یورینیم کے خواب
( سالِ یورینیم کی کیا کہوں ، سات بونوں کی حکومت کو ختم ہونا ہی تھا مگر اس دنیائے فانی پر رذیل مینڈک کی حکومت کا ہونا کسی کابوس سے کم نہیں – مگر اب وہ مالک ہے اور ہم گزیدگانِ روز و شب جو پہلے بھی محکوم تھے ابھی بھی غلام ہیں)
“وہ سات بونے کہاں گئے جو ہماری پلکوں کو نوچتے تھے
جو صبحوں شاموں کے چرخ تھامے ہماری سانسوں کو کاتتے تھے”
جو صبحوں شاموں کے چرخ تھامے ہماری سانسوں کو کاتتے تھے”
نہاں تھئیٹر میں رقص گرداں جو پتلیاں تھیں وہ رک گئی تھیں
خداۓ پنہاں کا ہاتھ تھامے جو رسیاں تھیں وہ کٹ گئی تھیں
عدم کی لوح یقین پہ لکھے حروف معنی تلاشتے تھے
جلے پروں سے فرشتے اپنے ، خداۓ فانی تراشتے تھے
مچان خلیے کی چھوڑ،
—دھواں—
یورینیم کے نحیف پلوں کی زرد چمڑی کو چاٹتا تھا
سلگتی لاشوں کی بوئے بد کا خمیر نتھنوں کو کاٹتا تھا
قرون لمحوں میں منفجر تھے
ہوا میں اڑتے دلوں سے گرتا تھا سرخ ایندھن
سکڑتی چمڑی کو بوٹی بوٹی سے گرم ناخن کھروچتے تھے
جنین ماؤں کے نوک پستاں ، چبا رہے تھے، دبوچتے تھے
جگر سے رستا لعاب چیخوں کے ہاتھ گرتا
وبال زلفوں کے کڑکڑاتے
بدھا کے لاشے پہ بین کرتا، درخت پیپل کا سڑ گیا تھا
وہیں پہ اندو ندی کا اژدر زمیں کی گردن پہ چڑھ گیا تھا
“رزیل” روحوں کی راس تھامیں “رضائے رندی” کے رجز گاتا
رذیل کیچڑ کا سبز مینڈک، تمام فانی جہاں کا مالک
کبھی پھپھولوں پہ رقص کرتا، کبھی ببولوں پہ گنگناتا
خداۓ پنہاں کا ہاتھ تھامے جو رسیاں تھیں وہ کٹ گئی تھیں
عدم کی لوح یقین پہ لکھے حروف معنی تلاشتے تھے
جلے پروں سے فرشتے اپنے ، خداۓ فانی تراشتے تھے
مچان خلیے کی چھوڑ،
—دھواں—
یورینیم کے نحیف پلوں کی زرد چمڑی کو چاٹتا تھا
سلگتی لاشوں کی بوئے بد کا خمیر نتھنوں کو کاٹتا تھا
قرون لمحوں میں منفجر تھے
ہوا میں اڑتے دلوں سے گرتا تھا سرخ ایندھن
سکڑتی چمڑی کو بوٹی بوٹی سے گرم ناخن کھروچتے تھے
جنین ماؤں کے نوک پستاں ، چبا رہے تھے، دبوچتے تھے
جگر سے رستا لعاب چیخوں کے ہاتھ گرتا
وبال زلفوں کے کڑکڑاتے
بدھا کے لاشے پہ بین کرتا، درخت پیپل کا سڑ گیا تھا
وہیں پہ اندو ندی کا اژدر زمیں کی گردن پہ چڑھ گیا تھا
“رزیل” روحوں کی راس تھامیں “رضائے رندی” کے رجز گاتا
رذیل کیچڑ کا سبز مینڈک، تمام فانی جہاں کا مالک
کبھی پھپھولوں پہ رقص کرتا، کبھی ببولوں پہ گنگناتا
“وہ سات بونے کہاں گئے جو ہماری پلکوں کو نوچتے تھے
جو صبحوں شاموں کے چرخ تھامے ہماری سانسوں کو کاتتے تھے
کہاں ہیں امید کے پیمبر
کہ گر وہ آئیں
تو ہم ذبیحوں کے خون اندر
نہائیں اور پھر ابد کو جائیں…”
جو صبحوں شاموں کے چرخ تھامے ہماری سانسوں کو کاتتے تھے
کہاں ہیں امید کے پیمبر
کہ گر وہ آئیں
تو ہم ذبیحوں کے خون اندر
نہائیں اور پھر ابد کو جائیں…”
“ابد کو جائیں؟”
رذیل مینڈک کے قہقہے گونج اٹھے تھے آسماں میں
“ابد کہاں ہے؟
ابد کہاں ہے!!!!””
ابد کہاں ہے!!!!””