بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ یونیورسٹی انتظامیہ کے نامناسب رویے کے خلاف احتجاج کرنے والی تین طالبات کے خلاف تھانہ سبزی منڈی میں مقدمات درج کرادیے ہیں۔ رومانہ اکبر، نیلم جہاں اور حبہ شبیر کے خلاف املاک میں بلا اجازت داخلے اور طالبات کو ہراساں کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کرائے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ ماہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ہاسٹل ضوابط میں تبدیلی اور یونیورسٹی کی طالبات کے خلاف کاروائی کرنے پر یونیورسٹی طالبات نے احتجاج کیا تھا۔ احتجاج کے نتیجے میں یونیورسٹی میں آمدورفت معطل رہی اور تدریسی سرگرمیاں متاثر ہوئی تھیں۔
لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کا کہنا تھا کہ یونین کے خاتمے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے طلبہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں، اکثر اساتذہ اور انتظامیہ کے اہلکار طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کی دھمکی دے کر اپنے خلاف احتجاج سے روکتے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے احتجاج کرنے والی طالبات کو وارننگ دی گئی تھی اور بعض طالبات کو ہاسٹل اور یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کی طرف سے درج کرائے گئے مقدمات کے تحت فی الحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ مقدمات کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صفدر حسین کے مطابق طالبات کی طرف سے مقدمات کے اندراج کے خلاف دو درخواستیں مقامی عدالتوں میں دائر کی گئی ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق تینوں طالبات کے داخلے منسوخ کئے گئے تھے جس پر تینوں طالبات نے عدالت سے سٹے آرڈر حاصل کر لیا تھا جو بعد ازاں خارج کر دیا گیا، جس پر طالبات نے یونیورسٹی احاطہ میں داخل ہوکر انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کا کہنا تھا کہ یونین کے خاتمے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے طلبہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں، اکثر اساتذہ اور انتظامیہ کے اہلکار طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کی دھمکی دے کر اپنے خلاف احتجاج سے روکتے ہیں۔ ایک طالبہ نے نام نہ بتانے کی شرط پر یونیورسٹی انتظامیہ کے اس قدم کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا “اگر یونیورسٹی انتظامیہ کوئی غلطی یا ناانصافی کرے تو طلبہ کیا کریں، احتجاج کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں، لیکن احتجاج کرنے والوں کو یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔”
لالٹین ذرائع کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کاروائی طالبات کی طرف سے ہاسٹل قواعد میں تبدیلی اور انتظامیہ کے نامناسب رویے کے خلاف احتجاج کے بعد کی گئی ہے۔ رومانہ اکبر، نیلم جہاں اور حبہ شبیر ان احتجاجی مظاہروں میں شامل تھیں اور ان کے گھروں میں نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق تینوں طالبات کے داخلے منسوخ کئے گئے تھے جس پر تینوں طالبات نے عدالت سے سٹے آرڈر حاصل کر لیا تھا جو بعد ازاں خارج کر دیا گیا، جس پر طالبات نے یونیورسٹی احاطہ میں داخل ہوکر انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کا کہنا تھا کہ یونین کے خاتمے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے طلبہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں، اکثر اساتذہ اور انتظامیہ کے اہلکار طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کی دھمکی دے کر اپنے خلاف احتجاج سے روکتے ہیں۔ ایک طالبہ نے نام نہ بتانے کی شرط پر یونیورسٹی انتظامیہ کے اس قدم کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا “اگر یونیورسٹی انتظامیہ کوئی غلطی یا ناانصافی کرے تو طلبہ کیا کریں، احتجاج کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں، لیکن احتجاج کرنے والوں کو یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔”
لالٹین ذرائع کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کاروائی طالبات کی طرف سے ہاسٹل قواعد میں تبدیلی اور انتظامیہ کے نامناسب رویے کے خلاف احتجاج کے بعد کی گئی ہے۔ رومانہ اکبر، نیلم جہاں اور حبہ شبیر ان احتجاجی مظاہروں میں شامل تھیں اور ان کے گھروں میں نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔