فرخ یار: تم نے دیکھا نہیں
انہی اطراف میں
روشنائی کے سیال جادو کی تہہ میں کہیں
دل دھڑکنے کے اسباب میں
انہی اطراف میں
خود سے آگے نکل جانے کی آرزو
جس نے اک عمر خلقت کو بے چین رکھا
مرے آئینوں پہ چمکنے لگی ہے
اس دن تو وہ خود بھی شکستہ قابلِ رحم تھا لیکن،
کون تھا جس کے لئے
اس کی ہمدردی نہیں تھی،
جس پر اس کو ترس نہیں آیا تھا،
سو اُ س نے اِس لمحے کے زیر اثر،
سب اشیا ء کو دیکھا
میں اک عورت جس نے تجھ کو اپنی کوکھ سے جنم دیا
تو نے مجھ کوپسلی کی تمثیل لیا??
اور پسلی سے تو نے مجھ کو ٹیڑھی پسلی کر ڈالا
جس کو سیدھا کرتے کرتے صدیاں گزریں کتنی عورتیں ٹوٹ گئیں ہیں
لیکن تو پھر بھی ٹیڑھا