کوئٹہ کے ماما غلام رسول اور سیالکوٹ کے کامران سلیم کا دکھ ایک ہے مگر رونے کا انداز الگ ہے ۔ دونوں اپنی اپنی زمین کی محبت میں مبتلا ہیں اور اس محبت میں ہر اس شخص سے نفرت کرتے ہیں جو اپنی رعونت اور طاقت کے قدموں تلے اس کے حسن اور معصومیت کو روندنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماما غلام رسول چلتن کے دامن میں ہزار گنجی پارک کا چوکیدار ہے ۔ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس پارک میں لالہ کے لال پیلے پھولوں سے لے کر صنوبر کے درختوں تک، ان درختوں کے خوشبودار تنوں میں چونچ مارنے والے ہُد ہُد سے لے کر آسمانوں پہ پر پھیلائے ہوئے باز تک اور مٹی سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے خرگوش سے لے کر پہاڑوں کے سینے پر چھلانگیں مارتے ہوئے مارخور تک ہر چرند پرند پھول پھل اور جڑی بوٹی ، مذہبی لسانی اور نسلی بنیادوں سے بالاتر کسی تصوراتی انسانی آبادی کی طرح ایک ساتھ رہتے تھے ۔ مگر اب ماما غلام رسول پارک کے عجائب گھر میں رکھے حنوط شدہ بیسیوں پرندوں اور جانوروں کی طرف دیکھ کر بھرائی ہوئی غصیلی آواز میں بتاتا ہے، ’’پہلے یہ سب یہاں ہوتے تھے، لیکن اب ان کا آدھا بھی نہیں ہے ۔ سب رشوت میں کھلادیا چھوٹے افسروں نے بڑے افسروں کو ۔”
ہاں سر! کچھ ایماندار لوگ پیسے کے بجائے شکار کی رشوت کھاتے ہیں۔اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ بھی حرام ہے، پیسے سے زیادہ حرام ۔ کون سمجھائے صاحب کہ شکار تو ضرورت میں جائز ہے، شوق اور مستی میں ظلم ہے، زیادتی ہے
"رشوت ؟”
"ہاں سر! کچھ ایماندار لوگ پیسے کے بجائے شکار کی رشوت کھاتے ہیں۔اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ بھی حرام ہے، پیسے سے زیادہ حرام ۔ کون سمجھائے صاحب کہ شکار تو ضرورت میں جائز ہے، شوق اور مستی میں ظلم ہے، زیادتی ہے ۔”
بالکل یہی بات کامران سلیم کرتا ہے ۔ مگر وہ ماما غلام رسول کی طرح بے بس نہیں ہے جو اپنی زمینوں کے پرندوں کی حنوط شدہ لاشوں کے اردگرد قبر نما عجائب گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھا رو رہا ہے ۔ کامران سلیم آگے بڑھ کر ہاتھ روکتا ہے، اپنی پوری قوت سے کیونکہ اس کے پاس ہتھیار ہے ۔ شکاریوں کی بندوقوں سے بھی بڑا ہتھیار ۔۔۔۔ کیمرہ۔ شکاریوں کی زبان میں بولوں تو وہ ایک فوٹوگرافر ہے ۔ اور شکار ہونے والوں کی بولی میں بولوں تو وہ ایک عاشق ہے جو اپنے معشوق کے حسن اور معصومیت کی تصویریں لے کرکسی وکیل کی طرح ان کی ایک کتاب نما فائل بناکر ہر فورم پر ان کی زندگی کے لئے لڑ رہا ہے ۔ اور اس کتاب کا نام ہے”Birds of Sialkot”۔
ہاں سر! کچھ ایماندار لوگ پیسے کے بجائے شکار کی رشوت کھاتے ہیں۔اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ بھی حرام ہے، پیسے سے زیادہ حرام ۔ کون سمجھائے صاحب کہ شکار تو ضرورت میں جائز ہے، شوق اور مستی میں ظلم ہے، زیادتی ہے
میں نے جب پہلی بار Birds of Sialkotکا نام سنا تو تاثر یہ تھا کہ وقت گزاری کے لئے کسی منچلے فوٹوگرافر کی ایک بچگانہ سی کوشش ہوگی جسے باہر نکلنے کی توفیق ہی نہیں اور وہ اپنے گھر کی منڈیر پر بیٹھ کر گلی محلے کی چڑیوں کی تصویریں کھینچتا رہا ہے اور اب انہیں ایک کتاب کے پنّوں پر چھپواکر لوگوں کو دکھارہا ہے ۔ سچ پوچھو تو میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے منعقدہ اسلام آباد لٹریری فیسٹول میں Birds of Sialkot کی تقریب رونمائی میں شریک ہوا تو اس کی وجہ نور الحسن اور مستنصرحسین تارڑ تھے ۔ ایک کی مروت میں اور دوسرے کی عزت میں ۔ کیونکہ ایک میزبان تھا اور دوسرا مبصر ۔ میرا خیال تھا کہ شاید یہ دونوں حضرات بھی دوستی نبھا رہے ہیں مگر میرا خیال غلط نکلا ۔ تقریب کے اختتام تک میں نے اندازہ لگالیا کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں ہی اس قابل ہیں کہ ان کے تعارف کے لئے نور الحسن کی مٹھاس اور تعریف کے لئے مستنصر حسین تارڑ کی شیرینی لازم تھی ۔
بے شک کامران نے گھر کی منڈیر پر ہی بیٹھ کر فوٹو گرافی کی ہے مگر یہی اس کا سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ اتنے چھوٹے سے دائرے میں حسن کے کتنے پہلو نکال رہا ہے یا پھر اس کے محدود دائرے میں کتناحسن ہے ۔ دراصل کامران یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اگر سیالکوٹ میں اتنے خوبصورت اور اتنی نسلوں کے پرندے ہیں تو آپ اس سے پرندوں کے معاملے میں اس ملک کی زرخیزی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
اگر آپ نے رسول حمزہ توف کی کتاب ’’میرا داغستان ‘‘پڑھی ہے تو Birds of Sialkotدیکھنے کے بعد آپ یقیناًیہ رائے قائم کریں گے کہ جس طرح سے اپنی زمین کا قصیدہ حمزہ توف نے قلم سے لکھا ہے ویسا ہی کچھ کامران نے کیمرے سے کرنے کی کوشش کی ہے
اگر آپ نے رسول حمزہ توف کی کتاب ’’میرا داغستان ‘‘پڑھی ہے تو Birds of Sialkotدیکھنے کے بعد آپ یقیناًیہ رائے قائم کریں گے کہ جس طرح سے اپنی زمین کا قصیدہ حمزہ توف نے قلم سے لکھا ہے ویسا ہی کچھ کامران نے کیمرے سے کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک فوٹوگرافر کے لئے یہ کام ایک لکھاری سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے کہ اس نے ایک کلک (Click)میں اپنی بات کرنی ہوتی ہے۔ ایک ہی فریم میں تبصرہ کرنا ہوتا ہے ۔ اور پھر جہاں آپ کا موضوع آزاد پرندے ہوں وہاں تو اور مشکل ۔ کامران کبھی ان مشکلات کا ذکر نہیں کرتا۔ اس کی ہر تصویر خود بیان کرتی ہے کہ اس نے اس ایک Clickکے لئے کتنا کشٹ کاٹا ہوگا۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کامران نے نہ صرف انتظار کیا ہے بلکہ ان پرندوں کے آگے ہاتھ بھی جوڑے ہیں۔ شکاریوں سے ہراساں پرندے کامران کے کیمرے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ کامران بھی شاید یہی خوف دکھانا چاہتے ہیں؛ وہ خوف کہ کوئٹہ سے لے کر سیالکوٹ تک اس آزاد ملک کا ہر پرندہ جس کی قید میں ہے ۔ اس کی آزادفضائیں کہیں عرب شیوخ کے شوق کے لئے مخصوص ہیں تو کہیں افسرانہ رشوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور کہیں کسی سپاہی کا لہو گرم کرنے کے کام آتی ہیں۔
کامران ان فضاؤں کو ان پرندوں کے لئے آزاد کرنے کا عزم لے کر سیالکوٹ چل پڑا ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایک نہ ایک روز ماما غلام رسول کے پاس پہنچے گا اور یقیناًاس دن اس ملک کی سڑکیں ، گلیاں ، پہاڑ، صحرا ، دریا اور ساحل سب خوف سے آزاد ہوجائیں گے کیونکہ جب بندوق کی نلی پرندوں کا احساس کرنے لگے گی تو اسے انسانوں پر بھی رحم آہی جائے گا۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: