[blockquote style=”3″]
گلزار کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
شاعر: گلزار
یہ رسم الخط اگر میں جانتا تو،
وہ سب پڑھتا جو موسم لکھ کے جاتا ہے
مری دیوار کی سیلن میں شاید لکھ گیا تھا
دراڑیں پڑ رہی ہیں
بھرے رپتے ہو شاید اسی لیے وہ رستی رہتی ہیں
کبھی تو خشک بھی ہونے دو آنکھوں کو!
کبھی پتوں پہ پڑتی سلوٹیں پڑھتا ہوں اُٹھ کر
نہیں یہ عمر کی جھریاں نہیں ہیں
پریشانی ہے کوئی اس کی پیشانی پہ لکھا ہے
ہوائے گرم سے گزرے ہو تم بھی
لکیریں تجربوں کی آنکھوں کے نیچے نظر آنے لگی ہیں!
ذرا اوپر کے روشندان پر دیکھو تو، گرد آندھی کی
پوں بیٹھی ہے آ کر
ہوا کی پھونک سے اُڑتی نہیں اب
فلک دھندلا نظر آتا ہے ان میں
نظر کمزور ہونے لگ گئی ہے
چمکتی دھوپ میں دیوار کے کونے سے اک پتی نے جھانکا ہے
بہت سینچی ہیں تم نے درد سے مٹی کی دیواریں
اُپج کی کونپلیں اُگنے لگی ہیں!
Image: Duy Huynh