کوئٹہ اور چارسدہ میں ہونے والے حملے ان حلقوں کے لیے چسم کشاء ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ملکیت فوجی قیادت کو سونپ کر مطمئن ہو گئے تھے۔ یہ تکلیف دہ حملے ان سیاستدانوں اور سول اداروں کے لیے خود احتسابی کا شاید آخری موقع ہیں جو تاحال محض ‘ضرب عضب’ کو کافی سمجھ رہے تھے اور پاکستان کے شہری علاقوں میں مقیم دہشت گردوں کے حامی افراد ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی ہمت پیدا نہیں کر سکے۔ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے سہولت کاروں، معاونین اور ہمدردان کے خلاف کارروائی سے گریزاں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے لیے یہ فیصل کن مرحلہ ہے۔ یہ حملے عسکری قیادت کے لیے بھی جوابدہی کا موقع ہیں، انہیں ان سخت سوالوں کے جواب دینے ہیں کہ کیا وہ افغان طالبان، کشمیر جہاد کے لیے تیار کی گئی تنظیموں کی سرپرستی ختم کرنے کو تیار ہیں یا نہیں؟ اور کیا سول معاملات میں ان کی مداخلت اس جنگ کو جتینے میں روکاوٹ نہیں؟ یہ ہم سب کے لیے بھی ایک دوراہا ہے کہ کیا ہم ان دہشت گردوں، ان کے مذہبی بیانیے اور ان کے لیے حمایت کے خلاف اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم دہشت گردی کو پاکستان کی بقاء کے لیے ایک مسئلہ سمجھنے اور اس کے تدارک کے لیے ریاست کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہیں؟
کوئٹہ اور چارسدہ میں ہونے والے حملے ان حلقوں کے لیے چسم کشاء ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ملکیت فوجی قیادت کو سونپ کر مطمئن ہو گئے تھے۔
یہ جنگ ہماری اور ہم سب کی ہے، فوجی کارروائی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے، آخری معرکہ نہیں، یہ جنگ سول اداروں کی قیادت میں ہر اس محاذ پر ان تمام عوامل کے خلاف لڑی جانی چاہیئے تھی جو دہشت گردوں کے لیے مالی، افرادی اور تزویراتی معاونت کا باعث بن رہے ہیں۔ محض فوجی کارروائی کو کافی سمجھتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا سدباب کیے بغیر اور دہشت گردوں کے مذہبی بیانیے کا متبادل رائج کیے بناء یہ تسلیم کر لینا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم جیت جائیں گے دیوانے کا خواب ہے۔ اس جنگ میں ہم نے چند معرکے جیتے ہیں، جنگ کا میدان ابھی گرم ہے اور ابھی حوصلہ ہارنے یا مایوس ہونے کا وقت نہیں۔ یہ جنگ اعصاب کی جنگ ہے اور اس جنگ کو حوصلے اور اتحاد ہی سے جیتا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ ہمیں عسکری اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے ہیں اور ضرب عضب کی کامیابی کے دعووں کا تجزیہ بھی کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی سول قیادت سے بھی چند مشکل سوال کرنے ہوں گے اور انہیں ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کا یہ عفریت عسکری اداروں کی غیرریاستی عناصر کی سرپرستی کی پیداوار ہے، اس میں بھی کلام نہیں کہ ہمارے عسکری اداروں نے اہم مواقع پر غلط فیصلے کیے ہیں لیکن اب اس ادراک سے آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک کی جمہوریت پسند قوتوں کو قومی سلامتی کے معاملات پر اپنی اہلیت ثابت کرنا ہو گی تاکہ ہم عسکری اداروں کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کر سکیں اور ان کا احتساب بھی
یہ وقت افواہوں پر یقین کرنے، تفرقہ پھیلانے اور مایوس ہونے کا نہیں یہ وقت عسکری اداروں کی کارکردگی پر سنجیدہ بحث، سول قیادت کی غیر فعالیت پر جوابدہی، عدلیہ کی نااہلی اور معاشرے کے دہشت گردی کے معاملے پر منقسم ہونے پر غور کرنے کا وقت ہے۔ یہ وقت دشمن سے متعلق مغالطہ آرائی کا نہیں بلکہ اس کی پہچان کرنے اور مشکل فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں یہ اتفاق رائے پیدا کرنا ہے کہ مذہبی دہشت گردی، سیاسی اسلام اور ہماری جنگجو خارجانہ حکمت عملی اس مسئلے کی بنیاد ہیں، ہمیں افرادی اور اجتماعی سطح پر یہ تسلیم کرنا ہے کہ قومی ریاست میں قومیت عقیدے سے بالاتر ہے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کسی قسم کے غیر ریاستی عناصر خواہ ہم انہیں اپنے اثاثے ہی کیوں نہ سمجھتے رہے ہوں وہ ہمارے دوست نہیں، ہمیں یہ تہیہ کرنا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور ہمیں اپنی سمت متعین کرنی ہے کہ پاکستان کا مستقبل ایک مذہبی خلافت یا امارت کے قیام میں نہیں بلکہ ایک لبرل اور جمہوری ریاست کا حصول ہے۔
فوجی کارروائی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے، آخری معرکہ نہیں، یہ جنگ سول اداروں کی قیادت میں ہر اس محاذ پر ان تمام عوامل کے خلاف لڑی جانی چاہیئے تھی جو دہشت گردوں کے لیے مالی، افرادی اور تزویراتی معاونت کا باعث بن رہے ہیں۔
جون 2014 سے اب تک ہم نے بحیثیت مجموعی اس جنگ کی ذمہ داری مکمل طور پر فوجی قیادت کے سپرد کیے رکھی ہے اور ہم نے اب تک سول اداروں کی غیر فعالیت، عدلیہ کی نااہلی اور معاشرے کے غیر ذمہ دار رویے سے متعلق کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مدارس کی رجسٹریشن، فاٹا اصلاحات، انسداد دہشت گردی کے مرکزی ادارے کی فعالیت، دہشت گرد مذہبی بیانیے کا ارتداد اور نصاب میں تبدیلی سمیت کسی بھی محاذ پر ہم نے تاحال اپنی صفوں کو آراستہ نہیں کیا۔ بدقسمتی سے ہم میں سے کوئی بھی آگےبڑھنے اور ذمہ داری لینے کو تیار نہیں اور ہمارا یہی خوف اور بے عملی دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس حملے کے بعد بھی ہندوستان اور کابل کی جانب انگلیاں اٹھانا، سول قیادت اور اداروں کا مسلسل پس منظر میں رہنا اور جہادی افکار کی مسلسل ترویج وہ غلطیاں ہیں جن کا دہرانا کسی بھی صورت اس جنگ میں مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔
یقیناً وزیراعظم نواز شریف اس مرحلے پر قومی اتفاق رائے کے قیام کی اہلیت رکھتے ہیں، یقیناً ہمارا معاشرہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو مسترد کرنے کو تیار ہے اور یقیناً اس ملک کے سول ادارے اور جمہوریت دہشت گردی کے خلاف ہماری موثر ترین ڈھال ہے، ہمیں اس وقت اس جمہوری نظام کو مستحکم اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت سول اور عسکری اداروں پر مثبت مگر تعمیری تنقید کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اور متفقہ حکمت عملی، اہداف اور سمت اختیار کرنے کا وقت ہے۔ اب وفاقی اور تمام وفاقی اکائیوں کی صوبائی حکومتوں کو آگے آنا ہوگا اور اس جنگ کی قیادت کرنا ہو گی۔ اس جنگ کے اہم ترین مرحلے یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے، تمام طبقات کو مذہبی شدت پسندی کے خلاف متحد کرنے، فوجی کارروائی کے ساتھ مربوط سول حکمت عملی کے قیام اور سول اداروں کو فعال بنانے کا فریضہ سیاسی رہنماوں کو سرانجام دینا ہو گا۔
وفاقی وزارت داخلہ کو اس جنگ میں مرکزی کردار ادا کرنا ہے اور انسے اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہے کہ وہ اس جنگ کے خلاف قومی ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عمل درآمد کی اہل ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے وزیر داخلہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عدم موجودگی پر کی گئی تنقید اور نیکٹا کو فعال بنانے کی تجویز دونوں غورطلب اور فوری ردعمل کی متقاضی ہیں۔ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کے ذریعے سیاسی مخالفین کو کم زور بنانے کی بجائے اس مرحلے پر قومی اتفاق رائے سے آگے بڑھنے اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کو عسکری محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی، انتظامی اور نظریاتی محاذوں پر جیتنا بھی ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکری اداروں کا کردار کلیدی ہے مگر مرکزی نہیں، یہ جنگ طویل مدتی جنگ ہے اور عسکری اداروں کے احتساب کے ساتھ ساتھ اس جنگ میں سول اداروں کی جوابدہی بھی ضروری ہے۔ اس نازک وقت میں قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری فوج کے سربراہ کی نہیں وزیراعظم کی ہے، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی نگرانی اور معلومات کی فراہمی آئی ایس پی آر اور کور کمانڈرز کا نہیں وزارت داخلہ اور ایپکس کمیٹی کا فریضہ ہے، شہری علاقوں میں کارروائیاں پولیس کا کام ہے رینجرز یا نیم فوجی دستوں کا نہیں لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت اور سول ادارےاس جنگ میں اپنا مرکزی کردار ادا کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات پر رہنمائی کرنے کو تیار ہے؟
Image: India Today