Laaltain

یہ ہے اصل کاریگری

26 جون، 2014
سانحہ لاہور سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیاگلو بٹ صرف اس لیے آیا تھا کہ چند گاڑیوں کے شیشے توڑے اورمفت کی کچھ بوتلیں پی لے، اور کیاقادری صاحب کے لئے چند بیرئیرز کارکنوں کی زندگی سے زیادہ اہم ہیں؟ یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت اور طاہرالقادری دونوں نے انسانی جانوں کی پرواہ کئے بغیر صرف سیاسی مفادات کے حصول کے لئے انسانی جانیں قربان کر دیں اور اب دونوں اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔
نواز لیگ کے میڈیا مینجرز کی حکمت عملی کی کھڑکی توڑ کامیابی دیکھتے ہوئے ان کی خدمت میں کورنش بجا لاناواجب ہے، جنہوں نے اپنی کاریگری کے ذریعے درجن بھرمظلوم لوگوں کے قتل کا ایشو پس پشت ڈال کر گلو بٹ کا ایشو اہم بنوا دیا ہے۔ میڈیا مینجمنٹ کے جن جادوگروں کی خدمات ن لیگ کو میسر ہیں ان کے فن کی داد نہ دینا بخل کے زمرے میں آتا ہے۔واضح طور پر گلو بٹ نامی کردار جان بوجھ کر اس واقعے میں ڈالا گیا ۔ ابھی تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ اگرحکومت وقت کو غنڈوں کی خدمات کی ضرورت ہوتی تو کیا وہ صرف ایک غنڈہ بھیجتی، اکیلے گلو بٹ کی موجودگی معنی خیز تھی ۔ یہ ایک مکمل منصوبہ تھا اور اس ڈرامہ میں اس کریکٹر کے لیے یہ رول پہلے سے طے شدہ تھا۔جس اجلاس میں علامہ طاہرالقادری کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا تھا اس کے بعد متوقع طورپر پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے ن لیگ جیسی جماعت میڈیا ہینڈلنگ کو کیسے نظر انداز کر سکتی تھی۔ ماڈل ٹاون میں پولیس ایکشن کے دوران گلوبٹ جیسے کسی فرد کی ضرورت تھی نہ گنجائش، مگر میڈیا کی توجہ منتشر کرنے کے لیے یہ کردار “پلانٹ” کیا گیا۔ جائے حادثہ پر گلو بٹ کی سرگرمیوں کا پولیس کارروائی سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا، گاڑیوں کے شیشے توڑنے سے لے کر دکانوں سے بوتلیں نکالنے تک کسی چیز کا تجاوزات ہٹانے سے کوئی تعلق نہیں ،اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ کیمرے اسے فوکس کرتے رہیں اسی لیے کئی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے نے ایک بھی کیمرہ مین کو نہیں روکا کہ اس کی فوٹیج نہ بنائے۔الٹا وہ رقص کرتا اورمعنی خیز مسکراہٹ کی نمائش کرتارہا، صاف ظاہر ہے کہ وہ آیا ہی اسی لیے تھا کہ چینلوں کو رونق میلہ میسر آ جائے اور اصل ایشو پس پشت چلا جائے۔
ماڈل ٹاون میں پولیس ایکشن کے دوران گلوبٹ جیسے کسی فرد کی ضرورت تھی نہ گنجائش، مگر میڈیا کی توجہ منتشر کرنے کے لیے یہ کردار “پلانٹ” کیا گیا۔ جائے حادثہ پر گلو بٹ کی سرگرمیوں کا پولیس کارروائی سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا، گاڑیوں کے شیشے توڑنے سے لے کر دکانوں سے بوتلیں نکالنے تک کسی چیز کا تجاوزات ہٹانے سے کوئی تعلق نہیں ،اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ کیمرے اسے فوکس کرتے رہیں اسی لیے کئی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے نے ایک بھی کیمرہ مین کو نہیں روکا کہ اس کی فوٹیج نہ بنائے۔
گلو بٹ کو اس کارروائی میں ”پلانٹ“ کرنے کا مقصدیوں پورا ہوا کہ دن دیہاڑے شہر لاہور کے وسط میں تمام ٹی وی چینلز کے سامنے پولیس نے فائرنگ کی اور بے گناہ اپنی جانوں سے گئے، مگر کالم پڑھیں اور چینلز دیکھیں تو لگتا ہے کہ اس ملک کا اہم ترین ایشو گلو بٹ اور قادری صاحب کے طیارے کی لینڈنگ ہے ۔ کسی عقل مند کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ گلو بٹ نے گاڑیوں کے شیشے توڑے یا دکانوں سے بھتہ وصول کیا مگر اس نے بندے تو نہیں مارے۔ بے گناہوں کے قتل کا کارنامہ پنجاب پولیس نے انجام دیا، سینوں اور سر کا نشانہ لے کر فائرنگ پنجاب پولیس کے شیر جوانوں نے کی۔یہ جانے بوجھے بغیر کس شیر نے اس فائرنگ کا حکم دیا مگر گلو بٹ بے چارہ اس گناہ سے تو بری ہے۔ہمارا میڈیاڈانگ سوٹاکرنے والے کے خوب لتے لے رہا ہے اور گولیاں مارنے والے آرام سے ٹی وی دیکھ کر ہنس رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے ان کو کیسا چکمہ دیا۔
طاہر القادری صاحب بھی کسی طرح کم نہیں جو اس موقع کو اپنی غیرآئینی جدوجہد کے جواز کے طور پر کیش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے لئے بھی اس معاملہ کی اہمیت یہی ہے کہ اس الم ناک سانحہ کو اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے استعمال کریں۔میڈیا کی معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا طالب علم بھی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ اس سانحے کی کوریج کا زاویہ ہی بدل دیا گیا ہے۔جہاں ایشو کو دبانا ممکن نہ ہو وہاں یہ تکنیک استعمال کی جاتی ہے کہ فوکس بدل دیا جائے۔اب لائم لائٹ میں ایک غنڈہ اور ایک کینیڈا پلٹ مسخرہ ہے ۔ ہر دانشور، تجزیہ نگار اور مبصر کو معاشرے کے طول و عرض میں بکھرے گلو بٹ اور انقلاب کے امکانات نظر آ رہے ہیں مگر بے گناہ مقتولوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں ۔ٹی وی چینلز پر امیچورٹی (immaturity) کا جتنا بھی الزام لگایا جائے وہ اتنےناسمجھ بہر حال نہیں ہیں کہ انہیں اصل ایشو کا علم نہ ہو۔ایک آدھ مرتبہ کسی جاں بحق ہونے والے کے لواحقین سے بات چیت ضرور کی گئی، وقتی طور پر پنجاب حکومت پر تحقیقات کے لئے دباو بھی ڈالا گیا، لیکن اس نکتے پر فو کس نہیں کیا گیا، اور یہی گلو بٹ ڈرامے کے ہدایت کاروں اور علامہ صاحب کا مقصد ہے۔ جہاں تک پولیس کی فائرنگ کا تعلق ہے تو پولیس اہلکار بخوبی جانتے ہیں کہ سیاست دان ایک حد سے آگے انہیں سپورٹ نہیں کر سکتے ،معطل تو پولیس والوں نے ہونا ہوتا ہے اور انکوائریاں بھی انہوں نے بھگتنی ہوتی ہیں اس لیے وہ کبھی بھی خود گولی چلانے کا رسک نہیں لیتے ،ایسا صرف واضح ترین احکامات کے بعد ہی کیا جاتا ہے یا پھر صورت حال کے نہایت تشویش ناک ہونے پر جہاں امن و امان بگڑنے کا واضح خدشہ ہو۔ اگر اس واقعہ کے لئے براراست نہیں تو اس سانحہ کو نہ روکنے پر سیاسی قیادت کو کسی طرح بھی اس ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ بیرئیرز کی تنصیب ایک مبہم سے عدالتی حکم امتناع پر کی گئی تھی لیکن بندے مار کر بیرئیر ہٹانے سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
سانحہ کے دوران طاہرالقادری اور ان کی تحریک کا کردار بھی نہایت نامناسب رہا۔ قادری صاحب نے جس طرح اس واقعہ کو مذہبیاور انقلابی رنگ دیتے ہوئے کارکنوں کو مزاحمت پر آمادہ کیا اور ریاستی اداروں کے کام میں مداخلت کی وہ بھی قابل مذمت ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکنے اورمظاہرین کے پاس اسلحہ کی موجودگی کے الزامات کی تفتیش کے بعد اس کے ذمہ داروں کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری نہ صرف حکومت، پولیس اہلکاروں بلکہ طاہر القادری اور ان کے حواریوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے سیاسی مفادات اور عوامی ہمدردی کے حصول کے لئے انسانی جانوں کو قربان کیا جن کی تلافی ممکن نہیں۔ اس معاملہ کو انسانی ہلاکتوں کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہئے،اگر اس سلسلے کو یہاں نہ روکا گیااور انصاف کے سبھی تقاضے پورے نہ کیے گئے تومعاملات کی خرابی اندازوں اور حدود سے تجاوز کر جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *