یہ حملہ باچاخان کی سوچ اور افکار پر بھی حملہ ہے، یہ حملہ ان تمام پاکستانیوں پر حملہ ہے جو امن کی خواہش رکھتے ہیں اور مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھ کر کسی اور پر مسلط نہیں کرنا چاہتے، یہ حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے طلبہ کو سیاسی تنظیم سازی سے روکا گیا، ان کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندیاں عائد کی گئیں، اپنے منظور نظر طالب علموں کو ہتھیار بند ہونے اور اختلاف کرنے والوں پر چڑھ دوڑنے کی چھوٹ دی گئی لیکن ہم نے اپنے سیاسی شعور کو جوان رکھا۔ پھر ایک زمانے میں ہماری تعلیم پر نظریاتی حملے کیے گئے، تاریخ کو مسخ کیا گیا، جہاد کے اسباق رٹائے گئے، نفرت پھیلائی گئی، ہمیں پاکستان کے نام پر، اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرنا سکھائی گئی، اساتذہ کی جگہ مبلغین بھرتی کیے گئے، علماء کی جگہ جنگجو منبر و محراب پر قابض ہو گئے لیکن ہم نے اختلاف کرنے، سوال اٹھانے، اپنی آزادی کا دفاع کرنے اور اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کی جنگ جاری رکھی۔ اب ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیم پر ہتھیار لے کر حملہ آور ہونے والے بھی ناکام رہیں گے، انہوں نے ہمیں خوف زدہ کرنے کے لیے ہمیں قتل کیا، اپنے فرقے سے مختلف فرقے کی عباد گاہوں کو نشانہ بنایا، بازار، سکول، ہسپتال ہر جگہ ہمیں مر کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن ہم نے پسپا ہونے سے انکار کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔
ہمیں، ہماری قوم اور ہماری سیاسی قیادت کو یہ ادراک ہے کہ یہ ہماری بقاء کی جنگ ہے اور ہمیں ہر محاذ پر لڑنی ہے، لیکن ہمیں شاید ابھی یہ ادراک نہیں کہ سب سے ضروری محاذ عسکری محاذ نہیں علمی اور نظریاتی محاذ ہے۔ یہ جنگ محض ایک علاقے تک یا کچھ عرصے تک کے لیے جنگ نہیں ہے، یہ محض ایک سکول یا ایک یونیورسٹی پر حملہ نہیں ہے، یہ ہمارے مستقبل اور ہماری آنے والی نسلوں پر حملہ ہے۔ ہمیں تعلیم پر اس حملے کا جواب تعلیم سے دینا ہو گا۔ ہمیں صرف ضرب عضب، خیبر آپریشن ہی نہیں ان دہشت گردوں کے مذہبی نظریات کو بھی شکست دینا ہو گی۔ ہمیں یہ بتانا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم، اپنی سیاسی آزادی، جمہوریت اور حقوق پر کسی قسم کے سمجھوتے کو تیار نہیں۔ ہمیں بتانا ہو گا کہ وہ ایک ملالہ، ایک اعتزاز، ایک آرمی پبلک سکول، ایک چارسدہ یونیورسٹی کو نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن شدت پسندی کے خلاف ہمارے عزم اور حوصلے کو شکست نہیں دے سکتے۔ یہ حملہ باچاخان کی سوچ اور افکار پر بھی حملہ ہے، یہ حملہ ان تمام پاکستانیوں پر حملہ ہے جو امن کی خواہش رکھتے ہیں اور مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھ کر کسی اور پر مسلط نہیں کرنا چاہتے، یہ حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔ یہ حملہ ثابت کرتا ہے کہ دشمن ابھی کم زور ہوا ہے، پسپا ہوا ہے مگر اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔
ہمیں یہ بھی واضح کرنا ہے کہ جن ظلمتوں کے وہ بیوپاری ہیں، ہم اب ان کے خریدار نہیں، جن تاریکیوں کو وہ مسلط کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں قبول نہیں، جن اندھیروں کی کاشت وہ کرنا چاہتے ہیں ہم ان کی فصل کاٹنے کو تیار نہیں۔
ہمیں یہ بھی واضح کرنا ہے کہ جن ظلمتوں کے وہ بیوپاری ہیں، ہم اب ان کے خریدار نہیں، جن تاریکیوں کو وہ مسلط کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں قبول نہیں، جن اندھیروں کی کاشت وہ کرنا چاہتے ہیں ہم ان کی فصل کاٹنے کو تیار نہیں۔ ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ جس ملائیت پر مبنی مذہبی حکومت کی تشکیل وہ چاہتے ہیں ہمارا جمہوری نظام اس سے زیادہ منصفانہ، زیادہ ذمہ دار اور انسان دوست ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ ایسے حملوں کے نتیجے میں شہری آزادیوں کو محدود کرنے کی بجائے جمہوری اقدار کو مضبوط کرنا ہو گا، اسلحہ تاننے کے ساتھ سول اداروں کو فعال اور متحرک کرنا ہوگا۔ ہمیں خود کو مثال بنانا ہو گا کہ ہم مذہبی رواداری کی بناء پر قتل و غارت کی نہ حمایت کرتے ہیں نہ برداشت کریں گے، ہمیں یہ سمجھانا ہو گا کہ اسلام کا ایک امن پسند، جمہوری اور انسانی اقدار سے ہم آہنگ بیانیہ ممکن ہے، ہمیں اب یہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی کہ ہم کئی دہائیوں تک روا رکھے جوانے والے شدت پسند بیانیے کو اب اپنی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں میں قبول کرنے کو تیار نہیں، یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کے شدت پسند اور بنیاد پرست بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے مکالمے کی گنجائش پیدا کریں۔
ہمیں اپنی دفاعی ترجیحات پر بھی غور کرنا ہو گا، کہ ہم کس سے جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور اصل میں ہمارا دشمن کون ہے، ہم سرحدوں پر کن کی جانب توپیں کر کے کھڑے ہیں اور کون ہے جو ہمارے اپنے اندر سے اٹھ کر ہی ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپ رہا ہے، ہم اپنا دشمن پہچان کر بھی کیوں کسی اور کی جانب انگلیاں اٹھا رہے ہیں؟ یہ جنگ جیتنا ضروری ہے، کیون کہ یہ ہماری بقاء کی جنگ ہے، ہماری آنے والی نسلوں کے لیے آزادی سے سانس لینے کی جنگ ہے، دہشت اور خوف کے خلاف جنگ ہے تاکہ ہم اور ہمارے بچے اس عفریت سے محفوط رہ سکیں۔ ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے اور اس جنگ کو جیتنے کے لیے صرف ہتھیار نہیں، قلم، کتاب اور تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔۔۔۔ وہ تعلیم جو انسان کو آزادی سے جینا سکھاتی ہے وہ نہیں جو اپنے عقیدے کی بنیاد پر قتل کرنے کے جواز فراہم کرتی ہے، وہ کتابیں جو رواداری، انسانیت اور امن کا درس دیتی ہیں وہ نہیں جو قتال کو آسمانی حکم بنا کر پیش کر تی ہیں، وہ قلم جو مستقبل کا زائچہ بناتی ہے وہ نہیں جو گئے زمانوں کے میدان ہائے جنگ کا نقشہ کھینچتی ہے۔
Leave a Reply