تھی اور یوں ہی کپ کے اوپر ہتھیلی ٹیکے وہ ایک ٹک میز کو دیکھ رہی تھیں۔
’’آپ کی چائے توپانی ہو گئی ہو گی۔ اور منگائے دیتے ہیں۔ بیرا سنو! ادھر۔‘‘
اس کے منع کرنے پر بھی چائے اور آگئی:’’چھٹیوں میں گھومنے آئے ہیں؟اچھا ! کیسا لگا کلکتہ آپ کو۔۔۔جی ہاں،گندا توہے آگرہ کے مقابلے میں۔۔۔ لیکن ایک بار من لگ جانے پر چھوڑنا مشکل ہو جاتاہے۔۔۔‘‘پھر تعریف، احسان مندی کا تبادلہ، شناسائی اور رات دیر تک ان کے لوئر سرکلر روڈ کے فلیٹ پر باتیں، کھانا کافی اور موسیقی۔ راکا کو ستار کا شوق ہے۔ دیو کسی فارن کمپنی کے انچارج منیجر کی صحبت میں غیر ملکی سمفنیاں پسند کرتے ہیں۔ اس کا ماؤتھ آرگن سننے کے بعد راکا جی نے ستار سنایا تھا اور پھر دیو نہایت ہی خوبصورت پلاسٹک کے لفافوں میں بند اپنے بدیسی ریکارڈ نکال لائے تھے۔ ایک ایک ریکارڈ آدھ گھنٹے چلتا تھا اور اس میں تین تین کمپوزیشنز تھیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تھا لیکن وہ بیٹھا لفافوں پر لکھے ہوئے تعارف اور موسیقار کی تصویر کو ضرور دیکھتا رہا تھا۔ کوئی چیاکو وسکی یا کچھ بینگر تھا جس کا نام وہ بار بار لیتے تھے۔ایک ایک ریکارڈ چالیس پچاس روپے کا تھا۔بیچ بیچ میں،’’کبھی ضرور آئیں گے آگرہ۔ بہت بچپن میں ایک بار دیکھا تھا،شاید دماغ میں جو نقشہ ہے، اس سے میل ہی نہ کھائے۔ شادی کے بعد ایک بار دیکھنے کا پروگرام بہت دنوں سے بنا رہے ہیں۔ یہ تو ہر چھٹی میں پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ جی نہیں، انھوں نے نہیں دیکھا۔۔۔ ادھر ہی رہے ان کے فادر وغیرہ سب۔ اب تو آپ وہاں ہیں ہی۔۔۔‘‘اس دن دونوں دیر کے لیے راستے بھر معذرت کرتے ہوئے اپنی گاڑی پر ہی وویکانند روڈ تک چھوڑنے آئے تھے۔ راستے بھر بات چیت کے ٹکڑے، ستار کی گونج اور سمفنی کی کوئی ڈوبتی سی لہراتی دردیلی کراہ اسے مسحور کیے رہی۔ کیسے عجیب انداز سے واقفیت ہوئی ہے۔ کتنا سکھی جوڑا ہے۔۔۔اسے بہت ہی خوشی ہوئی تھی۔ بچہ بعد میں آیا۔ نام ہے مُن مُن۔
دیو بتا رہے تھے:’’نمائش میں ہمارا سٹال ہے ناں،سو ہم لوگ دلی آئے تھے۔ سوچا، اتنے پاس سے یوں بنا دیکھے لوٹنا اچھا نہیں ہے۔ آپ کو یوں ہی گھسیٹ لائے۔ کوئی کام تو۔۔۔‘‘
’’نہیں،نہیں۔۔۔!‘‘جلدی سے کہا۔۔۔ اسے اور تو سب باتیں یاد آ رہی تھیں لیکن یہ یاد نہیں آ رہاتھا کہ ان مسٹر دیو کے آگے پیچھے کیا لگتا ہے۔ بڑی بے چینی تھی۔کیسے جانے؟بس اسی ملاقات کے بعد پھر کبھی ملنا نہیں ہوا۔۔۔یاد داشت اچھی ہے ان لوگوں کی۔
’’آپ نے یاد خوب رکھا۔‘‘سوچا، اس ملاقات میں خاص ایسی بات بھی تو نہیں تھی۔
’’جب ہم لوگ تاج کی بات کرتے، آپ کی بات یاد آ جاتی اور کوئی دن ایسا نہیں گیا جب تاج کی بات نہ ہوئی ہو۔۔۔آپ کے سامنے یہ مُن مُن نہیں تھا۔۔۔‘‘
’’مُن مُن !تم نے انکل جی کو نمستے نہیں کیا۔ کہو انکل جی ! آج ہمارے ماما ڈیڈی کے بیاہ کی ساتویں سالگرہ ہے۔۔۔‘‘راکا جی اس کے ہاتھ جڑواتی بولیں:’’بہت ہی شیطان ہے۔ مجھے دن بھر خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کسی دن کچھ کر کرا نہ لے۔‘‘
’’تب تو آپ کو مبارک دینی چاہیے۔۔۔‘‘لیکن اس سب کے پار وجے کو لگا، کہیں گھٹن ہے جو نادیدہ کہرے کی طرح گاڑھی ہوتی ہوئی چھائی ہے۔ رہا نہیں گیا۔ پوچھا:’’آپ کچھ سست ہیں۔ طبیعت۔۔۔؟‘‘
’’نہیں جی!‘‘انھوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ایک کلپ ٹھیک کیا اور سنبھلے انداز سے مسکرانے کی کوشش کر کے کہا:’’گاڑی میں بیٹھے بیٹھے پانچ گھنٹے ہو گئے۔ ایک گھنٹے سے تو یہاں آپ کو کھوج رہے ہیں۔‘‘
’’چچ! سچ مچ بہت زیادتی ہے یہ تو آپ کی۔‘‘احسان مندانہ انداز سے وہ بولا:’’کم سے کم منہ ہاتھ تو دھو ہی لیتیں راکا جی۔‘‘
’’سب ٹھیک ہے۔ لوٹنا بھی توہے نا ں آج ہی۔‘‘
پھر سبھی نے خوب گھوم گھوم کر تاج دیکھا تھا۔مُن مُن کا ایک ہاتھ دیو کے ہاتھ میں تھا اور ایک راکا جی کے۔ کبھی کبھی تو تینوں آپس میں ہی ایسے محو ہو کر کھو جاتے کہ وجے کو لگتا وہ بیکار ہی اپنی موجودگی سے ان کے بیچ مخل ہو رہا ہے۔ اوپر عمارت کے سفید کالے چبوترے پر دیو بڑی دیر تک سکہ لڑھکا کر اس کے پیچھے بھاگتے اور بچے کو کھلاتے رہے اور وجے کے ساتھ ساتھ راکا جی جالیوں کی بناوٹ، دروازے پر لکھی قرآن کی آیتیں اور بیل بوٹوں کی نقاشی دیکھتی رہیں۔ شام کی پیلی پیلی سہانی دھوپ تھی۔ لانوں کی نرمی سانولی ہو آئی تھی۔ مور پنکھوں اور تاڑ جیسے چوڑے پتوں کے گنبد نما کنج موم بتی کی ہری سنہری لو جیسے لگتے تھے۔ جیسے مستی میں پھولے پھولے کبوتر ہوں اورابھی آرام سے پھریرا لے لیں گے تو چنگاریوں کی طرح سرخ پھول ادھر ادھر بکھر جائیں گے۔ وہ لوگ اندر قبروں کے پاس اپنی آواز گونجاتے رہے۔ کیسے لرزتی سی تیرتی چلی جاتی ہے۔ جیسے بہت ہی مہین ریشوں کا بنا ہوا، گھڑی میں لگے بال سپرنگ کی طرح کہ بڑا سا مخروطی کچھ ہے جو کبھی پھیل جاتا ہے تو کبھی سکڑ کر سمٹ جاتا ہے۔ دیو کی آواز تھی۔’’را ۔۔۔کا۔۔۔ا کا ۔۔۔اا‘‘ ایک دوسرے پر چڑھتے چلے جاتے لفظ۔۔۔دور کھوتے ہوئے۔۔۔ کہیں انجانی گھاٹیوں کی تلہٹیوں میں ’’مُن مُن مو و و ن اا۔۔۔‘‘ دیو دیر تک ڈوبے ہوئے اس کھیل کو کھیلتے رہے تھے۔لگتا تھا ان کے اندرہے کچھ، جو اس کھیل کے ذریعے سے عیاں ہو رہا ہے۔ وہ راکا یا من من کا نام لے دیتے اور دیر تک اندھیرے میں ان لفظوں کو ڈوبتا کھوتا دیکھتے رہتے جیسے ہاتھ بڑھا کر انھیں واپس پکڑ لینا چاہتے ہوں۔ انھیں قبروں میں کو ئی دلچسپی نہیں تھی۔ بڑی دیربعد، بہت مشکل سے جب وہ اس ماحول سے ٹوٹ کر باہرنکلے تو بہت اداس اور کھوئے کھوئے تھے۔وجے کے پاس سے مُن مُن کو لے کر زورسے اسے چھاتی سے بھینچ لیا۔
باہر نکل کر آئے تو دیکھا کہ ندی کنارے والی برجی کے پاس راکا جی چپ چاپ دور شہر اور لال پل کی سمت دیکھتی کھڑی ہیں۔ سندوری آسمان کے گہرے سلیٹی بادل ندی کے چوکھٹے میں وارنش کلر کی طرح پھیل گئے ہیں۔ برجی سے بیچ کے مقبرے تک چبوترے کی کالی سفید شطرنجی کو سمٹتی دھوپ نے ترچھا بانٹ لیا ہے۔ ہوا میں ساڑھی ان کے بدن سے چپک گئی اور کانوں کے اوپر کی لٹیںسرکش ہو آئی ہیں۔دیو بہت دور تک انھیں یوںہی دیکھتے رہے، جیسے انھیں پہچانتے ہی نہ ہوں اور اس سارے ماحول میں سفید پتھروں کے اس بہت بڑے قید خانے میں جیسے سزا یافتہ جل پری کو یوں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیاہو۔۔۔ ’یہ جگہ،یہ ماحول ہے ہی کچھ ایسا۔‘وجے نے اپنے آپ سے کہا اورجان بوجھ کر دوسری طرف ہٹ آیا۔ شاید راکاجی ممتاز کے عشق کی بات سوچ رہی ہوں،اپنے مرنے کے بعد اپنی ایسی ہی یادگار چاہتی ہوں یا کچھ بھی نہ سوچ رہی ہوں،بس پل سے گزرتی ریل کی کھڑکی سے جھانکتی ہوئی تاج کو دیکھ کر حسن اور خیال کی حیران کن بلندیوںمیں کھو گئی ہوں۔
اپنی چھاتی تک اونچی پیچھے کی دیوار سے مُن مُن ندی کی طرف جھانکتا ہوا ہاتھ ہلا ہلاکر نیچے جاتے بچوں کو بلا رہا تھا۔ کوے کائیں کائیں کرنے لگے تھے۔ مُن مُن کے پاس وہ سنگِ مر مر کی دیوار پر جھک کر ہتھیلیاں ٹیکے سامنے کے حصے اور پیڑوں کی گھنی چھتریوں کو دیکھتارہا۔ جانے کب دیو جی برابرہی آ کھڑے ہوئے۔کافی دورہٹ کر اسی طرح برجی کے پاس جھکی راکا جی۔۔۔ہوا میں پھہراتی ساڑھی کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر روکے ہوئے۔
’’اندر کی آواز اور گونج سن کر بڑا عجیب سا تجربہ ہوتا ہے۔۔۔ ہوتا ہے ناں؟جیسے جانے کن ویران جنگلوں اور پہاڑوںمیں آپ کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز کھوگیا ہے اور آپ کی بے ثمر پکاریں ٹوٹ ٹوٹ کراسے پکارتی چلی جاتی ہیں۔۔۔ چلی جاتی ہیں۔۔۔ اور کھو جاتی ہیں۔ وہ عزیز لوٹتا ہے اور نہ آوازیں۔ جیسے زمانوں سے کسی کی بھٹکتی روح اسے پکارتی رہی ہو اور وہ ہے کہ گونجوں اورسایوں میں ہی گھل گھل کر بکھر جاتا ہے۔۔۔ ڈوب جاتا ہے۔۔۔ٹھہرتا ہے اور مجسم نہیں ہو پاتا۔۔۔‘‘
ندی میں تاج کی گھنی گھنی پرچھائیں لہروں میں ٹو ٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ انجانے ہی دیو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
’’ایسا ہی ہوتاہے۔ ایسے ماحول میں ایسا ہی ہوتاہے۔‘‘وجے نے اپنے آپ سے کہہ کر جیسے صورتحال کو لفظ دے کرسمجھنا چاہا:’’جب کوئی کسی کوبہت پیار کرے، بہت پیار کرے اور پھر ایسی خوب صورت منحوس جگہ آجائے تو کچھ ایسی ہی باتیں دل میں آتی ہیں۔ ابھی لان پر چلیں گے، مُن مُن کے ساتھ کلکاریاں ماریں گے۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘
دیو نے سنا اور گہری سانس لے کر بڑی زخمی نگاہوں سے وجے کی طرف دیکھا۔ کچھ کہتے کہتے رک گئے اور دونوں چپ چاپ ہی ٹہلتے ہوئے سامنے کی طرف آ گئے ۔۔۔ مُن مُن راکا جی کے پاس چلا گیاتھا۔ نیچے کی سیڑھیاں اترتے اترتے اچانک ہی دیو نے وجے کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ کچھ کہنے کو ہونٹ کانپے:’’آپ کوپتا ہے مسٹر وجے؟‘‘
وجے آواز اور لہجے سے چونک گیا :’’نہیں، کچھ نہیں۔‘‘
اوپر ہری ساڑھی کی جھلک نظر آئی اورپھر دونوں سیڑھیاں اتر آئے۔جوتے پہنتے ہوئے بولے:’’آپ کو تعجب تو بہت ہو گا کہ یوں ہم اچانک آپ کو اٹھا لائے۔‘‘
’’نہیں تو ! اس میں ایسی کیا بات ہے؟‘‘وجے نے خوش اخلاقی سے کہا۔
’’ہاں بات کچھ نہیں ہے لیکن بہت بڑی بات ہے۔‘‘پھر گہری سانس۔۔۔
اب وجے کو لگا کہ سچ مچ کوئی بہت بڑی بات ہے جو دیو کے اندر سے نکلنے کے لیے چھٹپٹا رہی ہے۔ تب پہلی بار اس کا دھیان اس صورتحال کی بو قلمونی کی طرف گیا۔بیچ کے چبوترے تک دونوں بالکل چپ رہے ۔۔۔ چبوترے کے خو ب صورت کونوںوالے حوض میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔ گہرے سانولے آسمان میں لال لال گلابی بادلوں کے بگولے اتر آئے تھے۔ الٹے تاج کی پرچھائیں دم توڑتے سانپ کی طرح ان کے قدموں پر پھن پٹک پٹک کر لہرا رہی تھی۔دھوپ اوپر سیڑھیوں پر سمٹ گئی تھی۔ اس پر آنکھیں ٹکائے دیو بڑی دیر تک یوں ہی دیکھتے رہے۔ سامنے مُن مُن کو لیے راکا جی چلی آ رہی تھیں لیکن جیسے کوئی کسی کو نہیں دیکھ رہا ہو۔ ہاں وجے کبھی اُسے اور کبھی اِسے یا مشک لے کر آتے بہشتی کو دیکھتا رہا۔ ٹپ ٹپ بوندوں کی مسلسل لائنیں اس کی انگلیو ں سے ٹپک رہی تھیں۔ بڑی احتیاط سے لفظوں کو دھکیل کر دیو بولے:’’یہ ساری کیفیت ۔۔۔ یہ ٹوٹ جانے کی حد تک آ جانے والاچرمراتا تناؤ۔۔۔ موت سے پہلے کے یہ قہقہے ۔۔۔سنجیدگی کا یہ برفیلا کفن ۔۔۔ شاید ہم میں سے کوئی اسے اکیلا نہیں سہہ پاتا۔۔۔ کوئی ایک چاہیے تھا جو اس کی طرف سے ہمارا دھیان ہٹائے رکھے۔۔۔ اس انجام کا گواہ بن سکے۔‘‘
’’میں سمجھ نہیں سکا مسٹر دیو۔۔۔!‘‘ گھبرا کر وجے نے پوچھا تھا۔
بوٹوں کے دونوں پنجوں پر ذرا سا مچک کر دیو نہایت ہی اطمینان سے ہنسے: ’’آپ ۔۔۔ آپ وجے صاحب! ہماری یہ آخری شام ہے۔۔۔‘‘اور وجے کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی انھوں نے کہہ ڈالا:’’میں نے اور راکا نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم لوگوں کو الگ ہی ہوجانا چاہیے۔۔۔ دونوں طرف سے برداشت کی شاید حد ہوگئی ہے۔ نسوں کا یہ تناؤ مجھے یا اسے پاگل بنا دے، یا کوئی ایسی ویسی بے ہودگی کرنے پر مجبور کرے،اس سے تو اچھا ہو کہ دونوں الگ ہورہیں۔ چاہے تو وہ کسی کے ساتھ سیٹل ہوجائے، وہ مُن مُن کو رکھنا چاہتی ہے تو رکھے، ویسے جب بھی وہ اسے بوجھ لگے،بلا تکلف میرے پاس بھیج دے۔‘‘وجے کا سر بھنا اٹھا۔ وہ چپ چاپ حوض کی گہرائی میں تڑپتی تاج کی پرچھائیں پر نگاہیں ٹکائے رہا۔
’’لیکن آپ دونوں۔۔۔‘‘وجے نے کہنا چاہا۔
دیو نے ہاتھ پھیلا کر روک دیا:’’وہ سب ہو چکا ہے۔ سارے تجربے ختم ہو گئے۔ ہم نے طے کیا کہ کیوں نہ اپنی آخری شام ہنسی خوشی کاٹیں۔۔۔ دوست بنے رہ کر ہی ہنستے ہنستے رخصت ہو لیں۔۔۔ ‘‘پھر کچھ دیر تک چپ رہ کر کہا:’’راکاکی بڑی تمنا تھی کہ تاج دیکھوں، شادی کی پہلی رات اس نے چاہا تھا کہ ہنی مون یہاں ہو لیکن ۔۔۔ لیکن ۔۔۔‘‘پھر ہاتھ جھٹک دیا:’’عجب ملاپ ہے ناں ۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘لیکن وجے کو لگا تھا جیسے کسی ڈیم کی ریلنگ پر جھکا کھڑا ہے اور نیچے سے لاکھوں ٹن پانی دھاڑ دھاڑ کرتا گرتا چلا جارہا ہے ۔۔۔ گرتا چلا جا رہا ہے اور اس کا سر چکرا اٹھا۔۔۔نہیں اس سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔یہ سب تو صرف وہ فرض ادا کر رہا ہے۔ کہیں ایسی بے یقینی بات۔۔۔ دھیان اس کا ٹوٹا دیو کی آواز سے:’’ اسے روکو راکا، مالی وغیرہ منع کریں گے۔۔۔ نہیں مُن مُن! ‘‘آواز بہت ملائم تھی اور پھر دیو نے دوڑ کر پیار سے مُن مُن کو دونوں بانہوں میں اٹھا لیا اور اس کے پیٹ میں اپنا منہ گڑا دیا۔ مُن مُن کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ آنکھوںمیں لاڈ بھرے راکا جی مسکراتی رہیں۔ نہیں ابھی جو کچھ اس نے سنا تھا، وہ ان لوگوں کے آپسی رشتوں کے بارے میں نہیں تھا۔ ہو نہیں سکتا۔
بہت بار وجے نے راکا جی کا چہرہ دیکھنا چاہا لیکن لگا وہ ادھر ادھر کے سارے ماحول کو ہی پینے میں مشغول ہیں۔ چڑیاں چہچہانے لگی تھیں۔
انہی جالیوں پر اسی طرح تو وہ لوگ چل رہے تھے کہ پاس آ کردھیرے سے دیو نے کہا تھا: ’’راکا سے مت پوچھیے گا۔‘‘
کیا پوچھے گا وہ راکا جی سے۔۔۔؟
’’سوری آپ کو گھسیٹ لائے ہم لوگ۔‘‘
اور اس بار زخمی نگاہوں سے دیکھنے کی باری وجے کی تھی۔۔۔ اتنا غلط سمجھتے ہیں آپ۔۔۔
چار پانچ سال ہو گئے لیکن بات کتنی تازہ ہو آئی ہے۔۔۔ وہ، دیو، راکا جی اور مُن مُن اسی طرح تو لوٹ رہے تھے۔ چپ چاپ، اداس اور منحوس۔۔۔شام کا بجرارات کا کنارہ چھونے لگا تھا۔ جیسے کسی برسوں کی طوفانی یاترا سے وہ تینوں لوٹ کر آ رہے ہوں۔ پیڑوں اور عمارتوں کی پرچھائیاں خوب لمبی لمبی چوڑی دھاریوں کی طرح پیچھے چلی گئی تھیں۔۔۔کنجوں اور لان کی ہریالیاں عجب ٹٹکی ٹٹکی ہو اُٹھی تھیں۔ ہریالی کے سرمئی دھندلے کانچ پر سفید پھول چھٹک آئے تھے۔
میرا کے چشمے کے کانچوں میں جھانکتی پرچھائیں کو دیکھ کر جانے کیوں اسے وہی یاد تازہ ہو گئی تھی۔ وہی تاج جو اس دن حوض میں جیسے آسمانی جارجٹ کے پیچھے سے جھانک رہا تھا اور اپنے آپ سے لڑتے ہوئے دیو اُسے بتا رہے تھے۔آج اگر دیو ہوتے تو کیا جواب دیتا۔۔۔؟تو کیا وہ بھی اسی طرح الگ ہو رہے ہیں۔۔۔؟
اچانک چونک کر اس نے میرا کو دیکھا۔۔۔ اسے لگا، جیسے اس نے کہا ہے: ’’کچھ کہہ رہی تھی کیا؟‘‘
’’میں ۔۔۔؟نہیں تو۔‘‘پھر وہی سکوت اور گھسٹتی اداسی کا کمبل۔
لگا جیسے کوئی مردہ لمحہ ہے جس کا ایک سرا میرا پکڑے ہے اور دوسرا وہ اور اسے چپ چاپ دونوں رات کے سناٹے میں کہیں دفنانے جا رہے ہوں۔۔۔ ڈرتے ہوں کہ کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے۔۔۔ کوئی جان نہ لے کہ وہ قاتل ہیں۔۔۔کہیں کسی جھاڑی کے پیچھے اس لاش کو پھینک دیں گے اور خوش بو دار رومالوں سے کس کر خو ن پونچھتے ہوئے چلے جائیں گے۔بھیڑ میں کھو جائیں گے۔۔۔ جیسے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے میں ڈر لگتا ہے ۔۔۔کہیں الزام لگاتی آنکھیں قتل قبول کرنے کو مجبور نہ کر دیں۔
باہر وہ دونوں تانگہ لیں گے ۔۔۔ جھٹکے سے موڑ لیتا ہوا تانگا ڈھال پر دوڑ پڑے گا اور تاج محل پیچھے چھوٹتا جائے گا اور پھر اچھا کہہ کر سوکھے ہونٹوں کی بھری آواز پر مسکراہٹ کا کفن لپیٹ کر دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہو جائیں گے۔۔۔