خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی کے دباو پر نصاب میں تبدیلیوں کا عمل جاری ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت کے دوران شامل کئے جانے والے ابواب نہ صرف خارج کئے جا رہے ہیں بلکہ جماعت اسلامی اپنے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سابق امیر قاضی حسین احمد سے متعلق اضافی ابواب شامل کرانے کی منظوری بھی حاصل کر چکی ہے۔”جماعت اسلامی کے دباو پر مذہب کے غلط استعمال اور شدت پسندی کے اثرات سے متعلق دہم جماعت کی پشتو کی کتاب سے موجودہ دور کے مسائل کا باب خارج کیا جا رہا ہے۔”پشاور کے ایک ہائی سکول ٹیچر رحمت علی نے لالٹین کو آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک برس میں نصاب میں بہت کچھ بدل دیا گیا ہے،”پچھلی حکومت نے جو سبق شامل کئے تھے ان میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور کافی مواد بدلا گیا ہے۔”
جماعت اسلامی کے دباو پر مذہب کے غلط استعمال اور شدت پسندی کے اثرات سے متعلق دہم جماعت کی پشتو کی کتاب سے موجودہ دور کے مسائل کا باب خارج کیا جا رہا ہے۔
قومی روزناموں میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی نے مخلوط حکومت کا حصہ بننے سے قبل تعلیم کی وزارت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ لالٹین تحقیق کے مطابق جماعت اسلامی کی جانب سے گزشتہ ایک برس کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے نصاب میں تبدیلی کے لئے حکومت پر دباو میں اضافہ ہوا ہے،”جماعت اسلامی کے حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک اسلامی جمعیت طلبہ کو مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور گزشتہ ماہ ان کے کارکنان نے نصاب میں موجود مواد کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے تھے۔ جماعت اسلامی ہمیں پھر ضیاء دور میں دھکیلنا چاہتی ہے۔” پشاور یونیورسٹی میں عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ نوجوان نورولی نے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا۔ مقامی سطح پر اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق احتشام الحق کا کہنا تھا کہ نصاب سے غیر اسلامی مواد نکالنے اور قرآنی آیات شامل کرنے کے لئے احتجاج کیا گیا ہے،”پچھلی حکومت نے اپنے سیکولر ایجنڈے کو بڑھانے کے لئے نصاب میں غیر اسلامی مواد شامل کیا تھا جسے اب نکالا جا رہا ہے، یہ ہمارے منشور کا حصہ ہے اور اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے لوگوں نے ہمیں ووٹ دیے ہیں۔” جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم کے مطابق نصاب میں تبدیلی کے لئے احتجاج مئی میں شروع کیا گیا تھا اور ستمبر میں اس میں شدت لائی گئی تھی۔
"جس نصاب کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے وہ 2013 میں تیار کیا گیا تھا اور ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا لیکن موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس نصاب کو ازسرنو مرتب کرے ۔” خیبر پختونخواہ کے ڈائریکٹوریٹ برائے نصاب سے وابستہ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لالٹین کو بتایا،” اٹھارہویں ترمیم کے بعد نصاب سازی کا کام اب صوبوں کی ذمہ داری ہے تاہم نصاب ابھی بھی وفاق کی ہدایات کی روشنی میں ہی بنایا جاتا ہے اور وفاقی اداروں کی منظوری سے نافذ کیا جاتا ہے۔”
قومی ہیروز کا سوال
عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں باچا خان ، غنی خان، غیر مسلم سائنسدانوں اور راجہ داہر سے متعلق مواد کی شمولیت کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن جماعت اسلامی اس کی بجائے سید ابوالاعلیٰ مودودی اور قاضی حسین احمد سمیت اسلامی سپہ سالاروں سے متعلق مواد کی شمولیت کی خواہش مند ہے۔ شدت پسندی سے متاثرہ پاکستان میں قومی ہیروز کا سوال متنازعہ ہے،”قومی ہیرو کون ہوگا کون نہیں اس کا فیصلہ سیاسی قیادت کرتی ہے اور چوں کہ سیاسی قیادت شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے متعلق مختلف نقاط ہائے نظر کی حامل ہے اس لئے یہ معاملہ متنازعہ ہے، حتیٰ کہ قائڈ اعظم اور علامہ اقبال کی زندگی کا کون سا رخ دکھانا ہے یہ بھی ابھی تک طے نہیں کیا جا سکا۔ ” ایک نجی
جماعت اسلامی کے حالیہ احتجاج کے دوران نصابی کتب میں دوپٹے کے بغیر نسوانی تصاویر اور انگریزی زبان میں سلام دعا پر بھی اعتراضات کئے گئے ہیں اور حکومت پر دباو ڈالا گیا ہے کہ وہ ایسے مواد کو نصاب سے خار ج کرے۔
یونیورسٹی سے وابستہ لیکچرر رضا رحیم کے مطابق اس وقت ضرورت ہے کہ نصاب سے متعلق نئی ترجیحات طے کی جائیں،” جو نصاب ضیاء دور میں بنایا گیا تھا اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اب اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو نصاب کو پاکستان کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دینا ہوگا۔یہ سوچنا ہو گا کہ ہم آج سے بیس یا پچاس برس بعد کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔”
"یہ شدت پسندی اور برداشت کے درمیان جنگ ہے”
ماہر تعلیم سلیم سرور کا کہنا تھاکہ خیبر پختونواہ میں نصاب کی تبدیلی کا معاملہ قومی سطح پر شدت پسندی سےمتعلق بیانیہ کا مسئلہ ہے ،”یہ شدت پسندی سے متعلق قومی سطح کے بیانیہ کا مسئلہ ہے، میرے نزدیک یہ معاملہ شدت پسندی اور برداشت کے درمیان جنگ کا ہےلیکن تعلیمی نصاب کو ایک سیاسی مسئلہ بنانے کے باعث نصاب تعلیم متنازعہ ہو چکا ہے۔”تعلیم سے متعلق ایک نجی این جی او سے وابستہ سلیم سرور کے مطابق نصاب کو غیر سیاسی بنیادوں پر ترتیب دیا جانا چاہئے،”جماعت اسلامی ہمیشہ سے نصاب تبدیل کرنے پرزور دیتی آئی ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھا سکے تو یہ بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے، لیکن اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے مستقبل پر بہت گہرے ہوں گے۔”
جماعت اسلامی کے حالیہ احتجاج کے دوران نصابی کتب میں دوپٹے کے بغیر نسوانی تصاویر اور انگریزی زبان میں سلام دعا پر بھی اعتراضات کئے گئے ہیں اور حکومت پر دباو ڈالا گیا ہے کہ وہ ایسے مواد کو نصاب سے خار ج کرے۔ گزشتہ دور حکومت میں شدت پسندی میں کمی کے لئے جہاد سے متعلق مواد کو بھی خارج کیا گیا تھا جسے اب دوبارہ شامل کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں ضیاء دور حکومت کے دوران جماعت اسلامی کی خواہش پر جماعت کے سیاسی ایجندے سے مطابقت رکھنے والال نصاب ہر سطح پر نافذ کای گیا تھا جس سے پاکستان میں معیار تعلیم بری طرح متاثر ہوا ہے۔

Leave a Reply