Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

یہ کیسا جہادہے؟

test-ghori

test-ghori

11 فروری, 2014
مست توکلی کے مزار اور چند روزقبل شام میں حضرت محمد ﷺ کے نواسے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی پیاری ننھی بیٹی حضر ت بی بی سکینہ کے دمشق میں واقع مزار پر کئی راکٹ فائر کر کے مزار کے طلائی گنبد کوشہید کر دیا گیا۔ جب یہ خبر میری سماعت سے ٹکرائی تو میں ایک لمحہ کیلئے دم بخود رہ گیا۔ یہ عیظم المرتبت ہستیاں جو اسلام کا سرمایہ ہیں ،بقائے دین کی علامت ہیں اورجو اسلام کی پہچان ہیں کو اس بے دردی کے ساتھ منہدم کیا جائے ۔ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ لیکن میں حیران ہو ں یہ کیسا اسلام ہے جس میں میں خود اسلام کی عظیم المرتبت ہستیوں کے مزارات محفو ظ نہیں۔ اگر شام کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے وہاں خانہ جنگی کی آڑ میں دنیا بھر سے دہشتگردوں اکٹھے ہو چکے ہیں جس سے پورے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان قوتوں نے علوی خاندان کے خلاف آواز بلند کرنے والے باغیوں سے اس بغاوت کا علم چھین کر اسے اپنے مکروہ ایجنڈے کا رنگ دے دیا ہے۔ مسلم مالک میں خلافت کے داعین، شریعت کے نام لیوا اور اسلامی کے غلبے کے پرچارک مسلح گروہ اور ان کی کاروائیاں صرف مسلم ممالک ہی کے لئے نہیں بلکہ عالمی امن کے لئے خطرہ بن چکی ہیں۔ دہشتگردی کی ان کارروئیوں کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کو مختلف مذاہب خاص کر عیسائی اور مسلمانوں کے مذہبی اور مقدس مقامات کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
شام، پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بر سر پیکار مذہبی جہادی قوتیں نظریاتی طور پر اسی ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہیں جو ہندوستان میں مندروں کو مسجد میں تبدیل کرنے ، سومنات کو لوٹنے ، مست توکلی ، رحمان بابا اور داتا گنج بخش کے مزارات پر حملوں کی ذہنیت ہے۔
کچھ عرصہ قبل شام کے عیسائی اکثریت کے علاقوں میں عیسائیوں کے چرچوں کے جلا دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ شام کے دیگر شہروں میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کے صحابی حجر بن عدی کی قبر اطہر کو پامال کیا گیا اور ان کے جسد پاک کی بے حرمتی کی گئی ، حضرت خالد بن ولید کے مزار کی بے حرمتی، رسول پاک ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار کے مزار کو آگ لگائی گئی، تاریخی مسجد بنو امیہ کو پامال کیا گیا اور دمشق میں ہی حضرت بی بی زینب سلام علیہ کے مزار پر حملہ کیا گیا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو منہدم کرنے والوں میں وہ دہشتگرد گروہ شامل ہیں جو اسلام کی مخصوص تشریح بزور طاقت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ جو اپنے فرقے کے سوا سب مذاہب، مکاتب اور مسالک کو گمراہ سمجھتے ہیں۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1924 میں جب ترکوں کی سلطنت عثمانیہ جو جنگِ عظیم کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک کی جدو جہد کے تحت قومی ریاست میں تبدیل ہو گئی اور اس کے مقبوضہ علاقوں میں آزاد ریاستیں قائم ہوئیں ۔ آل سعود نے نجد میں اپنی حکومت کا اعللان کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے مقدس مقامات خصوصاً آل رسول ﷺ کے مزارت کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ شام، پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بر سر پیکار مذہبی جہادی قوتیں نظریاتی طور پر اسی ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہیں جو ہندوستان میں مندروں کو مسجد میں تبدیل کرنے ، سومنات کو لوٹنے ، مست توکلی ، رحمان بابا اور دات گنج بخش کے مزارات پر حملوں کی ذہنیت ہے۔ یہ خود ساختہ مذہبی برتری کے تصورات کی عکاس فکر ہے جو بامیان کے مجسمے منہدم کرنے اور بابری مسجد کے مینارمسمار کرنا مذہبی فریضہ قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ فکر ہے جو تاریخ کو اپنی حکمرانی کا جواز فراہم کرنے کو مسخ کرنے کی فکر ہے۔ یہ وہی نظریات ہیں جو تلوار اور بندوق کی زبان میں دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کے نظریات ہیں۔ یہ سوچ ہٹلر اور مسولینی کی فسطائیت کی سوچ ہے جو بقائے باہمی، برداشت، آزادی رائے اور اختلافِ رائے، عالمگیر مساوات اور افرادی آزادی کی نفی کرنے کی سوچ ہے۔
یہ کیسا جہاد ہے جس کے ذریعےاسلامی ممالک کو کمزور کیا جائے ، شعائر اللہ کی توہین کی جائے ، انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں، مختلف مذاہب کے مقدس مقامت کی بے حرمتی کی جائے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جائے۔
دنیا یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ مسلمان ممالک (جن میں عراق، لبنان ، یمن ، افغا نستان ، پاکستان، صومالیہ، کئی افریقی اور عرب ممالک شامل ہیں) میں بد امنی اور دہشتگردی کرنے والی قوتیں ایک ہی فکر کی حامل ہیں۔ بظاہر یہ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام کے نفاد مطالبہ کرتی ہیں مگر ان کا عمل صریحاً اسلام کےپیغام امن کے عالمگیر اخوت کے خلاف ہے ۔ یہ شدت پسند مسلح قوتیں اپنی سفاکانہ اور دہشتگردانہ کارروئیوں کو اسلامی جہاد کا نام دیتی ہیں مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کیسا جہاد ہے جس کے ذریعے اسلامی ممالک کو کمزور کیا جائے ، شعائر اللہ کی توہین کی جائے ، انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں، مختلف مذاہب کے مقدس مقامت کی بے حرمتی کی جائے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جائے۔ لیکن وہ وقت آئے گا جب تاریخ سب کا احتساب کرے گی اور کوئی رہزن ہمیشہ بت شکن نہیں کہلا سکے گا، کوئی قاتل کوئی لٹیرا کبھی خدا کا نائب ہونے کا دعویدار نہیں رہ سکے گا۔ ایک روز سبھی انسان انسانیت کی اس معراج پر پہنچیں گے جو پیغمبروں، انقلابیوں، مسیحاوں کا خواب تھا ہے اور رہے گا۔