حفیظ درویش
“بیٹا !آرام سے بیٹھو،یہ مسجد ہے یہاں شرارت کرنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے”
ریحان نے اپنے چار سالہ بیٹے کو پیار سے سمجھایا۔ جو لوگوں کے سامنے صفوں پر بھاگتا ہوا ابھی دوبارہ باپ کے پاس آکربیٹھ گیا تھا۔
ریحان کوئی اتنا مذہبی آدمی نہیں تھا بس جمعہ کے جمعہ مسجد آکر نماز ادا کرلیتااور ساتھ میں اپنے اکلوتے چار سالہ بیٹے نوراللہ کو بھی لے آتا۔اس معصوم فرشتے کو ماں بڑے چاوَ سے تیار کرکے مسجد بھیجتی۔ کام والا کرتا ،موتیوں سے جڑی ٹوپی اور تلے والا چھوٹا سا کھسہ پہنے وہ کسی ٹی وی اشتہار کا ننھا ماڈل لگ رہا تھا۔مسجد میں داخل ہونے سے پہلے نور اللہ کھسہ شاپر میں ڈال کر اپنے ساتھ اندر لے آتااور شاپر کو ہاتھ میں تھامے مسجد کے اندر لوگوں کی موجود گی سے بے خبر بھاگتا پھرتا۔
ریحان بیٹے کو بڑی مشکل سے اپنے پاس بِٹھاتا،لیکن جب وہ نفل یا سنتیں ادا کرتا تو وہ اس دوران بھاگ اٹھتا اور باپ کے سلام پھیرنے پر دوبارہ بھاگا بھاگا باپ کے پاس پہنچ جاتا، جس پر ریحان اس کو مصنوعی ناراضگی سے دیکھتا۔ دو چار بڑے بوڑھوں نے ریحان کو کئی بارمنع کیا کہ وہ اتنے چھوٹے بچے کومسجد میں لے کر نہ آیا کرےکیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کا دھیان بٹتا ہےاور نماز خراب ہوتی ہے۔ لیکن ریحان نے کسی کی پرواہ نہ کی بلکہ ریحان اس معاملے میں اکیلا نہیں تھااس کے ساتھ کئی دیگر لوگ بھی تھے جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے کر آتے تھے۔ اس عمل کے پیچھے ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس طرح کرنے سے بچوں میں دین اور نماز کی محبت پیدا ہوگی اور کل وہ بڑے ہوکر اچھے مسلمان بنیں گے۔
ریحان اپنے بیٹے کو پچھلے چھ سات ماہ سے تقریباً ہر جمعے کو مسجد لے کر آرہا تھا۔ باپ نما ز پڑھتا اور بیٹا باپ کی نقل اتارتا جس کے دوران اکثر اس کے دل میں جانے کیا سماتی کہ سجدے کے دوران قلابازی کھا جاتا ۔ جس کو دیکھ کر نماز میں مصروف ہونے کے باوجود ریحان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔نماز سے اکتا کر نور اللہ صفوں کے درمیان لوگوں کے سامنے بھاگنے لگتااور اس وقت تواس کی عیش ہوجاتی جب سارے لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی میں مصروف ہوتے کیونکہ اس دوران اسے اور اس جیسے چند دیگر “شیطانوں” کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔
ریحان سمیت سب دو رکعت نماز جمعہ باجماعت ادا کرکے اذکار میں مصروف تھے ۔جبکہ نور اللہ بھاگنے کی وجہ سے سرخ ہوکر باپ کے پہلو سے چپکا بیٹھا تھا۔ مولانا صاحب نے دو چار ورد رکرنے کے بعد ہا تھ دعاکےلیے اٹھا دیئے ۔ جس پر دیگر نمازیوں نے مختلف انداز میں اپنے اپنے ہاتھوں کا کشکول بنا لیا۔ تاکہ اللہ کے حضور اس کو پیش کرسکیں۔
مولانا نے درمند لہجے میں دعا شروع کی:
” یااللہ ہمارے جمعہ کی نماز اپنے بارگاہ میں قبول فرما”
“آمین”
نمازیوں کی اجتماعی جواب سے پوری مسجد گونج اٹھی۔ اس کے بعد امام صاحب نے ملک وقوم کی سلامتی کے لیے دعا مانگی، مسلم امہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف اللہ سے فریاد کی۔کشمیر ، فسلطین ، عراق ،مصر، افغانستان،برما اور بھارت میں موجود ظلم کے شکار مسلمانوں کےلیے خدا سے دلگیر لہجے میں عافیت اور امن کی التجا کی۔پھر امام صاحب نے انتہائی پر جلال لہجے میں کہا:
“یا اللہ اس ارض پاک پر شریعت پر مبنی نظام قائم فرما، ایسا نظام جو تیر ے احکامات کی روشنی میں کام کرے۔ جہاں ہر مسلمان کی عزت جان اور مال محفوظ ہو۔”
نمازیوں کی طرف سے کہی گئی آمین ابھی پوری طرح سے ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا اور اس کے بعد ہر طرف دھوئیں کے بادل پھیل گے لوگوں کی چیخ وپکار اور افراتفری نے سب کے حواس معطل کردیے۔ہر طرف لوگوں کے اعضاء بکھرے پڑے تھے ،خون کے چھوٹے چھوٹے تالابوں اور دیواروں پر جگہ جگہ پڑے چھینٹوں نے پوری مسجد کو کسی ذبح خانے میں تبدیل کردیا تھا۔
“بہو ریحان اور نوراللہ نماز مسجد میں نماز پڑھنے کےلیے گئے ہیں؟”
ریحان کی بیوی مریم نے کچن میں کھانا بناتے ہوئے اپنی ساس کی دہشت میں لتھڑی آواز سنی جو نماز پڑھنے کے بعد خبریں سن رہی تھی۔
” جی امی”
مریم نے چولہا بند کرنے کے بعد کمرے کا رخ کیا۔ساس کی آواز سے مریم کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا گیا تھا۔ جب وہ کمرے میں پہنچی تو اس کی ساس سکتے کی حالت میں ٹی وی کی سکرین کو تکے جارہی تھی جس پر ریسکیو اہلکار زخمیوں اور لاشوں کو گاڑیوں میں ڈالتے دکھائی دے رہے تھے ۔ جبکہ ایک رپورٹر اس دھماکے کی لمحہ بہ لمحہ خبر دے رہا تھا:
” یہ واقعہ آدھے گھنٹے پہلے پیش آیا ہےاور ریسکیو ذرائع کے مطابق اب تک پچاس لوگ شہید ہوچکے ہیں اور دو سو کے قریب زخمی ہیں۔مرنے والوں میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ تاحال اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ دھماکہ کس نے کیا ہے اور اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ کسی معصوم بچے کے کھسے ہیں جو شاید وہ معصوم فرشتہ اپنے ساتھ مسجد میں لے آیا تھا۔بوڑھے ، بچے اور جوان سب اس واقعے کی زدمیں آئے ہیں۔ دہشت گردوں نے معصوموں کو بھی نہیں بخشا۔”
چھوٹے سے کھسےکو جیسےہی فوکس کر کے دکھایا گیا۔ مریم اور اس کی ساس کی اکٹھے چیخ نکل گئی۔ اس کے فوراً بعد مریم حواس باختہ ہوکر موبائل فون کی طرف بھاگی جو کچن میں شیلف کے اوپر اس نے رکھا ہوا تھا۔
” اللہ میرے بچے کی حفاظت فرما۔ یا اللہ ان کی خیرکر، یا اللہ رحم یااللہ رحم ” یہ کہتے ہوئے مریم نے ریحان کا نمبر ڈائل کیا۔ اور دوبارہ کمرے میں ٹی وی سکرین کے سامنے کھڑی ہوگئی، اس کی ساس رو رو کر اوراپنا دوپٹہ اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں بیٹے اور پوتے کی سلامتی کےلیے دعائیں مانگ رہی تھی۔
“امی ریحان کا فون بند جارہا ہے” یہ لفظ کہنے کے بعد جیسے ہرضبط کا بندھ ٹوٹ گیا اور ساس بہو چیخ چیخ کر رونے لگیں۔اور اسی کے ساتھ ٹی وی سکرین پر بریکنگ نیوز چلنے لگ گئی:
” طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں شرعی نظام نافذ نہیں ہوتا تب تک وہ اپنے حملے اسی طرح جاری رکھیں گے۔”
ریحان نے اپنے چار سالہ بیٹے کو پیار سے سمجھایا۔ جو لوگوں کے سامنے صفوں پر بھاگتا ہوا ابھی دوبارہ باپ کے پاس آکربیٹھ گیا تھا۔
ریحان کوئی اتنا مذہبی آدمی نہیں تھا بس جمعہ کے جمعہ مسجد آکر نماز ادا کرلیتااور ساتھ میں اپنے اکلوتے چار سالہ بیٹے نوراللہ کو بھی لے آتا۔اس معصوم فرشتے کو ماں بڑے چاوَ سے تیار کرکے مسجد بھیجتی۔ کام والا کرتا ،موتیوں سے جڑی ٹوپی اور تلے والا چھوٹا سا کھسہ پہنے وہ کسی ٹی وی اشتہار کا ننھا ماڈل لگ رہا تھا۔مسجد میں داخل ہونے سے پہلے نور اللہ کھسہ شاپر میں ڈال کر اپنے ساتھ اندر لے آتااور شاپر کو ہاتھ میں تھامے مسجد کے اندر لوگوں کی موجود گی سے بے خبر بھاگتا پھرتا۔
ریحان بیٹے کو بڑی مشکل سے اپنے پاس بِٹھاتا،لیکن جب وہ نفل یا سنتیں ادا کرتا تو وہ اس دوران بھاگ اٹھتا اور باپ کے سلام پھیرنے پر دوبارہ بھاگا بھاگا باپ کے پاس پہنچ جاتا، جس پر ریحان اس کو مصنوعی ناراضگی سے دیکھتا۔ دو چار بڑے بوڑھوں نے ریحان کو کئی بارمنع کیا کہ وہ اتنے چھوٹے بچے کومسجد میں لے کر نہ آیا کرےکیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کا دھیان بٹتا ہےاور نماز خراب ہوتی ہے۔ لیکن ریحان نے کسی کی پرواہ نہ کی بلکہ ریحان اس معاملے میں اکیلا نہیں تھااس کے ساتھ کئی دیگر لوگ بھی تھے جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے کر آتے تھے۔ اس عمل کے پیچھے ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس طرح کرنے سے بچوں میں دین اور نماز کی محبت پیدا ہوگی اور کل وہ بڑے ہوکر اچھے مسلمان بنیں گے۔
ریحان اپنے بیٹے کو پچھلے چھ سات ماہ سے تقریباً ہر جمعے کو مسجد لے کر آرہا تھا۔ باپ نما ز پڑھتا اور بیٹا باپ کی نقل اتارتا جس کے دوران اکثر اس کے دل میں جانے کیا سماتی کہ سجدے کے دوران قلابازی کھا جاتا ۔ جس کو دیکھ کر نماز میں مصروف ہونے کے باوجود ریحان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔نماز سے اکتا کر نور اللہ صفوں کے درمیان لوگوں کے سامنے بھاگنے لگتااور اس وقت تواس کی عیش ہوجاتی جب سارے لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی میں مصروف ہوتے کیونکہ اس دوران اسے اور اس جیسے چند دیگر “شیطانوں” کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔
ریحان سمیت سب دو رکعت نماز جمعہ باجماعت ادا کرکے اذکار میں مصروف تھے ۔جبکہ نور اللہ بھاگنے کی وجہ سے سرخ ہوکر باپ کے پہلو سے چپکا بیٹھا تھا۔ مولانا صاحب نے دو چار ورد رکرنے کے بعد ہا تھ دعاکےلیے اٹھا دیئے ۔ جس پر دیگر نمازیوں نے مختلف انداز میں اپنے اپنے ہاتھوں کا کشکول بنا لیا۔ تاکہ اللہ کے حضور اس کو پیش کرسکیں۔
مولانا نے درمند لہجے میں دعا شروع کی:
” یااللہ ہمارے جمعہ کی نماز اپنے بارگاہ میں قبول فرما”
“آمین”
نمازیوں کی اجتماعی جواب سے پوری مسجد گونج اٹھی۔ اس کے بعد امام صاحب نے ملک وقوم کی سلامتی کے لیے دعا مانگی، مسلم امہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف اللہ سے فریاد کی۔کشمیر ، فسلطین ، عراق ،مصر، افغانستان،برما اور بھارت میں موجود ظلم کے شکار مسلمانوں کےلیے خدا سے دلگیر لہجے میں عافیت اور امن کی التجا کی۔پھر امام صاحب نے انتہائی پر جلال لہجے میں کہا:
“یا اللہ اس ارض پاک پر شریعت پر مبنی نظام قائم فرما، ایسا نظام جو تیر ے احکامات کی روشنی میں کام کرے۔ جہاں ہر مسلمان کی عزت جان اور مال محفوظ ہو۔”
نمازیوں کی طرف سے کہی گئی آمین ابھی پوری طرح سے ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا اور اس کے بعد ہر طرف دھوئیں کے بادل پھیل گے لوگوں کی چیخ وپکار اور افراتفری نے سب کے حواس معطل کردیے۔ہر طرف لوگوں کے اعضاء بکھرے پڑے تھے ،خون کے چھوٹے چھوٹے تالابوں اور دیواروں پر جگہ جگہ پڑے چھینٹوں نے پوری مسجد کو کسی ذبح خانے میں تبدیل کردیا تھا۔
“بہو ریحان اور نوراللہ نماز مسجد میں نماز پڑھنے کےلیے گئے ہیں؟”
ریحان کی بیوی مریم نے کچن میں کھانا بناتے ہوئے اپنی ساس کی دہشت میں لتھڑی آواز سنی جو نماز پڑھنے کے بعد خبریں سن رہی تھی۔
” جی امی”
مریم نے چولہا بند کرنے کے بعد کمرے کا رخ کیا۔ساس کی آواز سے مریم کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا گیا تھا۔ جب وہ کمرے میں پہنچی تو اس کی ساس سکتے کی حالت میں ٹی وی کی سکرین کو تکے جارہی تھی جس پر ریسکیو اہلکار زخمیوں اور لاشوں کو گاڑیوں میں ڈالتے دکھائی دے رہے تھے ۔ جبکہ ایک رپورٹر اس دھماکے کی لمحہ بہ لمحہ خبر دے رہا تھا:
” یہ واقعہ آدھے گھنٹے پہلے پیش آیا ہےاور ریسکیو ذرائع کے مطابق اب تک پچاس لوگ شہید ہوچکے ہیں اور دو سو کے قریب زخمی ہیں۔مرنے والوں میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ تاحال اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ دھماکہ کس نے کیا ہے اور اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ کسی معصوم بچے کے کھسے ہیں جو شاید وہ معصوم فرشتہ اپنے ساتھ مسجد میں لے آیا تھا۔بوڑھے ، بچے اور جوان سب اس واقعے کی زدمیں آئے ہیں۔ دہشت گردوں نے معصوموں کو بھی نہیں بخشا۔”
چھوٹے سے کھسےکو جیسےہی فوکس کر کے دکھایا گیا۔ مریم اور اس کی ساس کی اکٹھے چیخ نکل گئی۔ اس کے فوراً بعد مریم حواس باختہ ہوکر موبائل فون کی طرف بھاگی جو کچن میں شیلف کے اوپر اس نے رکھا ہوا تھا۔
” اللہ میرے بچے کی حفاظت فرما۔ یا اللہ ان کی خیرکر، یا اللہ رحم یااللہ رحم ” یہ کہتے ہوئے مریم نے ریحان کا نمبر ڈائل کیا۔ اور دوبارہ کمرے میں ٹی وی سکرین کے سامنے کھڑی ہوگئی، اس کی ساس رو رو کر اوراپنا دوپٹہ اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں بیٹے اور پوتے کی سلامتی کےلیے دعائیں مانگ رہی تھی۔
“امی ریحان کا فون بند جارہا ہے” یہ لفظ کہنے کے بعد جیسے ہرضبط کا بندھ ٹوٹ گیا اور ساس بہو چیخ چیخ کر رونے لگیں۔اور اسی کے ساتھ ٹی وی سکرین پر بریکنگ نیوز چلنے لگ گئی:
” طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں شرعی نظام نافذ نہیں ہوتا تب تک وہ اپنے حملے اسی طرح جاری رکھیں گے۔”
(حفیظ درویش ایم اے ابلاغیات سے فارغ التحصیل ہیں اور کیپیٹل ٹی وی میں بطور اسسٹنٹ پروڈیوسر کام کر رہے ہیں۔ کالم اور افسانہ نگاری ان کے مشاغل ہیں۔)
انتباہ: مجلس ادارت کا میگزین میں شامل قلمی معاونین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مشمولات کی اسناد اور حوالوں میں کمی یا بیشی کا ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔ یوتھ یلزایک نیا رنگا رنگ سلسلہ ہے، جس میں نوجوان قلمکار بلا جھجک اپنے ھر طرح کے خیالات کا دوٹوک اظہار کر سکتے ہیں۔۔ آپ کا اسلوب سنجیدہ ہے یا چٹخارے دار۔۔ آپ سماج پر تنقید کا جذبہ لیے ہوئے ہیں یا خود پر ہنسنے کا حوصلہ۔۔۔۔ “لالٹین” آپ کی ہر تحریر کو خوشآمدید کہتا ہے۔ |