Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

نولکھی کوٹھی – تیرہویں قسط

test-ghori

test-ghori

11 جون, 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(25)

ولیم ہیڈ سلیمانکی سے شام چار بجے جلال آباد پہنچا اور بنگلے پر جانے کی بجائے سیدھا دفترچلا گیا۔دفتر کا اکثر عملہ گھر جا چکا تھا لیکن نجیب شاہ اور دو چار کلرک ابھی موجود تھے۔
نجیب شاہ کو اطلاع مل چکی تھی کہ صاحب اپنا دورہ مختصر کر کے دفتر پہنچ رہے ہیں۔نجیب شاہ نے اپنے ساتھ کچھ کلرک بھی روک لیے تھے کیونکہ کچھ ہی دیر پہلے ڈپٹی کمشنر فروز پور کی طرف سے ولیم کے لیے ایک میٹنگ کال مو صول ہوئی تھی، جس میں ولیم کو فیروز پور طلب کیا گیا تھا۔دوسرا شاہ پور کے کیس کی خبر بھی اُسے مل گئی۔اُس نے محسوس کیا شاید اِن دو وجوہ اور ایمر جنسی میں کچھ کام کرنا پڑ جائے۔ولیم نجیب شاہ سے سلام لیے بغیر سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اُس کے پیچھے ڈی ایس پی لوئیس بھی تھا،جو ابھی ابھی مگر ولیم کے آنے سے پہلے دفتر پہنچا تھا۔ ولیم اپنی کرسی پر بیٹھا تو سامنے ایک لیٹر پڑا تھا۔ اُسے پڑھتے ہی ولیم کا موڈ مزید خراب ہو گیا۔اُسے کل صبح فیروز پور طلب کیا گیا تھا۔ولیم کچھ دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔اس کی طبیعت میں مسلسل سفر کی تھکاوٹ کا بوجھ تھا۔ دوسرا جلال آباد کا چارج لیتے ہی یہاں امن و امان کی خرابی نے اُسے مضمحل کر دیا تھا۔ جو دوسرے کاموں کی طرف سے توجہ ہٹانے کا موجب بن رہا تھا۔ کچھ ہی دنوں کے اندر یہ دوسرا قتل اور لوٹ مار کا واقعہ پیش آگیا۔ غضب یہ کہ دونوں کی ذمہ دار ی ایک ہی شخص پر عائد ہوتی تھی اور وہی شخص ابھی تک گرفتار نہیں ہوا تھا۔ دیر تک خاموشی سے بیٹھے رہنے کے بعد ولیم نے لوئیس کو مخاطب کر کے کہا، مسٹر لوئیس یہ سردار سودھا سنگھ کیا بلا ہے؟ آخر یہ شخص جرم کرنے میں اتنا دلیر کیو ں ہے؟ حالانکہ اچھی طرح جانتا ہے، گورنمنٹ اُس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرنے والی۔ یا (لوئیس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے )میں یہ سمجھوں کہ گورنمنٹ کے ساتھ اندر خانے اُس کے کچھ معاملات چل رہے ہیں، جس کی مجھے خبر نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ ابھی تک جودھا پور والے معاملے میں گرفتار نہیں ہوسکا۔یا یہ کہ اِن مجرموں کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری بھی مجھی پر عائد ہوتی ہے؟ حالانکہ مجھے بتایا گیا ہے میں تحصیل کا پولیس افسر نہیں، ا سسٹنٹ کمشنر ہوں۔جس کا کام علاقے میں صرف امن و امان بر قرار رکھنا ہی نہیں، تحصیل کو1935 سے نکال کر 1936 میں داخل کرنا ہے۔ مجھے لگتا ہے جو وزن آپ کے اُٹھانے کے لائق ہیں، وہ بھی میرے سر پر گریں گے۔ لوئیس اگر یہ سب کچھ اِسی طرح چلتا رہا تو لوگ سمجھیں گے،تحصیل میں پولیس افسرکی ضرورت نہیں۔ یہ بات شاید آپ کو اچھی نہ لگے۔ ایسے گاڑی چلنا مشکل ہے۔

ڈی ایس پی لوئیس نے ولیم کی دھمکی کی آواز صاف سن لی تھی لیکن کیا کیا جا سکتا تھا کہ غلطی اُسی کی تھی۔ اُس نے ایک دفعہ تو شرمندگی سے آنکھیں نیچی کر لیں اور کچھ لمحے خاموش بیٹھا رہا۔وہ جانتا تھا ولیم اپنی بات میں سچا ہے۔اگر جو دھا پور والے واقعے کے فوراًبعد سردار سودھا سنگھ کو گرفتار کر لیا جاتا تو معاملہ اتنا گمبھیر نہ ہوتا مگر افسوس اُس نے سارا کام تھانیدار پر چھوڑ کر خود چھٹی مکمل کرنے کی ضد پوری کی۔ جس کی وجہ سے سب معاملہ خراب ہو گیا۔ اِس سب سے بڑھ کر اصل خرابی یہ ہوئی کہ ولیم کے آتے ہی دشمنیوں کے پٹارے کھل گئے جس کی وجہ سے جلال آباد میں دنگا فساد شروع ہو گیا اور پولیس کی پے بہ پے سُبکی ہونے لگی۔

لوئیس کی خاموشی کو کافی دیر گزر گئی تو ولیم دوبارہ بولا، لوئیس کیا آپ جانتے ہیں مجھے دیوار سے باتیں کرنے کی عادت نہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے جو کچھ کہا ہے، وہ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا تو میں ایک ریکاڈر میں اپنی گزارشات جمع کر دوں تاکہ آپ تسلی سے وہ بار بار سُن کر مجھے ایک دو ماہ کے بعد جواب دے دیں۔

سر یہ بات نہیں،لوئیس نے ہمت کر کے ولیم کی طرف دیکھ کہا۔

پھر اگر آپ کو میری لفظوں کا مفہوم پہنچ گیا ہے تو میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔مجھے بتایا جائے سودھا سنگھ ابھی تک کیو ں گرفتار نہیں ہو سکا۔ آخر اِس سارے معاملے کے پیچھے کیا ہے؟

سر ایک دو باتیں ہیں،جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، لوئس بولا۔

وہ کیا باتیں ہیں؟ مجھے کھل کر بتائیں ولیم نے آگے جھکتے ہوئے کہا، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ میں صبح فیروز پور جا رہا ہو ں ایک میٹنگ کے سلسلے میں۔ میں جانتا ہوں،یہ معاملہ سب سے پہلے زیرِ بحث آئے گا۔مجھے پتا ہونا چاہیے حقیقت کیا ہے ؟

حقیقت یہ ہے سر، لویئس تحمل سے بولا، سودھا سنگھ اِس وقت جھنڈو والا میں موجود نہیں ہے۔ پہلے کیس کے معاملے میں ہم سے واقعی غلطی ہوئی کہ بروقت کارروائی نہ کر سکے۔جس میں تھانیدار دیدار سنگھ کا زیادہ ہاتھ ہے۔ وہ غالباً ڈر گیا تھا۔اِدھر میں خود یہاں موجود نہیں تھا۔اس لیے تفتیش میں کافی وقت لگ گیا۔جس وقت آپ جھنڈو والا میں گئے،سردار سودھا سنگھ واقعی گورنمنٹ سے ڈر گیا تھا لیکن اُس نے اُس کا اُلٹا اثر لیا اور اُسی رات غلام حیدر کے خلاف ایک سازش تیار کی۔ جس میں اُس نے دو مسلمان سرداروں کو بھی ملا لیا۔ وہ سردار کسی طرح سے پہلے ہی غلام حیدر کے باپ سے خار کھائے بیٹھے تھے۔ اِس حملے میں سردار سودھا سنگھ خفیہ طور پر عبدل گجر اور شریف بودلہ کا پارٹنر تھا۔ لیکن سودھا سنگھ کے لیے بُرا یہ ہوا کہ اِس میں وہ بندہ مارا گیا جو خاص سودھا سنگھ کا آدمی تھا اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اُس پر عدالت میں پہلے ہی بہت سے مقدمات چل رہے ہیں۔ وہ مرنے والا متھا سنگھ ہے۔ جس نے کئی لوگوں کا پہلے بھی قتل کیا ہے لیکن ظاہراً اُس پر کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔اس کی خا ص وجہ سردا ر سودھا سنگھ سے لوگوں کا خوف ہے۔ یہ خوف اُس کی دولت کی وجہ سے نہیں، سردار امر سنگھ کے سبب سے ہے جو مہاراجہ پٹیالہ کے دربار میں معتمد ہے اور سردار سودھا سنگھ کا چچا ہے۔ اِس کے علاوہ سودھا سنگھ کی ایک خصوصیت اور بھی ہے کہ وہ اپنے گاوں کی رعیت کا خاص خیال رکھتا ہے۔ اُن کے دکھ درد میں شریک رہتا ہے۔لہذا وہاں سے کوئی بھی شخص سودھا سنگھ کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار نہیں۔البتہ یہ کام فوجا سیؤ کے بھتیجے کے ذریعے ہو گیا۔

یہ تو سودھا سنگھ کا خاص آدمی تھا، ولیم نے لقمہ دیا۔

جی سر اور اِسی وجہ سے اختلاف پیدا ہوا، لوئیس نے وضاحت کی، یہ جو کچھ بھی ہوا ہے، فوجا سیؤ اِس تمام واردات کے خلاف تھا لیکن سودھا سنگھ کے دوسرے آدمیوں نے اُس کی نہیں چلنے دی۔ اِسی وجہ سے اُن کے درمیان تلخی پیدا ہوئی۔جس میں فوجا سئیو کے بھتیجے نے اپنی اور اپنے چچا کی سُبکی محسوس کی اور اُس نے تمام حالات کی مخبری تھانیدار دیدار سنگھ کو کردی جو اُس نے میرے گوش گزار کردی۔

اب کیا کرو گے اِن کا ؟ ولیم نے بیل کا بٹن دباتے ہوئے کہا۔

آپ جو حکم دیں گے ویسے ہی ہو گا، لوئیس نے ولیم کی خوشنودی کے لیے مکمل تابعداری سے کہا۔

اتنے میں ولیم کی بیل پر کرم دین اندر داخل ہوا،جس کے آتے ہی ولیم نے حکم دیا،کرم دین دو کپ کافی بنا لاؤ۔حکم سنتے ہی کرم دین باہرنکل گیا۔ولیم لوئیس سے دوبارہ مخاطب ہوا، لوئیس اگر آپ کے خیال میں میرے جھنڈو والا میں دورہ کرنے کی وجہ سے یہ بعد والا سانحہ پیش آیا ہے تو اب میرے حکم دینے کی وجہ سے ایک اور سانحہ پیش آ سکتا ہے۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے بتائیں اب آپ کیا کرنے والے ہیں؟لیکن اس سے پہلے دیدار سنگھ کو معطل کر دو۔ہماری حکومت میں ڈرپوک آدمی کا کام نہیں ہے ؟

سر ایک بات طے ہے، لوئیس نے ولیم کے لہجے میں چھپی ہوئی گہری طنز کو محسوس کرتے ہوئے کہا، وہاں پر ہمیں سردار سودھا سنگھ نہیں ملے گا۔وہ پٹیالہ چلا گیا ہے لیکن کل میں ایک سخت کارروائی کرنے کے لیے خود جھنڈو والا جا رہا ہوں۔پہلے مرحلے پر سردار سودھا سنگھ کا تمام مال مویشی ضبط کر لیے جائیں گے۔کچھ لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے گرفتار بھی کیا جائے گا تاکہ لوگ خوف میں مبتلا ہو کر حکومت کے سامنے وہ کچھ بول دیں جو وہ عام حالات میں کہنا پسند نہیں کرتے۔یہی کچھ عبدل گجر کے ساتھ کیا جائے گا۔ یقینا وہ خود تو ابھی روپوش ہے لیکن ہمارے پاس اُس کا خاص گواہ بلا کمبو ہ اہم ثبوت ہے۔ جس کو زخمی حالت میں چک شاہ پور سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اب رہا تھانیدار دیدار سنگھ، تو اُسے آپ کے حکم کے مطابق ا بھی معطل کر دیا جائے گا۔

گُڈ لوئیس،ولیم نے مطمئن انداز سے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا، جو کچھ ہی دیر پہلے کرم دین وہاں رکھ کر چلا گیا تھا، اور یہ بات بھی یاد رہے کہ مَیں آئیندہ کسی بھی ایسے واہیات واقعے کامتحمل نہیں ہو سکتا۔نہ ہی میری سروس اجازت دیتی ہے کہ تحصیل میں روز روز اس طرح کے تماشے ہوتے رہیں۔ میں کل صبح سات بجے ہی فیروز پور نکل جاؤں گا اور کل شام تک لوٹ آؤں گا۔آپ پرسوں پوری تحصیل کی پولیس کے افسران کو میٹنگ پر بلاؤ،۔مَیں دیکھنا چاہتا ہوں،جلال آباد میں کون کون سے سورمے بستے ہیں اور وہ کس طرح یہاں فساد برپا کر رہے ہیں۔ اتنا کہ کر ولیم اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس کے ساتھ ہی ڈی ایس پی لوئیس بھی۔
شام کے چھ بج چکے تھے۔ ولیم اور لوئیس کمرے سے باہر نکلے تورات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔دونوں جیسے ہی ڈیوڑھیاں پار کر کے کھلی جگہ پہنچے تو انسپکٹر متھرا اور تھانیدار دیدار سنگھ وہاں موجود تھے،جو کئی گھنٹے پہلے ولیم کے دروازے پر آبیٹھے تھے اور بہت خوف زدہ بھی تھے۔دونوں نے آگے بڑھ کر ولیم کو ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا، جس کا ولیم نے کوئی نوٹس نہ لیا۔گو یا اُنہیں جانتا ہی نہ تھا اور سیدھا آگے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ حالانکہ کچھ دن ہی پہلے انسپکٹر متھرا کے ساتھ ولیم نے ایک لمبا سفر بھی کیا تھا، جس میں بہت سی باتیں بھی ہوئی تھیں۔ سی آئی ڈی انسپکٹر متھرا ولیم کا یہ انداز دیکھ کر بہت گھبرا گیا۔ شاید وہ پیچھے چلنے کی کوشش بھی کرتالیکن اُسے لوئیس نے آنکھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ چنانچہ وہ دونوں وہیں رُک گئے اور حیران تھے کہ اِتنے گھنٹے دفتر میں انتظار کروانے کے بعد ولیم نے اُن سے ایک لفظ تک نہیں کہا۔پھر متھرا نے دل ہی دل میں سوچا کہ لوئیس صاحب نے معاملہ کچھ نہ کچھ نپٹا لیا ہو گا۔

(26)

ملک بہزاد ساٹھ کے پیٹے میں ایک منجھا ہوا شخص تھا۔اُس کا گاؤں جلال آباد کے مشرق میں تیس کلو میٹر کے فاصلے پر عالمکے اُتر تھا۔سر پر کُلے دار بھاری سفید پگڑی تھی۔ چہرہ کافی چوڑا اور ہڈ کاٹھ بھی کھلے کھلے تھے۔رنگ سانولا سے زیادہ اب کالا ہو چلا تھا، جیسا عموماً جنوبی ایشین کا بڑھاپے میں ہو جاتا ہے۔ البتہ آنکھوں میں ابھی تک چمک باقی تھی،جو اس عمر میں بھی اُس کے زندگی میں بھرپور حصہ لینے کی غماز تھیں۔ بیسیوں دفعہ منٹگمری اور فیروزپور جیل کی ہوا کھائی لیکن اپنی کرتوتوں سے منہ نہ پھیرا۔ یوں تو اُس کی اپنی زمین بھی کافی تھی لیکن ساری عمر کام رسہ گیری اور چوری چکاری ہی سے رکھا۔ کوئی دن ہی ہو گا جب اُس کی عدالت اور کچہری میں تاریخ نہ لگی ہو۔کچہری کے وکیل تو ایک طرف تحصیل جلال آباد، تحصیل مکھسر اور فیروز پور کے تمام جج بھی اُس سے واقف ہو چکے تھے۔بعضوں سے تو اُس کے ذاتی مراسم بھی قائم ہوگئے۔جیل میں اُس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔چنانچہ یہ اُس کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اگر چہ ملک بہزاد کو بہت دعوے تھے کہ اُس نے سینکڑوں قتل کر رکھے ہیں لیکن اُن قتل کا ثبوت عدالت تو کیا وہ خود بھی کبھی پیش نہیں کر سکا تھا۔لیکن پورے علاقے میں ملک بہزاد کی دھاک ضرور بیٹھ چکی تھی۔ تھانہ، عدالت یادنگے فساد کا کہیں معاملہ پیش آجاتا تو ملک بہزاد کی خدمات مفت میں حاصل ہوجاتیں۔ ایسے ایسے مشورے دیتا کہ مخالف کو ضرور خبر لگ جاتی کہ مدعی کی پشت پر ملک بہزاد کا ہاتھ ہے۔ اِد ھر ملک بہزاد بھی اپنے مدعی کی شکست نہیں دیکھ سکتا تھا۔اگر خدا نا خواستہ معاملہ ہر حالت میں ہاتھ سے نکلتا ہی دکھائی دے رہا ہوتا، پھر وہ جارحیت سے بھی باز نہیں آتا تھا اور مدعی کے ہاتھوں وہ کرا دیتا، جس کی خود مدعی بھی توقع نہ کر سکتا۔اِنہی خدا واسطے کی دشمینوں میں اُس نے خود بھی بہت سی گزند اُٹھا ئی لیکن ملک بہزاد کو اِن کاموں کا ایسا چسکا پڑ چکا تھا کہ اب اُس سے مر کر ہی جان چھٹتی۔ ملک بہزاد کو ایک اور بھی چسکا تھا کہ اُس کے پاس لوگوں کو سنانے کے لیے طرح طرح کی کہانیاں تھیں اور وہ کہانی ایسے سناتا کہ لوگ عش عش کر اُٹھتے۔ملک بہزاد کا شیر حیدر سے پُرانا یارانہ تھا۔ایک دوسرے کے پگڑی بدل بھائی بنے ہوئے تھے۔ شیر حیدر نے بہت سے معاملات میں ملک بہزاد کی مدد کی تھی اور بیسیوں دفعہ عدالت میں اُس کی ضمانت کے مچلکے جمع کروائے تھے۔جو کئی ہزار روپے کے بن جاتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی بار ملک بہزاد نے غیر قانونی کارروائی کر کے شیر حیدر کے پاس آ کر پناہ لی تھی اور اس پناہ میں احسان مندی کا جذبہ بالکل نہیں تھا بلکہ ایک برابری کی حیثیت تھی۔ جس کا زیادہ تر تعلق بھائی بندی سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک بہزاد بہت دفعہ شیر حیدر کے بھی کام آ چکا تھا۔ لہذا یہ بات روشن تھی کہ شیر حیدر کی وفات کے بعد ملک بہزاد کا تعلق غلام حیدر کے ساتھ سابقہ بنیادوں پر ہی استوار ہونا تھا۔ شیر حیدر کی وفات پر ملک بہزاد نے غلام حیدر کو بار بار یہ بات باور کرائی تھی، پُتر میرے لائق کوئی کام ہو تو ضرور بتانا۔تم میرے بھتیجے کی طرح ہو، مجھ سے جو ہو سکا،مَیں کروں گا۔لیکن غلام حیدر اُس وقت پے بہ پے مصیبتوں میں کچھ ایسا حواس باختہ ہو ا کہ اُسے ملک بہزاد کے بارے میں کچھ یاد نہ رہا مگر شاہ پور والے واقعے میں اچانک غلام حیدر کو اپنے اس رفیق کا خیال آیا،جو در اصل اُسے اِس مصیبت سے نکالنے کے لیے صحیح مہرہ ثابت ہو سکتا تھا اور برسوں کی رفاقت کے باعث اُس سے کچھ دھوکے کا اندیشہ بھی نہیں تھا۔

ملک بہزاد آج صبح گیارہ بجے ہی جلال آباد غلام حیدر کی حویلی میں پہنچ چکا تھا اور اب آرام سے چار پائی پر بیٹھا حقے کے کڑوے تمباکو کے مزے لینے کے ساتھ ساتھ سب لوگوں کو معمول کے مطابق اپنی ایک کہانی سنا رہا تھا، جو اُسے منٹگمری جیل میں پیش آئی تھی۔کہانی سننے کے لیے ارد گرد چارپائیوں پر بیٹھے تمام لوگ تازہ سانحات کو بھو ل چکے تھے۔ غلام حیدر حویلی میں داخل ہوا تو چار پائیوں پر بیٹھے تمام لوگ اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بڑھ کر ہاتھ ملانے لگے مگر غلام حیدر سب سے جلدی جلدی فارغ ہو کر آگے بڑھتا گیا۔اُس کی نظر حویلی کا دروازہ پار کرتے ہی ملک بہزاد کو ڈھونڈنے لگی تھی، جو کئی لوگوں کے درمیان بیٹھا اپنی کتھا سنا رہا تھا۔غلام حیدر کو دیکھتے ہی ملک بہزاد بھی اُٹھ کر کھڑا ہو گیااور جیسے ہی غلام حیدر قریب ہوا،اُس نے کھینچ کر سینے سے لگا لیا اور کاندھے پر تھپکی دی۔جوش اور جاذبے سے ملنے کے بعد کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور دونوں نے جان بوجھ کر موجودہ سانحات کی بات نہ چھیڑی۔ہندوستان اور اس میں بھی خاص کر پنجاب میں خیال رکھا جاتا ہے کہ مقصد کی بات کرنے کے لیے کچھ آداب ملحوط رکھیں جائیں اور ملتے ہی اپنا رونا نہ رو دیا جائے۔ اس کے علاوہ رعیت کے سامنے اپنی کمزوری کا ذکر انتہائی بُزدلی تصور کیا جاتا ہے۔کچھ دیر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعد غلام حیدر نے تمام لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا۔لوگوں کے ہٹتے ہی ملک بہزاد کو بات کرنے کا موقع مل گیا اور اُس نے غلام حیدر کو تسلی دینا شروع کردی،پُتر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تیرا چاچا ابھی زندہ ہے (پھر اپنی ہی چارپائی پر بٹھاتے ہوئے کہا )پُتر غلام حیدر مصیبتیں اگر مردوں پر نہ آئیں تو پھر زنخے تو اِن کا بوجھ اُٹھانے سے رہے۔ بھتیج، مشکلیں اور اوکھے پانڈے مردوں کا زیور ہیں۔تگڑا ہو،میں ہوں نا تیرے ساتھ۔ مجھے دیکھ کئی قتل کر کے اور کئی دفعہ منٹگمری جیل کی کوٹھیوں کی سیر کر کے تیر ے سامنے بیٹھا ہوں۔اب بھی کئی مقدموں کی تاریخیں میرے بوڑھے کاندھوں پر ہیں اور یہ میرے قدموں کو دیکھتا ہے؟ یہ صرف د و ہی جگہوں کا نقشہ پہچانتے ہیں، عدالت کی سیڑھیاں اور دشمن کی جونہہ۔ تیسری جگہ کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ یہ کہ کر ملک بہزاد نے حقے کا ایک لمبا گھونٹ لیا اور تائید کے لیے اُس کی طرف دیکھنے لگا۔

ملک بہزاد کی بعض باتیں واقعی غلام حیدر کے لیے تسلی کا باعث تھیں۔کیونکہ جتنی مصیبتیں ملک بہزاد نے اپنی زندگی میں دیکھیں تھیں،غلام حیدر پر تو ابھی اُن کا پاؤ پاسک بھی نہیں آئی تھیں۔ اگرچہ وہ مشکلیں اُس کے اپنے کرتوتوں ہی کی وجہ سے تھیں لیکن جیل اور عدالتوں کے عذاب کی تلخی تو سب ایک ہی طرح سے محسوس کرتے ہیں۔

کچھ دیر خاموشی کے بعدغلام حیدر بولا، چاچا بہزاد دُکھ اِس بات کا نہیں کہ مجھ پر مصیبت آئی ہے،رونا تو یہ ہے دشمن نے بے وقتی ضرب لگائی ہے اور اگر تحمل سے سوچیں تو ابا کی توہین کی ہے۔ اِدھر اُن کا جنازہ پڑا ہے اُدھر سکھڑے نے چڑھائی کردی۔ یہ کسی دشمن کا نہیں بلکہ نسلی کمینے کا کام ہے۔اور قہر یہ ہے کہ کچھووں نے بھی ابا کے مرنے کے ساتھ ہی چوکیاں بھرنی شروع کر دیں اورمینڈکیاں شراب کے مٹکوں پر پل پڑی ہیں۔اب یہ کون کہ سکتا تھا عبدل گجر اور شریف بودلے جیسے چوہے بھی دُموں پر کھڑے ہو جائیں گے۔

غلام حیدر،مجھے فیقے پاؤلی نے سب کچھ سے خبردار کر دیا ہے، ملک بہزاد اپنی سفید مونچھ کو مسلسل بل دینے کے ساتھ مسکرا بولا، تم کیا چاہتے ہو دشمن تمھاری بلائیں لے اور تمھارے سر سے کالے بکروں کے صدقے اُتارے؟ بھائی دشمن دشمن ہوتا ہے۔اُس کے اپنے موڈ ہوتے ہیں۔ اُس سے شکوہ کرنے والے بُزدل ہوتے ہیں۔ تم اپنے ذمہ دار ہو اور سکول میں پڑھنے والیے لاڈلے نہیں بلکہ اپنی رائے اور فیصلوں پر اختیار رکھتے ہو۔اس لیے اب دشمن سے شکوہ یا بچاؤ نہیں۔اُس پر جارحیت کا سوچو۔کیو نکہ بچاؤ کمزور کرتا ہے اور آگے بڑھ کر حملہ کرنامردوں میں حوصلے کا باعث ہوتا ہے۔ یہی شیروں کا کام ہے۔یہ شریف بودلہ اور عبدل گجرتوکیڑوں کی طرح مَسلے جائیں گے۔ افسوس تو اُن تین چاربے گناہوں کا ہے، جو بے چارے تیری دشمنی میں کام آگئے۔ خیر یہ تو ہوتا ہی ہے کہ مردوں کو اپنے رشتوں کے دکھ اُٹھانے پڑتے ہیں۔ اب توُ حکم کر بلکہ پہلے منہ ہاتھ دو اور گھر جا کر اپنی ماں کے پاس کچھ دیر بیٹھ۔وہ پریشان ہورہی ہو گی، اُسے حوصلہ دے اور بتا دے کہ وہ دلیری پکڑے۔ اُس کا بھائی بہزاد ابھی زندہ ہے۔کچھ نہیں ہونے دے گا۔ ملک بہزاد نے غلام حیدر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے دوبارہ تھپکی دی۔ جا اُٹھ کر آرام سے کھانا وانا کھا اور جی کو ہلکا کر پھر تسلی سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

غلام حیدر چارپائی سے اُٹھا اور حویلی کے زنان خانے میں چلا گیا،جہاں اُس کی ماں انتہائی بے چینی کی کیفیت میں اُس کی منتظر تھی۔ غلام حیدر اپنی ماں فاطمہ بانو کی اکیلی اولاد تھی۔ وہ جانتا تھا، اُس کی والدہ کے پاس نہ تو کوئی اور راستہ تھا اور نہ ہی کوئی اور سرمایہ۔اگر اُسے کچھ ہو گیا تو اُس کی ما ں زندہ ہی مر جائے گی۔ اِس لیے اُسے اپنے سے زیادہ ماں کی فکر تھی۔ غلام حیدر کو دیکھتے ہی اُس کی والدہ اُٹھ کر لپٹ گئی اور صدقے واری جا کر اپنی چارپائی کے سامنے پڑے لال موڑھے پر بٹھا لیا۔ فاطمہ بانو کی چار پائی شادی کے وقت سے ابھی تک اُسی کمرے میں تھی، جس کمرے میں وہ دلہن بن کر آئی تھی۔ کمرہ بیس فٹ چوڑا اور تیس فٹ لمبا تھا اور آرائش کے اعتبار سے اِس قدر شاندار تھا کہ آنکھیں دیکھتے ہی دنگ رہ جائیں۔ لیکن اتنے لمبے اور چوڑے کمرے میں ایک دوہرا پلنگ اور چار پانچ رنگین موڑھوں کے سوا کوئی جگہ بیٹھنے کے لیے باقی نہیں بچی تھی۔ کہیں بڑے بڑے سنگھار آئینے کھڑے تھے اور کہیں رنگ برنگے دھاگوں سے بُنے ہوئے مختلف قلینوں کے ٹکڑے لٹک رہے تھے۔ کسی طرف سندھی، بلوچی اور پنجابی فوک پینٹنگز کے نقش کپڑوں پر کاڑھے ہوئے لکڑی کے مختلف ہینگروں میں ٹنگے تھے،جو تیز رنگوں میں اپنی شکلوں کو پورے کمرے پر حاوی کیے ہوئے تھے۔دیواروں پر بھی کچے رنگوں کی مٹی سے بڑی نفاست سے پینٹنگ کی گئی تھیں۔ اُن پینٹنگزسے پتا چلتا تھا کہ ُان کو بنانے والاآرٹ سے زیادہ آرٹ کا دعوہ رکھتا تھا مگر وہ پھر بھی اچھی لگتی تھیں۔ کمرے میں جو چیز سب سے نمایاں تھی، وہ پڑچھتیوں اور طاقوں میں ترتیب کے ساتھ رکھے ہوئے بے شما ر کانسی اور تانبے کے چھوٹے بڑے برتن تھے۔ جن میں پراتیں، دیگچے، ڈونگے،چھنے، پلیٹیں،گلاس غرض ہر ایک کانسی اور تانبے کا برتن، جو اُس وقت پنجاب کے عام یا خاص بازار میں پایا جاتا تھا،اِس کمرے میں جمع تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کانسی اور تانبے کے دہکتے ہوئے زرد اور چمکیلے رنگوں سے کمرہ جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔ جو رات کے اندھیرے میں دیے اور لال ٹین جلنے سے اور بھی دمک اُٹھتا اور ایسے محسوس ہوتا کہ پورے کمرے میں گویا سونے کے چراغ جل رہے ہوں۔ دیے کی زرد روشنی کی لَو تمام برتنوں کی دھات سے نکل نکل کر پھوٹ رہی تھی۔جس کی وجہ سے کمرہ دہک رہا تھا۔بلکہ بعض چھوٹے چھوٹے برتن تو واقعی سونے کے تھے۔ جن میں فاطمہ بانو اپنے لیے مصری کی ڈلیاں، بادام یا گری وغیرہ رکھتی تھی۔ رواج کے مطابق ہر والدین اپنی بیٹی کو ایسی دھاتوں کے برتن دینا اپنا فرض خیال کرتا تھا۔لیکن ایسا کم ہی ہوتا کہ یہ برتن زندگی میں کبھی استعمال میں آئیں۔بلکہ کانسی کے برتن میں تو کوئی چیز قلعی کیے بغیر ڈال ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ فوراً خراب ہو جاتی اور قلعی کرانے کی صورت میں دھات کی اپنی حیثیت کی وقعت ظاہر نہ ہو پاتی۔ چنانچہ یہ برتن کمروں کی پڑچھتیوں اور طاقوں پر ہی پڑے پڑے رونق دکھاتے رہتے۔جب بیاہ کے وقت اِن برتنوں کو ساتھ لانے والی دُلہنیں اُسی گھر میں زندگی کے تیس چالیس سال گزار کر پوتوں اور نواسوں والی ہوجاتیں تو پھر وہ اپنے نواسوں اور پوتوں پوتیوں کو ایک ایک برتن کے بارے میں تفصیل سے بتاتیں کہ بیٹا یہ پرات آپ کے پڑنانا حیدر آباد سے لائے تھے اور یہ کانسی کا دیگچا اُنہوں نے دہلی کے گنج منڈی بازار سے خریدا تھا۔اِس میں پورے پندرہ کلو چاول پکتے ہیں۔اِدھر آ، مَیں تجھے دکھاؤں،یہ جو کانسی کے چھنے اور گلاسوں کا سیٹ ہے، اِسے میری شادی سے بھی بارہ سال پہلے سندھ سے تمھاری پڑ نانی لائی تھی، جب وہ حج کر کے کراچی بندر گاہ پر بحری جہاز سے اُتری تھی۔وہاں سے تو وہ سندھی چادریں اور شالیں بھی لائی تھی پر وہ تو تمھارے پڑنانا نے ہنڈا لیں۔ اِس چھنے کا وزن دیکھو پورا دو سیر ہے۔ الغرض یہ کمرہ ایک اچھا خاصا نگار خانہ تھا۔جس میں پورے پنجاب کا گھریلو کلچر ایک ہی جگہ جمع تھا۔

غلام حیدر کی دو پھپھیاں اور ایک خالہ بھی کئی دن سے یہیں پر تھیں۔جو فاطمہ بانو کی ڈھارس بندھائے ہوئے تھیں۔اُن کے علاوہ بھی خاندان کی کئی لڑکیاں اُسی وقت سے گھر میں موجود تھیں اور اُس کے اکیلے پن کو اُنہوں نے کسی حد تک دور بھی کر دیا تھا۔ مگر بیٹے کے ساتھ مل کر اُسے ایک گونہ سکون سا آجاتا اور دل ہلکا ہو جاتا۔غلام حیدر نے والدہ کی کیفیت سمجھتے ہوئے کہا،اماں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔مَیں نے چاچے بہزاد کو چک عالمکا سے بُلوا لیا ہے۔ وہ خود ہی اِس سارے مسئلے کو سنبھال لے گا۔

ملک بہزاد کا نام سن کر فاطمہ بانو ایک دم چونک گئی اور بولی، ہائے ہائے بیٹا اِس غنڈے کو تو صلح صفائی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ کسی اور ہی پھڈے میں نہ ڈال دے۔ تم نے اس کو کیوں بلایا ہے ؟ یہ تو نہ خود بیٹھتا ہے اور نہ کسی کو بیٹھنے دیتا ہے۔ اس کا معاملہ تو،چور نالوں پنڈ کاہلئی، والا ہے۔ میں کہتی ہو ں اُسے واپس بھیج دے اور اُن ظالموں کو کچھ دے دلا کر صلح کر لے۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اُس کے فضل سے کون سی کمی ہے۔
فاطمہ بانو کی بات ختم ہوئی تو غلام حیدر کی پھو پھی نے اپنا دوپٹا درست کیا اور رنگین موڑھا،جس پر وہ بیٹھی تھی، اُسے مزید آگے سرکا کرجھکی اور اپنی نصیحت چھیڑ دی، بیٹا تیری ماں ٹھیک کہتی ہے۔ تیرے باپ شیر حیدر کی بات اور تھی، تیری بات اور ہے۔یہ غنڈوں سے مقابلہ اور لڑائی بھڑائی ہمارا کام نہیں ہے۔ دیکھ تُو پڑھا لکھا ہے۔یہ لوگ جو تیری جان کے دشمن ہوئے ہیں،اِن ڈنگروں سے تیرا کیا لینا دینا۔ تُو اِن کو اِن کے حال پر چھوڑ اور زمین کسی کو ٹھیکے یا گہنے پر دے کر لاہور چلا چل یا چاہے تو پاکپتن آجا،پر اب فیروز پور اور جلال آباد تیرے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ تُونے اندھیر سویر آنا جانا ہوتا ہے اور میں جانتی ہوں تیری ماں کس طرح سولی پر لٹکی رہتی ہے۔یہ سچ کہتی ہے، ملک بہزاد سے تُو کوئی واسطہ نہ رکھ۔ یہ تجھے کسی اور ہی پھڈے میں پھنسا دے گا۔

غلام حیدر جانتا تھا کہ اماں اور پھوپھیوں کو سمجھانا بے کار تھا۔ وہ عورتیں ہونے کے ناتے سے اپنی جگہ پر سچی بھی تھیں۔ لیکن اُن کی دی ہوئی صلاح پر سوچنے کی حد تک تو ٹھیک تھا،عمل کرنا ناممکن تھا۔زمینوں،مال مویشی اور رعایا کو بے وارث چھورنے کا مطلب یہ تھا کہ عزت،وقار،زمین سب کچھ سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اپنے باپ شیر حیدر کے نام تک کو ڈبو دینا، جو کسی طرح بھی گوارا نہ تھا۔ مگر اس وقت اُن سے بحث کرنا بھی فضول تھی۔ اس لیے غلام حیدر نے اپنی ماں اور پھوپھی کو دلاسا دیتے ہوئے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اماں جیسا آپ کہیں گی وہی کروں گا، فکر نہ کریں۔میں ان سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔ فی الحال تو مجھے بھوک لگی ہے۔جلدی سے روٹی دے۔ آپ کے ساتھ بیٹھ کر روٹی تو کھا لوں۔

فاطمہ بانو نے غلام حیدر کی اِس قدر اطاعت گزاری دیکھی تو باغ باغ ہو گئی۔گویا سارے مسائل ایک لمحے میں حل ہو گئے ہوں۔اِسی خوشی میں اُس نے فوراً ملازمہ کو آواز دی،نی سلامتے جلدی نال غلام حیدر واسطے تے ساڈے واسطے روٹی لے آ، مَیں اپنے پُتر نال بہہ کے روٹی تاں کھا لاں۔

سلامت بی بی نے کھانا تپائی پر لگا دیا۔ پھر غلام حیدر،اُس کی ماں،دونوں پھوپھیاں اور خالہ نے مل کر کھانا کھا یا۔ کھانے کے دوران بھی غلام حیدر نے سب سے کافی نصیحتیں سنیں،جن پر وہ ایک فرمانبردار بیٹے کی طر ح ہاں ہاں کرتا گیا۔اِس طرح عصر کا وقت ہو گیا اور فاطمہ بانوسمیت سب گھر والوں کا بھی جی بہل گیا۔ والدہ کے پہلو میں بیٹھ کر غلام حیدر کا بھی کچھ تکد ٌر دور ہو گیا۔گویا ملک بہزاد سے صلاح مشورہ کرنے کے لیے ایک قسم کا تازہ دم بھی ہو چکا تھا۔
عصر کے وقت،جو سردیوں کے موسم میں شام کے قریب پہنچ جاتا ہے،غلام حیدر حویلی کے بڑے صحن کے مہمان خانے میں آ گیا۔مہمان خانہ ڈیوڑھی نما بیس فٹ اُونچی چھت والے بڑے کمرے پر مشتمل تھا۔جس میں دس چار پائیاں بچھ جاتی تھیں۔ سردی کی وجہ سے سب لوگ ڈیوڑھیوں میں بیٹھ چکے تھے اور حقوں کی گڑ گڑاہٹوں کے ساتھ گپوں کے ہانکے چھوڑ رہے تھے۔ غلام حیدر کو دیکھ کر ایک دم خموشی چھا گئی۔ لیکن وہ کسی کے پاس نہ رُکا اور سیدھا مہمان خانے میں جا کر ملک بہزاد کے سامنے والی چار پائی پر بیٹھ گیا۔ ملک بہزاد تسلی سے حقہ پیتا رہا۔ اُس دوران دوچار لوگ ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔

غلام حیدر نے اصل بات چھیڑنے کی کئی بار کوشش کی لیکن ملک بہزاد فوراً ہی بات کو پلٹا دے کر کسی اور موضوع کی طرف موڑ دیتا۔جب دو گھنٹے اِسی طرح گزر گئے تو ملک بہزاد نے سب لوگوں کی طرف،جو چھ چار وہاں بیٹھے تھے،اشارہ کر کے کہا، لو بھراؤ اب تم سب باہر جا کر تھوڑی دیر کے لیے تازہ ہوا کھا آؤ،مَیں اپنے بھتیج سے کچھ دکھ سکھ کی باتیں کر لوں۔بڑے عرصے سے مل کر بیٹھنے کا مو قع ہی نہیں ملا۔

ملک بہزاد کی بات سن کر سب لوگ اُٹھ گئے حتیٰ کہ رفیق پاؤلی بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا،میاں بہزاد میں بھی چلتا ہوں،اب کل ملیں گے۔آج کافی تھک گیا ہوں۔ اِس لیے جلدی نیند آ رہی ہے۔ وہ جان گیا تھا، ملک بہزاد غلام حیدر کے ساتھ در اصل اکیلے ہی میں بات کرنا چاہ رہا ہے۔
سب اُٹھ گئے تو ملک بہزاد نے اُٹھ کر اِس لمبے چوڑے کمر ے کے دروازے کی دونوں بلیاں چڑھا دیں اور آ کر تسلی سے اپنی چار پائی پر بیٹھ کر گیا،جس پر ریشمی گدا بچھا کر پائینتی روئی کی ایک موٹی اور صاف ستھری رضائی رکھی ہوئی تھی۔ملک بہزاد نے گول تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر رضائی اپنے قدموں کے اُوپر سے لا کر کمر تک اوڑھ لی۔ پھر حقے کی نے منہ میں لے کر ایک کیف آفریں سوٹا لگایا۔اِس کے بعدایک دو لمحے خموشی سے غلام حیدر کی طرف دیکھ کر بولا، جی پُتر غلام حیدر اب بتا۔اب صرف دیواریں سن رہی ہیں۔ اور کھل کے بتا کہ اب کیا ارادے ہیں ؟

غلام حیدر جو پہلے چارپائی کے کنارے پر پاؤں لٹکائے ملک بہزاد کو دیکھ رہا تھا کہ کب گفتگو شروع کرتا ہے،نے آرام سے اپنے جوتے اتار کر دونوں ٹانگیں اُوپر کر لیں اور کہنے لگا، چاچا بہزاد آپ کو بلانے کا آخر کوئی مقصد تو ہو گا اور جو مقصد ہے اُس کو حاصل کرنے کے لیے آپ کا وجود اِسی لیے ناگزیر ہے کہ مجھے شکست قبول نہیں اور یہ فیصلہ میں نے کافی سوچ سمجھ کے کیا ہے۔

ملک بہزاد غلام حیدر کی بات سن کر ہلکا سا مسکرایا پھر نہایت سنجیدگی سے بولا، بھتیجے میں مجھے آپ سے کچھ باتوں کے جواب سیدھے سیدھے چاہییں۔ اُس کے بعد میں اپنی رائے دوں گا کہ اِس قضیے میں کیا کرنا ہے۔ میری طبیعت سے تُو اچھی طرح واقف ہے اگر تیرا باپ بہشتی زندہ ہوتا تو اُس سے یہ باتیں کرنے کی نوبت پیش نہ آتی لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب تک میں اپنی راہ آپ کے ساتھ صاف نہ کر لوں، اُس وقت تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اب پہلے مجھے تُو یہ بتا کہ اگر مَیں تیرے ساتھ نہ ہوں تو پھر تُو کیا کرے گا۔
مَیں نے ایف آئی آر درج کروا دی ہے دونوں قضیوں کے بارے میں۔ڈپٹی کمشنر نے مجھے انصاف کی توقع بھی دلائی ہے۔لیکن مَیں اُس سے زیادہ مطمئن نہیں ہوں اور کچھ مزید کرنا چاہتا ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں ؟

تیرے خیال میں ایف آئی آر کا نتیجہ کیا ہو گا ؟ملک بہزاد نے غلام حیدر کی آنکھوں میں جھانکتے ہو ئے پوچھا۔
۔ اس سے یہ ہو گا کہ حکومت مجرموں کو پکڑنے کی پابند ہو گی۔
پھر اُن ملزموں کو گرفتار کر لیا جائے گا ؟
میرا تو یہی خیال ہے۔
اچھا اب یہ بتا کہ ملزم گرفتار ہونے کے بعد اپنی ضمانت کی کوشش کریں گے یا آرام سے اپنے آپ کو جیل میں سڑنے دیں گے ؟
وہ اپنی ضمانت کروانے کی کوشش تو ظاہر ہے کریں گے
اگر ضمانت ہو گئی تو پھر؟
پھر مقدمہ چلے گا

پھر اُس کے بعد ظاہر ہے وکیل کیے جائیں گے، گواہ پیش ہوں گے۔پیشیاں ہوں گی، کبھی تم نہیں جا سکو گے، کبھی ملزموں کی طرف سے حاضری نہیں ہو گی۔ موسم آئیں گے گزر جا ئیں گے۔ جج بدلیں گے۔ پُرانے جائیں گے، نئے آئیں گے۔ سفارشیں چلیں گی۔ کبھی اُن کا پلڑا بھاری، کبھی آپ کا پلڑا بھاری اور یوں برسوں کا پینڈا نکل جائے گا۔یہی ہو گا نا؟ ملک بہزاد نے ایک طنزیہ لہجہ اپناتے ہوئے بات کو ختم کیا۔ پھر حقے کا ایک اور گھونٹ بھرا۔

تو کیا مجھے ایف آئی آر درج نہیں کروانا چاہیے تھی؟ غلام حیدر نے ملک بہزاد کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔

وہ تو ہر حالت میں کروانا چاہیے تھی میرے بھائی کے پُتر،ملک بہزاد نے کمرکو تکیے سے ذرا سا اُٹھاتے ہوئے جواب دیا، مگر میرا سوال یہ ہے کہ صرف یہی کچھ کر کے بیٹھ جاؤ گے؟
پھر اور کیا کروں؟ اسی لیے تو آپ کو زحمت دی گئی ہے، غلام حیدر بولا۔

دیکھ غلام حیدر، ملک بہزاد ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا جس کا مطلب تھا کہ اب وہ غلام حیدر کو اپنا مشورہ تفصیل کے ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے، تیرے تین آدمی قتل ہو چکے ہیں،دو گاؤں پر حملہ ہوا ہے۔تیری فصلیں تباہ کی جاچکی ہیں اور مزید کی تجھے توقع رکھنی چاہیے کہ ابھی توابتدا تھی۔ اب رہی بات ملزموں کی، تو جن ملزموں کو پرچے میں آپ نے نام زد کیا ہے، وہ گرفتار تو ہو سکتے ہیں لیکن اُن کو سزا ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ہزار طرح سے ثابت کردیں گے کہ وہ تو موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ نہ ہی ان قضیوں میں اُن کی ایما شامل تھی۔تیرے گواہ کبھی یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ جو تیرے آدمی قتل ہوئے ہیں وہ بالکل عین انہی کی ڈا نگوں اور برچھیوں کے وارسے قتل ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ پہلے اُن کی ضمانت ہو جائے گی، پھر سال ہا سال کی پیشیوں کے بعد وہ بَری ہو جائیں گے۔اِس کے بعد ملک بہزاد نے ایک اور حقے کا گہرا گھونٹ بھرا اور دوبارہ بولنا شروع کیا،یہ تو اُس صورت میں ہے جب وہ تجھے آرام سے مقدمے کی پیروی کرنے کا موقع دیں۔ اگر اُنہوں نے آئے دن آپ کی زمینوں،گاؤں اور بندوں کے اُوپر مختلف سمت سے حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا تو بھتیجے تُو مقدمہ کی پیروی بھی نہیں کر سکے گا۔ یوں ایک آدھ سال میں تیر ی ساری سلطنت کی کمائی لٹ جائے گی اور ٹھٹھہ الگ میں اُڑے گا اور یہ ٹھٹھہ غیر نہیں تیرے اپنے اُڑائیں گے۔ یہی تیری رعایا زمینیں تو تیری کاشت کرے گی اور اُس کا نصف تیرے دشمنوں کو دے گی۔ رہی بات انگریز سرکار کی،تو یہ کبھی ہوتی تھی جب انہوں نے دلی نئی نئی فتح کی تھی۔ اب اِن کے بھی کچھ اور ہی لچھن ہیں۔کیا تو نہیں دیکھتا ؟یہ انگریزی بابو اور میمیں یہاں کتے لڑانے،زمینیں خریدنے،کبوتر اُڑانے اور کوٹھیاں بنانے کا دھندا کُھلے کھیتوں کرتے ہیں۔اور یہ سب عیاشیاں رشوت کے بغیر نہیں ہوتیں۔ میرے بھائی کے بیٹے یہ رشوت کا خون اِن کے منہ کو بھی لگ چکا ہے۔ہاں ایک بات ضرور ہے،جہاں دیسی دلاٌدس لیتا ہے، یہ گورا بیس لیتا ہے۔ مُل میں فرق ہے کرتوت میں نہیں رہا۔کیا تو نہیں جانتا ؟اگر یہاں انصاف کی رتی ہوتی تو میں کب کا پھاہے لگ چکا ہوتا۔پھر اب تیرے معاملے میں تو سکھ اور مُسلے دونوں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ بندے اُن کے پاس زیادہ،پیسا اُن کے پاس زیادہ، اور حرامزدگیاں اُن کے پاس زیادہ۔ اِدھر تُو اکیلا، نہ تیرا یہاں دوسرا رشتہ دار اور نہ بازو۔ کب تک گر ہجوں کی کھردری چونچوں سے بچو گے؟

غلام حیدر تحمل سے ملک بہزاد کی باتیں سن رہا تھا اور معاملے کی سنجیدگی کا اعتراف اُس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا۔ ساری بات سننے کے بعد اُس نے نہایت بردباری سے کہا،چاچا بہزاد ایک بات تو طے ہے کہ نہ میں اپنی سلطنت لٹنے دوں گا اور نہ سودھا سنگھ اور عبدل گجر کی سانسیں زیادہ دیر چلنے دوں گا۔نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ میری رعایا میرے دشمنوں کی چلمیں بھرے۔ مَیں وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ لوگ صرف سن کر کانپ جائیں۔بس تُو یہ بتا کہ کرنا کیا ہے؟

تو سُن،ملک بہزاد بولا، سب سے پہلا کام جو آپ نے کیا ہے،وہ بہت عمدہ ہوا کہ پرچوں کی ایف آئی آر میں تُو نے سیدھے انہی کے نام لکھوائے جن سے ہمیں غرض ہے۔ اِس سے یہ ہو گا کہ سودھا سنگھ اور عبدل گجر عدالت میں خود آنے کے پابند ہیں۔ یہی بات ہمارے کام کو آسان کر دے گی۔لیکن اِس کے لیے چند باتیں دماغ میں رکھ لو۔ اول بھیگی بلی بن جاؤ۔ چاہے چھ ماہ انتظار کرنا پڑ ئے، پورے صبر سے کرو۔ دوسری بات یہ کہ اپنے دونوں گاؤں میں اپنے لوگوں کو دن رات کے لیے ہشیار کر دو۔اس طرح کے حملے مزیدبھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک حملہ بھی اور ہو گیا اور اُس میں تمھارا بندہ مر گیا تو رعایا دل چھوڑ دے گی۔ پھر تم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکو گے۔ تیسرا کام یہ کرو کہ اپنا تمام مال اور مویشی یا تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھیج دو یا بیچ دو اور کوئی چیز جو کھلے بازار میں بِک سکتی ہے،وہ تیرے گھر میں نہیں ہونی چاہیے۔چوتھایہ کہ اپنی ریفل کی گولیاں جتنی خرید سکتا ہے خرید لے۔ لیکن اِس کی نمائش کم کر دے اور گورنمنٹ کا بار بار دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ اُسے کہو،جو میرے ساتھ ظلم ہوا ہے، اُس کا حساب لے کر دو۔ اِس کے علاوہ بگھیوں پر سفر کرنا چھوڑ دے۔والدہ کو اُن کے پیکے چھوڑ آو بلکہ ایسی جگہ بھیج دو جس کے بارے میں کسی کو بھی پتہ نہ ہو۔تا کہ تجھے دوسری پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

اتنا کہنے کے بعد ملک بہزاد کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اِس خاموشی کے وقفے میں سے جگہ بناتے ہوئے غلام حیدر نے سوال کیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اپنی ذات کو تنہا کرنا پڑے گا اور تمام مصروفیات کو حویلی تک محدود کر دینا پڑے گا۔لیکن زمین کے معاملات کس کو سونپوں؟

زمین کو فی الحال اپنے ہی پاس رکھ اور وقت کے آنے کا انتظار کر،ملک بہزاد نے اپنا پورا جسم لیٹ کر رضائی کے حوالے کرتے ہوئے کہا،کیو نکہ یہی زمین تجھے طاقت بھی فراہم کرے گی اور یاد رکھ اپنے معاملات کے بارے میں اپنے خاص الخاص بندے حتیٰ کہ رفیق پاؤلی کو بھی آگاہ نہ کرنا کیونکہ ملازم خیانت کار نہ بھی ہو،تب بھی کمزور ضرور ہوتا ہے۔ اُس کی طاقت پر کبھی بھروسا نہ کرنا۔ اس لیے کہ ملازم کی طاقت بہر حال مالک سے اُدھار لی ہو تی ہے۔اور ادھار لی گئی چیز کو بعض اوقات استعمال کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ اس لیے معاملہ بگڑ جاتا ہے۔زندگی نے مجھے تجربہ سکھایا ہے، انسان وہی کامیاب ہے جو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرے۔ جو اپنی ذمہ داری دوسرے پر ڈالے گا وہ ہمیشہ اُسے ادھورا نبھائے گا۔ اس لیے سودھاسنگھ اور عبدل گجر کا معاملہ کسی دوسرے کے حوالے نہ کرنا اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اپنا ہتھیا ر صرف اپنے پاس رکھنا۔ مجھے بہت ایسے سرداروں کے قصے یاد ہیں۔وہ انہی بازؤوں کے ہاتھوں مارے گئے جنہیں اُنہوں نے اپنے دشمنوں کے لیے تیار کیا تھا۔ جب سب کچھ تیرے خلاف جائے گا،اُس وقت تیرا دایاں بازوتیرے بائیں بازو کا ساتھ دے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ تیری مخبری پر تیرے دشمن کی مخبری غالب نہ آئے۔ اب جارحیت کی طرف قدم بڑھانے کا سلسلہ شروع کرواور سب سے پہلے انتخاب طاقتور دشمن کا کرو۔کچہری اور تحصیلوں کے معاملے مجھ پر چھوڑ دو۔ سودھا سنگھ، عبدل گجر اور شریف بودلے کو عدالتوں تک لانا اور غیر محفوظ راہوں پر دوڑانا میرا کام ہے۔باقی موقع آنے پر میں تم کو سب سمجھاتا جاؤں گا۔

غلام حیدر اور ملک بہزاد کی اس گفتگوں میں دونوں کو ہی وقت کے گزرنے کا احساس نہ ہوا اور رات کا تیسرا پہر چل پڑا۔جس کی وجہ سے ملک بہزاد کی آنکھوں پر نیند کا بوجھ بڑھنے لگا۔یہی حالت غلام حیدر کی ہوچلی تو بات چیت ختم کر کے غلام حیدر حویلی کے زنانے حصے میں چلا گیا۔