پا بجولاں

کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا! ۔

تصور کیجئے کہ موجودہ پاکستانی میڈیا اگر سن اکہتر میں بھی یوں ہی سب سے پہلے سب سے تیز ہرخبر پر نظر رکھے ہوئے لمحہ بہ لمحہ ارض و سما اور دنیا بھر کی خبروں کے سہارے جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتا ،تو مشرقی پاکستان ٹوٹنے کی خبر کیسے نشر کرتا؟

روزنِ دیوار سے ملا نے دیکھا

حضرت مولانا نے بلاتوقف حکم صادر فرمایا کہ "پس تحقیق اس گناہ ِ کبیرہ کی سزا، سنگسار کرنا ہی ٹھہرتی ہے۔" اور پھر میدان سج گیا، لورالائی کے قریب کلی کوئی میں شادی شدہ مر د ا ور خاتون کو بدکاری کا مرتکب قرار دے دیا گیا،

"آپ کریں تو ڈانس، ہم کریں تو۔۔۔”

ویسے حضرت آپ کب تک 'اسلام' کے نام پر ایسے اوچھے بیانات اُچھال کر معاشرتی انتشار پیدا کرتے رہیں گے؟ میں نے آج تک آپ جناب کے منہ سے کسی جلسے میں اخلاقیات، سماجیات یا اسلام کی رو سے اقلیتی اور بالخصوص انسانی حقو ق کی بات نہیں سنی۔

میں بھی سوچوں، تُو بھی سوچ۔۔۔۔

مٹی کی خوشبو خون میں رچی ہوتی ہے، پھر چاہے آپ اِدھر کے ہو جائیں یا اُدھر کے، آنکھوں میں ایک خاص چمک، لہجے کی مٹھاس اور طبیعت کا اوتار آپ کو اپنی مٹی سے پیوستہ رکھتا ہے، دھرتی ماں کی محبت نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔

!! مولانا کے نام ایک پریم پَتر۔۔

شہادت کی بات ہو تو ہمارے 'ملاوں' نے 'دلیل و منطق اور فہم و فراست 'کی آخری حدووں کو کامیابی سے عبور کر تے ہوئے، حکیم اللہ محسود کو شہیدقرار دے ڈالا۔ بھانت بھانت کی بولیوں کے بیچ ایک آواز ہمارے عزیزم قبلہ حج...