گذشتہ اقساط کے مطالعہ کے لئے درج ذیل لنکس استعمال کیجئے (لنک نئے ٹیب میں کھلیں گے)

قسط نمبر 1قسط نمبر 2، قسط نمبر 3، قسط نمبر 4قسط نمبر 5

"وقت کی مختصر تاریخ” کی مختصر تاریخ

مجھے اب بھی اپنی کتاب A BRIEF HISTORY OF TIME کو ملنے والی پذیرائی پر حیرت ہوتی ہے۔ مسلسل 37 ہفتوں تک یہ نیو یارک ٹائمز کی بیسٹ سیلرز لسٹ میں رہی اور سنڈے ٹائمز آف لنڈن کی لسٹ میں 28 ہفتے رہ چکی ہے (یہ کتاب پہلے امریکہ اور بعد ازاں برطانیہ میں شائع ہوئی)۔ اس کا بیس زبانوں میں ترجمہ کیا جا رہا ہے (اگر آپ امریکی زبان کو انگریزی سے مختلف گردانتے ہیں تو 21 زبانوں میں)۔ یہ سب اس توقع سے کہیں زیادہ تھا جو 1982 میں مجھے کائنات کے بارے میں ایک پاپولر کتاب لکھنےکے حوالے سے تھی۔ ضمناً میری نیت یہ تھی کہ اس کتاب کی مد سے ہونے والی آمدنی سے میں اپنی بیٹی کی سکول فیس ادا کر سکوں گا(در حقیقت جب کتاب شائع ہو کر مارکیٹ میں آئی تو میری بیٹی اپنے سکول کے آخری سال میں تھی)۔ لیکن (یہ کتاب لکھنے کی) بنیادی ضرورت جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے ا کائنات کے بارے میں فہم کس حد تک بڑھ چکا ہے ، اور کیسے ہم اس مکمل نظریے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو کائنات اور اس میں موجود ہر شے کی وضاحت کر دے گا۔

میری خواہش تھی کہ اگر میں کتاب لکھنے کے لئے وقت صرف اور کوشش کر رہا ہوں تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنا چاہئے۔ میری سابقہ تکنیکی کتب کیمبرج یونی ورسٹی پریس نے شائع کی تھیں۔ پبلشر نے کتابوں کو بہترین طریق پر شائع کیا لیکن مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں جتنی تعداد میں لوگوں تک یہ کتاب پہنچانا چاہتا ہوں اس کے لئے کیمبرج یونی ورسٹی پریس موزوں رہے گا۔ اسی لئے میں نے ایک لٹریری ایجنٹ Al Zucherman سے رابطہ کیا، جو میرے ایک لولیگ کا برادرِ نسبتی تھا۔ میں نے انھیں پہلے باب کا ڈرافٹ دیا اور کہا کہ میں یہ کتاب اس شکل میں شائع کرانا چاہتا ہوں کہ یہ ایئر پورٹ کے بل سٹال میں بھی بکنے والی ہو۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ایسا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ یہ علمی شخصیات اور طالب علموں میں شاید اچھے طریق پر فروخت ہو سکے لیکن یہ کتاب Jeffrey Archer کے گھر داخل نہیں ہو سکتی۔

میں نے 1984 میں Zuckerman کو کتاب کا پہلا مسودہ دیا۔ اس نے اسے بہت سے پبلشرز کو بھیجا اور مجھے تجویز دی کہ میں Norton والوں کی پیش کش قبول کر لوں، جو امریکہ میں کتابوں کا ایک اعلیٰ درجے کا ادارہ تھا۔ لیکن میں نے اس کے برعکس Bantam Books کی پیش کش قبول کی جس کا پاپولر کتابوں کی جانب زیادہ رجحان تھا۔ اگرچہ Bantam کا سائنس کی کتب شائع کرنے میں کوئی تخصص نہ تھا، لیکن ان کی کتب ایئر پورٹ کے سٹالز پر وسیع پیمانے پر دستیاب ہوتی تھیں۔ ان کی کتاب کی اشاعت کے لئے رضامندی ظاہر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ Bantam کے ایک ایڈیٹر کو یہ کتاب دلچسپ لگی تھی، ان کا نام Peter Guzzardi تھا۔ انھوں نے اس کتاب کی اشاعت کو نہایت سنجیدگی سے لیا اور مجھے کتاب دوبارہ لکھنے کو کہا تاکہ وہ اُن جیسے نان ٹیکنیکل افراد کو سمجھ آ سکے۔ جب بھی میں ایک باب لکھ کر انھیں بھیجتا، وہ سوالات اور اعتراضات کی ایک طویل فہرست کے ساتھ اسے واپس بھیج دیتے تاکہ اسی باب کو مکرر لکھنے سے وہ سوالات اور اعتراضات پیدا نہ ہوں۔ ایک وقت ایسا آیا جب مجھے لگا کہ یہ سلسلہ تو کبھی تھمنے والا نہیں۔ لیکن وہ ٹھیک تھے کیونکہ اس ساری کوشش کے نتیجے میں ہی کتاب کی اس قدر بہترین اشاعت ہوئی۔

Bantam کی پیش کش قبول کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد میں نمونیا میں مبتلا ہو گیا ۔ مجھے tracheostomy آپریشن کرانا پڑا جس سے میری بولنے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہو گئی۔  کچھ وقت تک میں صرف اپنے ابرو کے اشاروں کی مدد سے لوگوں سے ربط رکھ پاتا تھا ، (وہ بھی تب ) جب میرے سامنے حروف کا کارڈ لایا جاتا۔ اگر مجھے کمپیوٹر پروگرام نہ دیا گیا ہوتا تو کتاب کو مکمل کرنا نا ممکن ہو جاتا۔ کمپیوٹر ذرا سست تھا لیکن تب میری سوچنے کی صلاحیت بھی سست ہو چکی تھی لہذاٰ یہ میرے لئے موزوں ثابت ہوا۔ اور اسی کی مدد سے میں نے اپنا پہلا ڈرافٹ تقریباً سارے کا سارا دوبارہ لکھا، تاکہ Guzzardi کے اشکالات دور کئے جا سکیں۔ مسودوں کی دہرائی میں میرے ایک طالب علم Brian Whitt نے میری مدد کی۔

میں Jacob Bronowski کی ٹیلی وژن سیریز The Ascent of Man سے بہت متاثر تھا۔ (ایسا جنسی تعصب رکھنے والے نام کی شاید آج اجازت نہ دی جائے۔) یہ پروگرام ایک ایسا احساس پیدا کرتا تھا کہ نسلِ انسانی وحشی اور جنگلی حالت سے صرف پندرہ ہزار سال کے اندر ترقی کر کے اپنی موجودہ حالت کو پہنچی ہے۔ میں بھی اسی طرز کا احساس لوگوں میں پیدا کرنے کاخواہش مند تھا کہ ہمارا کائنات کا فہم بھی ترقی کرتے کرتے اب اسے چلانے والے قوانین کے مکمل فہم کو پہنچنے والا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ کم و بیش ہر ایک شخص اس امر میں دلچسپی رکھتا ہو گا کہ کائنات کیسے چل رہی ہے، لیکن بہت سے لوگ ریاضیاتی مساوات کا فہم نہیں رکھتے، میں خود بھی مساوات کی بہت زیادہ پروا نہیں کرتا۔ اس کی ضمنی وجہ یہ ہے کہ میرے لئے مساوات لکھنا مشکل ہے لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں مساوا ت کا وجدانی احساس نہیں رکھتا۔ اس کی بجائے میں تصاویر کی صورت میں سوچتا ہوں، میرا ارادہ اس کتاب میں اپنی ذہنی تصاویر کو الفاظ میں ڈھالنا تھا، اور ساتھ میں کچھ تصاویر اور مثالوں کی مدد لینا تھا۔اس طرح سے، مجھے امید تھی کہ بہت سے لوگ کامیابی کے اس جذبے میں میرے ساتھ شریک ہوں گے کہ انسانیت گزشتہ 25 برسوں میں طبیعیات میں اس قدر ترقی کر چکی ہے۔

تاہم، اگر ہم ریاضیاتی مساوات سے مکمل احتراز بھی برتیں، اس کے باوصف کچھ تصورات   سے ہم نہ صرف نا آشنا ہیں بلکہ ان کی وضاحت کرنا بھی مشکل ہے۔ اس سے ایک مسئلہ کھڑا ہوتا ہے: کیا مجھے ان تصورات کی وضاحت کرنے کی کوشش میں لوگوں کو الجھا دینا چاہئے، یا مشکل تصورات کو کتاب میں شامل ہی نہیں کرنا چاہئے؟ کچھ نا آشنا تصورات جیسے دو افراد اگر مختلف رفتار سے حرکت میں ہیں تو وہ کسی بھی عمل کا دورانیہ مختلف ریکارڈ کریں گے (یعنی فرض کیجئے اگر یہ دونوں افراد سٹاپ واچ کی مدد سے ایک مخصوص اونچائی سے گرتی ہوئی گیند کے زمین تک پہنچنے کا وقت ماپیں، تو دونوں کی سٹاپ واچ مختلف وقت ریکارڈ کرے گی)، یہ تصور اس تصویر کے لئے ضروری نہیں تھا جو میں الفاظ کی مدد سے کھینچنا چاہ رہا تھا۔ اس لئے میں نے یہ محسوس کیا کہ میں یہ تصورات اجمالاً بیان کر دوں گا پر ان کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا۔ لیکن دوسرے مشکل تصورات ان امور کے ساتھ خاص تھے جو میں واضح کرنا چاہتا تھا۔ دو تصورات بالخصوص ایسے تھے جو میں سمجھتا تھا کہ مجھے شامل کرنے چاہییں۔ ان میں سے ایک تو نام نہاد sum over histories تھا۔ اس تصور کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کی کوئی ایک مخصوص تاریخ نہیں ہے بلکہ کائنات کی ہر ممکن تاریخ کا ایک مجموعہ ہے، اور یہ تمام تاریخیں (histories) ایک جتنی ہی حقیقی ہیں (چاہے اس کا جو بھی مطلب ہو)۔ دوسرا تصور ، جو sum over histories کا ریاضیاتی فہم تشکیل دینے کے لئے ضروری ہے، وہ "تصوراتی وقت” (imaginary time) کا ہے۔ لیکن اب جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ مجھے ان دو نہایت مشکل تصورات کی صراحت میں مزید محنت کر نی چاہئے تھی، بالخصوص "تصوراتی وقت” کے تصور کو سمجھانے میں، جو کتاب کا وہ موضوع ہے جسے سمجھنے میں لوگوں کو سب سے زیادہ مشکل پیش آتی ہے۔ تاہم، بالکل درست طور پر یہ سمجھنا کہ "تصوراتی وقت” کیا ہے، ضروری نہیں – صرف اتنا ہے کہ یہ اس وقت سے مختلف ہے جسے ہم حقیقی وقت (real time) کہتے ہیں۔

جب کتاب کی اشاعت کا وقت قریب تھا تب اسے ایک سائنس دان کو بھیجا گیا تاکہ وہ  Nature میگزین کے لئے اس پر اپنے تاثرات قلمبند کر سکے۔ انہیں یہ دیکھ کر بہت ناگواری ہوئی کہ کتاب غلطیوں سے بھری پڑی ہے، تصاویر اور خاکوں پر غلط لیبل لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے Bantamپریس کو کال کی، جنہوں نے اتنی ہی ناگواری محسوس کی اور اسی دن یہ فیصلہ کیا کہ کتب خانوں کو تقسیم شدہ تمام کاپیاں واپس منگوائی جائیں گی اور یوں شائع شدہ تمام کاپیوں کو ضائع کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد انھوں نے تین ہفتے پوری شد و مد کے ساتھ کتاب کی غلطیاں درست اور ری چیکنگ کرنے میں لگائے، اور درست شدہ کتاب اپریل کے مہینے میں کتب خانوں میں دستیابی کے لئے تیار تھی۔ اس وقت تک ٹائم میگزین نے میرا پروفائل شائع کر دیا تھا۔ اور کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی مانگ نے ایڈیٹرز کو حیران کر دیا۔ کتاب اس وقت امریکہ میں سترہویں بار اور برطانیہ میں دسویں مرتبہ چھاپی جا رہی ہے

اتنی تعداد میں لوگوں نے اسے کیوں خریدا؟ میرے لئے مشکل ہے کہ میں معروضی تبصرہ کرپاؤں گا، اسی لئے میں لوگوں کی رائے کو زیادہ وقعت دوں گا۔ میں نے زیادہ تر آراء کو ، اگرچہ وہ میرے حق میں تھیں، بے رنگ پایا۔ اُن سب کا ایک ہی فارمولا تھا: سٹیفن ہاکنگ کو Lou Gehrig  یا موٹر نیوران نامی بیماری ہے (امریکی تبصروں میں بیماری کا نام Lou Gehrig جبکہ برطانوی تبصروں میں بیماری کا نام motor neuron disease لکھا گیا)۔ وہ ایک وہیل چیئر تک محدود ہے، بول نہیں سکتا، اور صرف چند انگلیاں ہلا سکتا ہے۔ ان سب کے باوجود اس نے سب سے بڑے  سوال ، یعنی ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں، پر ایک کتاب لکھ ڈالی ہے۔ ایک اور مبصر کہتا ہے ، "(اس سوال کا ) جو جواب ہاکنگ تجویز کرتا ہے وہ ہ یہ ہے کہ کائنات نہ تخلیق کی گئی ہے نہ تباہ شدہ ہے: یہ بس ہے”۔ دوسرا مبصر کہتا ہے،”اس تصور کو واضح کرنے کے لئے ہاکنگ "تصوراتی وقت” (imaginary time) کومتعارف کراتا ہے، جو میرے لئے (یعنی مبصر کے لئے) سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ اس کے باوجود اگر ہاکنگ درست کہہ رہا ہے اور ہم آخرِ کار ایک مکمل نظریہ وضع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ہم یقیناً خدا کا دماغ سمجھ جائیں گے”۔ (کتاب میں اس مدعے کو ثابت کرنے والے باب کے آخر میں میں نے آخری فقرہ حذف کر ڈالا، جو کہ یہ تھا کہ ہم خدا کا دماغ جان سکتے ہیں۔ اگر میں ایسا کر چکا ہوتا، تو کتاب کی فروخت شاید پچاس فیصد کم ہو جاتی)

برطانوی اخبار The Independent، میں ایک نسبتاً بہتر تبصرہ شائع ہوا۔ تبصرے کے مطابق A brief History of Time جیسی سنجیدہ سائنسی کتاب بھی ایک cult book بن سکتی ہے، جیسے کہ My wife was horrified ہے۔ لیکن میں تب زیادہ خوش ہوا جب میری کتاب کا موازنہ Zen and the Art of Motorcycle Maintenance سے کیا گیا، کہ یہ لوگوں کو احساس دلاتی ہے کہ انہیں عظیم علمی اور فلسفیانہ سوالات سے خود کو دور نہیں کرنا چاہئے۔

بلا شک و شبہ،لوگوں کی اس امر میں دلچسپی بھی کتاب کی فروخت کا باعث بنی ،کہ میں اپنی جسمانی طور پر اپاہج ہونے کے باوجود ایک نظری طبیعات کا سائنس دان کیونکر بن پایا۔ لیکن جنہوں نے یہ کتاب(اس) انسانی دلچسپی کے زاویے سے خریدی، وہ یقیناً مایوس ہوئے ہوں گے کیونکہ میری جسمانی حالت سے متعلق کتاب میں ایک دو سے زائد حوالہ جات نہیں ہیں۔ کتاب کائنات کی تاریخ سے متعلق تھی، نہ کی میری ذاتی تاریخ۔ لیکن اس کے باوصف ان الزامات سے خلاصی نہ ہو سکی جو Bantam پر لگائے گئے تھے کہ انہوں نے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری بیماری کو ‘استعمال’ کیا اور یہ کہ میں نے انہیں اپنی تصویر کتاب کا کور پیج (cover page) پر لگانے کی اجازت دے کر ان کے ساتھ تعاون کیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ہمارے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق کتاب کے کَور پر میرا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ تاہم میں Bantam پریس کو اتنا قائل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا کہ وہ برطانوی ایڈیشن کے سرورق پر امریکی ایڈیشن کی پرانی تصویر کی نسبت کوئی بہتر تصویر لگائیں۔ تاہم Bantam نے امریکی ایڈیشن کے سرورق کو بھی تبدیل نہ کیا کیونکہ اُن کے مطابق امریکیوں کے نزدیک یہ تصویر کتاب کی پہچان بن چکی تھی۔

یہ بھی کہا گیا کہ لوگوں نے اس قدر تعداد میں کتاب اس وجہ سے خریدی کیونکہ انھوں نے اس پر مثبت تبصرے پڑھے یا یہ کہ کتاب ایک عرصہ تک بیسٹ سیلر کی فہرست میں رہی؛ بالفاظ دیگر، لوگوں نے کتاب کثیر تعداد میں خریدی ضرور تھی لیکن پڑھی نہیں تھی۔ کتاب یا اُن کے شیلف پر یا کافی ٹیبل پر پڑی ہے، اور یوں وہ کتاب اپنی دسترس میں ہونے پر فخر تو کر سکتے ہیں لیکن اسے سمجھنے کی کوشش لوگوں نے بہرحال نہیں کی۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ میری کتاب کے ساتھ یہ سلوک ، بائبل اور شیکسپیئر کی کتابوں سمیت ،دوسری سنجیدہ کتابوں سے بھی زیادہ ہوا ہو گا، ۔ دوسری جانب میں یہ جانتا ہوں کہ کم از کم کچھ لوگوں نے تو کتاب ضرور پڑھی ہو گی کیونکہ ہر روز میرے پاس ڈھیروں خطوط آتے ہیں، جن میں بہت سے لوگوں نے سوالات پوچھے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں نے تفصیلی تبصرے کئے ہوتے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ کتاب پوری طرح نہیں بھی سمجھتے،تب بھی انھوں نے کتاب کو پڑھا ضرور ہے۔ مجھے گلی میں اکثر اجنبی لوگ روک لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ کتاب سے کس قدر لطف اندوز ہوئے۔ یقیناً مجھے پہچاننا بہت آسان اور واضح ہے، اگرچہ میں دوسرے مصنفین جیسا ممتاز اور مشہور نہیں ہوں۔ لیکن جس تعداد میں مجھے عوامی مبارکبادیں وصول ہوتی ہیں (جس سے میرا نو سالہ بیٹا بہت گھبراتا ہے) اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنہوں نے کتاب خریدی، ان کی کم از کم ایک معقول تعداد نےاسے پڑھا بھی ہے۔

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرے مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاذ ہی میں وقت کی مختصر تاریخ کا دوسرا حصہ لکھ پاؤں۔ میں اس کا کیا نام رکھوں گا؟ وقت کی نسبتاً طویل تاریخ؟ وقت کے اختتام سے آگے؟ وقت کا بیٹا؟ میرے ایجنٹ نے تجویز کیا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں ایک فلم بنائے جانے کی اجازت دے دینی چاہئے۔ لیکن نہ ہی میں اور نہ ہی میرے گھر بار والوں کی کوئی عزت نفس باقی رہ جائے گی اگر ہم خود کو بطور اداکار کے دور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ نسبتاً کم باعثِ شرمندگی یہ امر ہو گا اگر میں کسی کو اپنی زندگی کے بارے میں لکھنے میں مدد کروں۔ ظاہر ہے میں کسی کو اپنی زندگی کے بارے میں لکھنے سے نہیں روک سکتا اگر کوئی اپنے طور پر ایسا کرنا چاہے، سوائے اس کے کہ وہ توہین آمیز ہو، لیکن میں لوگوں کو یہ کہہ کر اپنے بارے میں لکھنے سے روکے ہوئے ہوں کہ میں خود نوشت لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ہو سکتا ہے میں لکھوں بھی۔ لیکن مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ کیونکہ سائنس کے موضوعات میں میرا پاس کرنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

Leave a Reply