نظم نما

شکست کس کی

شہزاد نیر: عجیب منظر ھے ایک شہہ رگ نےدھار خنجر کی کند کر دی ھے ایک سر وہ جو اپنے تن سے جدا ھوا ھے مرا نہیں ھے

چار اطراف

فرخ یار: تم نے دیکھا نہیں انہی اطراف میں روشنائی کے سیال جادو کی تہہ میں کہیں دل دھڑکنے کے اسباب میں انہی اطراف میں خود سے آگے نکل جانے کی آرزو جس نے اک عمر خلقت کو بے چین رکھا مرے آئینوں پہ چمکنے لگی ہے

جوتے بہت کاٹتے ہیں

ابرار احمد: اس جگہ شہر تھا اور سیٹی بجاتے ہوئے نو جواں اس پہ اتری ہوئی رات سے یوں گزرتے کہ جیسے یہی ہو گزرگاہِ ہستی اسی میں کہیں ہو سراغ تمنا ---

ہجومِ گریہ

ہمیں بھی رو لے ہجومِ گریہ ہمیں بھی رو لے کہ ہم وہی ہیں جو تیز آندھی میں صاف چہروں کو دیکھ لیتے تھے اور سانسوں کو بھانپتے تھے

"اس دن۔۔۔۔۔۔۔”

اس دن تو وہ خود بھی شکستہ قابلِ رحم تھا لیکن، کون تھا جس کے لئے اس کی ہمدردی نہیں تھی، جس پر اس کو ترس نہیں آیا تھا، سو اُ س نے اِس لمحے کے زیر اثر، سب اشیا ء کو دیکھا

نظم

میں اک عورت جس نے تجھ کو اپنی کوکھ سے جنم دیا تو نے مجھ کوپسلی کی تمثیل لیا?? اور پسلی سے تو نے مجھ کو ٹیڑھی پسلی کر ڈالا جس کو سیدھا کرتے کرتے صدیاں گزریں کتنی عورتیں ٹوٹ گئیں ہیں لیکن تو پھر بھی ٹیڑھا