تتھا گت

تتھا گت نظمیں "جاتک کتھائیں” کا ایک مختلف روپ ہے۔ "تتھا گت” کا مطلب ہے، "اِدھر سے آئے اور اُدھر کو گئے”۔ مہاتما بدھ اپنے ویاکھیان چلتے چلتےہوئے سناتے تھے اور اس طرح گائوں گائوں گھومتے ہوئے لوگ ان کے پیچھے گروہ کی شکل میں چلتے جاتے تھے۔ جہاں کہیں تھک ہار کر بیٹھ گئے، کچھ دیر آرام کیا اور پھر چلنے لگے۔ دیر سے آنے والے جب پوچھتے تھے، "مہاتما کس طرف کو گئے” تو ان کا جواب ہوتا تھا۔ "تتھا گت”۔۔۔۔ انیسویں صدی عیسوی میں زین بدھ مت کے جاپانی پیروکاروں نے ان کتھاوں کا سلسہ شروع کیا اور نیپال کی ترائی کے علاقوں سے جو داستانیں اکٹھی کیں ان میں یہ بھی تھیں جو لوک کہانیوں کی شکل میں صدیوں سے چلتی آ رہی تھیں۔ ان میں ہمیشہ تین کردار ہی پیش کیے جاتے تھے۔ مہاتما بدھ خود بنفسِ نفیس، ان کے دو پہلے چیلے، کشیپ اور آنند ۔۔۔یہ کہانیاں ایک مکالمے کی صورت میں تھیں۔ جن میں کشیپ یا آنند ایک سوال پوچھتے اور بدھ اس کا جواب آسان لفظوں میں دیتے۔ کئی بار یہ سوال بدھ وِہار (آشرم، بارگاہ)میں آنے والا کوئی شخص پوچھتا ۔۔۔۔ میں نے اپنی تحقیق میں جب اپنا خاندانی رشتہ بدھ کے ان دو چیلوں سے ملتا پایا تو ان کڑیوں کی تلاش میں 1960 کی دہائی میں ان سب علاقوں کی تین بار پیدل یاترا کے بعد اپنے نوٹس اپنی ڈائریوں میں لکھے۔ اور تب میں نے ان نظموں کی تخلیق شروع کی، جو پہلے انگریزی میں شایع ہوئیں۔ اب یہ ان کا اردو روپ آپ دیکھ رہے ہیں۔

تین چوتھائی ہمارا مغز پوشیدہ ہے بھکشو

’’یاد کیا رہتا ہے مجھ کو؟ آپ نے پوچھا تھا اک دن اور میں کوئی تسّلی بخش اُتّر دے نہیں پایا تھا اس کا !‘‘ دھیان میں ڈوبے ہوئے بیٹھے تھے، جب آنند نے اس گفتگو کو پھر سے چھیڑا جو کبھی آدھی ادھوری رہ گئی تھی۔ ’...

جنم سے چتا تک

’’میں نے پہلی بار یہ منظر تبھی دیکھا تھا جب جب رتھ بان نے مجھ کو بتایا تھا کہ مُردہ جسم کے انتم چرَن کی یاترا میں اُس کو اگنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔۔۔ تب اک بار پھر اس جسم کے تینوں عناصر، مٹّی، پانی اور ہو...

دوزخ

“پاپ کا کیا انجام ہے؟” اک بھکشو نے پوچھا آنکھیں موندے ’دھیان‘ کی گہری حالت میں تھے لیِن تتھاگت چونک گئے اس بچوں جیسی بھولی بھالی بات کو سُن کر اک لمحہ خاموش رہے پھر آنکھیں کھولیں بولے، “بھکشو، اور بھی ...