Laaltain

ہگز بوزان اور عبدالسلام

26 جون، 2017
Picture of فصی ملک

فصی ملک

تحریر: ڈاکٹر عقیل احمد
مترجم: فصی ملک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کی چار بنیادی قوتیں، برقناطیسی قوت، نحیف نیوکلیائی قوت، قوی نیوکلیائی قوت، اور کششِ ثقل، ہیں۔برقناطیسیت کا مشاہدہ روز مرہ کی زندگی میں کیا جا سکتا ہے،جیسا کہ آسمانی بجلی(Lightening) ایک قدرتی عمل ہے۔نحیف نیوکلیائی قوت کا اظہار تابکاری، جس کو سرطان کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، میں ہوتا ہے۔دوسری جانب قوی نیوکلیائی قوت جوہری مرکزہ(اولیے اور تعدیلیے) کو اکٹھا رکھنے کی موجب ہے۔ جب کہ کششِ ثقل کا مشاہدہ روز مرہ کی زندگی میں کیاجاتا ہے، مثال کے طور پر،نظامِ شمسی کے ستارے کششِ ثقل کی وجہ سے ہی سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

اس چیز کا جائزہ لینا نہایت اہم ہے کہ برقناطیسیت اور کششِ ثقل طویل حدودی(long range) قوتیں ہیں، یعنی ان کا اثر طویل فاصلوں پر بھی ہوتا ہے۔جب کہ نحیف اور قوی نیوکلیائی قوتوں کا اظہار بہت کم فاصلوں پر ہوتا ہے، جیسا کہ جوہر کے مرکزہ کے اندر، جس کا سائز 10-15 میٹر ہوتا ہے۔کششِ ثقل باقی تینوں قوتوں کی نسبت کمزور ہے اور اپنا اظہار بھاری اجسام پر کرتی ہے۔چونکہ بنیادی ذرات، جیسا کہ برقیے اور کوارکس( جن سے مل کر اولیے اور تعدیلیے بنے ہوتے ہیں) بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے یہ باقی تین قوتوں کی نسبت کششِ ثقل کا اثر کم محسوس کرتے ہیں۔اس لیے طبیعیات دان بنیادی ذرات کی خصوصیات کے مطالعے میں عمومی طور پر کششِ ثقل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔لہٰذا ہمارے پاس تین قوتیں باقی بچتی ہیں، برقناطیسیت اور قوی اور نحیف نیوکلیائی قوتیں۔

تمام قوتیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں ذرات کے درمیان قوت بردار ذرات (force carrier particles)سے عمل کرتی ہیں، یہ قوت بردار ذرات گیج بوزانزgauge bosons) ) کہلاتے ہیں۔مثال کے طور پر دو برقیوں کے درمیان برقناطیسی قوت ضیائیوں(photons) کے ذریعے عمل کرتی ہے۔اس مظہر کوبیڈمنٹن(badminton)کے کھیل سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ بیڈ منٹن کے دو کھلاڑیوں کے درمیان قوت چِڑی(shuttlecock) کے ذریعے پہنچتی ہے، بالکل اسی طرح بنیادی قوتیں گیج بوزانز کے ذریعے پہنچتی ہیں۔چناچہ بنیادی قوتیں چار قسم کی ہیں اس لیے گیج بوزانز بھی چار مختلف اقسام کے ہیں اور ہر قوت کی نوعیت پر منحصر کرتے ہوے ان کی خصوصیات بھی مختلف ہیں۔ہمارے مقصد کے لیے، جو کہ ہگزمیدان/بوزان کو سمجھنا ہے، صرف دو قوتیں، برقناطیسیت اور نحیف نیوکلیائی قوت، اہم ہیں۔

جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ برقناطیسیت ایک طویل حدودی قوت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو دو بار شدہ اجسام(جیسا کے دو برقیے)کے درمیان تب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے جب ان کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو۔اس لیے چِڑی (ضیائیوں) کو بے کمیت ہونا چاہیے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ برقناطیسیت طویل حدودی قوت ہے کیوں کہ اس کے قوت بردار ذرات( ضیایئے) بے کمیت ہیں۔ اب ہم نحیف نیوکلیائی قوت کو فرض کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ بہت کم فاصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے، مثال کے طور پر جوہری مرکزہ کے سائز تک، جو کہ 10-15 میٹر ہے۔چڑی کی تمثیل سے اب آپ اس پہیلی کا جواب دے سکتے ہیں کہ نحیف نیوکلیائی قوت اتنی قریب حدودی کیوں ہے؟جواب بالکل آسان ہے، اگر ہم چِڑ ی (قوت بردار ذرات) کو بہت زیادہ وزنی بنا دیتے ہیں تو وہ بہت کم فاصلہ طے کرے گی۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نحیف نیوکلیائی قوت کے قوت بردار ذرات “گیج بوزانز” وزنی ہیں اس لیے یہ قریب حدودی ہے۔یہ گیج بوزانز W+ اور W- کہلاتے ہیں جب کہ ± ان بوزانز کے اوپر برقی بار کو ظاہر کرتا ہے۔

ذراتی طبیعیات میں ایک بہت ہی اہم اصول ہائے تشاکل (گلوبل/گیج) (global/gauge symmetries)ہے۔ہائے تشاکل (گلوبل) عمومی طور پر بہت گنجلک ہے مگر اس کی توضیح آسان طریقے سے کرنے کے لیے ہم گردشی تشاکل (rotational symmetry) کی مثال لیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر ہم ایک کُرے (sphere)کو لیتے ہیں(جیسا کہ فٹ بال) اور اسے کسی بھی سمت میں گردش دیتے ہیں تو یہ بالکل ایسے ہی دکھے گا جیسا کہ گردش دینے سے پہلے تھا۔اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ کُرہ گردش کے تحت تشاکل پذیر یا تشاکلی(symmetric) ہے۔ذراتی طبیعیات کی زبان میں ہم اس کو یوں کہتے ہیں کہ یہ جسم(کُرہ) کچھ تحویلات(گردش) کے تحت غیر متغیر(invariant) ہے۔اگر ایک نظریہ کچھ تحویلات کے تحت غیر متغیر(تشاکل پذیر) ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اس نظریےکو تحول پذیر(transform) کیا جائے(جیسا کہ گردش دینا) تو یہ ہمیں بالکل وہی نتائج دے گا۔

اگر ہمارے پاس کسی نظریے میں گیج تشاکل موجود ہو تو ہمیں مطلوب یہ ہوتا ہے کہ یہ نظریہ کچھ خاص گیج تحویلات کے تحت گیج متغیر یا گیج تشاکلی(gauge symmetric) ہو۔یہ پتا چلا ہے کہ وہ تمام نظریات جن کے قوت بردار ذرات(gauge bosons) بے کمیت ہیں، کچھ خاص گیج تحویلات کے تحت گیج غیر متغیر(gauge invariant) ہوتے ہیں، جیسا کہ برقنا طیسیت۔جب کہ وہ نظریات جن کے قوت بردار ذرات وزنی ہوتے ہیں وہ گیج غیر متغیر نہیں ہوتے، جیسا کہ نحیف نیوکلیائی قوت۔یہ 1950 اور 1960 کے اوائل میں نظری طبیعیات دانوں کے لیے ایک بہت بڑی پہیلی رہی ہے کہ کیسے نحیف نظریے، جس کے ذرات گیج متغیر ہوتے ہیں، کو گیج غیر متغیر بنایا جائے۔

چونکہ وزنی گیج بوزانز والے نظریات گیج غیر متغیر نہیں ہوتے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ تشاکل ٹوٹ چکا ہے(symmetry is broken)۔اس وقت کے نظری طبیعیات دانوں خاص کر نامبو اور گولڈ سٹون نے گلوبل تشاکلی نظریات پر ٹوٹے تشاکل(broken symmetry) کا آزادانہ مطالعہ کیا (ایک گلوبل تشاکل کو گیج میدا ن کے تعارف سے گیج تشاکل کے مقام پر ترقی دی جا سکتی ہے)۔گولڈ سٹون نے ایک قضیے(theorem) کی بنیاد رکھی کہ اگر ایک گلوبل تشاکل یک لخت ٹوٹے تو ہمارے پاس بے کمیت عددیے(massless scalars) ہونے چاہیے (جن کی غزل (spin) صفر اور مکان میں کوئی خاص سمت نہیں ہوتی)۔ ایک سال بعد گولڈ سٹون، عبدالسلام اور وائن برگ نے گولڈ سٹون کے قضیے کو ثابت کیا کہ ٹوٹے تشاکل بے کمیت عددی ذرات کو جنم دیتے ہیں جو کہ گولڈ سٹون بوزانز کہلاتے ہیں۔ یہ اس وقت ایک بہت شاندار نتیجہ تھا۔لیکن ابھی بھی یہ اس مسلے کو حل نہیں کرتا کہ بے کمیت گیج بوزانز کو کمیت کیسے دی جائے۔

1964 میں اینگلرٹ اور براوٹ نے اپنا بہت اہم تحقیقی مقالہ لکھا، جس کو کچھ ہی ہفتے بعد ہگز نے بھی آزادانہ طور پر حاصل کیا۔اپنے ان مقالوں میں انہوں نے دکھایا کہ اگر تشاکل یک لخت ٹوٹتا ہے تو بے کمیت گیج بوزانز گولڈ سٹون بوزانز کو تناول فرما کر کمیت حاصل کر لیتے ہیں۔یہ بے کمیت گیج بو زانز کو کمیت دینے والے شاندار مسلے کو حل کرتا ہے۔تشاکل کے یک لخت ٹوٹنے کے تصور کو اب براوٹ-اینگلرٹ- ہگز میکانزم (BEH mechanism) یا پھر صرف ہگز میکانزم کہا جاتا ہے۔اینگلرٹ اور ہگز کو 2012 میں فزکس کے نوبل انعام سے نوازہ گیا (بدقسمتی سے براوٹ 2011 میں وفات پا گیا اور انعام میں اپنا حصہ حاصل نہ کر سکا)۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت اہم ہے کہ براوٹ، اینگلرٹ اور ہگز کے پیپر کے کچھ ہی ہفتے بعد امپیریل کالج میں موجود پروفیسرعبدالسلام کے گروپ (گُرالنک، ہیجن، کبل) نے بھی یہی نتائج آزادانہ طور پر حاصل کیے اور ان کا پیپر اپنے مضمرات میں زیادہ تفصیلی تھا۔ان کے اس شاندار کام کے اعتراف میں 2010 میں براوٹ، اینگلرٹ، ہگز، ہیجن، کبل اور گُرالنک کو امیریکن فزیکل سوسائٹی کی طرف سے جے جے سکورائی انعام برائے ذراتی نظری طبیعیات سے نوازا گیا۔

گیج بوزانز کو کمیت دینے والے ہگز میکانزم کا اجراع ہونے کے بعد 1967 میں عبدالسلام اور سٹیون وائن برگ نے آزادانہ طور پر ایک ایسا ماڈل پیش کیا جو نحیف نیوکلیائی قوت اور برقناطیسی قوت کو یکجا کرتا تھا۔سلا م نے اس نظریے کو نحیف برقی نظریے (electroweak theory) کا نام دیا۔جو کہ ا ب قوی نیوکلیائی قوت کی شمولیت کے بعد ذراتی طبیعیات کے میعاری نمونے (standard model)کے طور پر جانا جاتا ہے۔نحیف برقی نظریے میں سلام اور وائن برگ نے واضح طور پر ہگز میکانزم کو استعمال کرتے ہوے نحیف نیوکلیائی قوت کے قوت برداروں کی کمیتوں کا حساب لگایا، چونکہ یہ ایک قریب حدودی قوت ہے جب کہ برقناطیسی قوت کے قوت برداروں کو بے کمیت رکھا گیا کیوں کہ یہ ایک طویل حدودی قوت ہے۔ میعاری نمونے میں نہ صرف گیج بوزانز اپنی کمیت ہگز میکانزم کے ذریعے حاصل کرتے ہیں بلکہ دوسرے تمام وزنی ذرات جیسا کہ برقیے اور کوارکس اپنی کمیت ہگز میدان کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جو کہ سپیس میں برابر پھیلا ہوا ہے۔سلام-وائن برگ کا نظریہ( نحیف برقی نظریہ) ذراتی طبیعیات کے کامیاب ترین نظریات میں سے ایک ہے۔ ہگز میدان اور اس کے متعلقہ ہگز ذرے کے علاوہ اس کی بہت ساری اہم پیشین گوئیاں ہیں۔نظریے نے ایک نئی قسم کے قوت برداروں کی پیشین گوئی کی جس کی ضیائیے کی طرح کوئی بار نہیں لیکن W بوزانز کی طرح کمیت تھی۔ یہ Z بوزان کہلاتا ہے۔ 1970 کے اوائل میں ذرہ Z بوزان اور اس کا متعلقہ قوت بردار رو (force carrier current)سرن (CERN) میں دریافت کر لیا گیا۔نتیجتاً 1979 میں پاکستان کے عبدالسلام اور امریکہ کے سٹیون وائن برگ اور شیلڈن گلیشو کو فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

میعاری نمونے کا آخری گمشدہ ٹکرا،ہگز بوزان،بالاخر اپنی پیشین گوئی کے پچاس سال بعد 4 جولائی 2012 کو عظیم ثقیلہ تصادم گر (Large hadron collider) میں سرن کے مقام پر دریافت کر لیا گیا۔سرن فرانس اور سوٹزرلینڈ کی سرحد پر موجود 27 کلومیٹر لمبی ایک زیرِ زمین مشین ہے۔مشاہد شدہ ذرے کی خصوصیات کا جائزہ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے لیا اور یہ دیکھا گیا کہ اس کی خصوصیات بالکل ایسی ہی ہیں جس کی پیشین گوئی سلام۔وائن برگ نظریہ یا میعاری نمونہ کرتا ہے۔ہگز بوزان کی دریافت نظری طبیعیات کے لیے بہت بڑی جیت ہے اور اس کی دریافت کے ساتھ میعاری نمونہ اب مکمل ہو چکا ہے اور موجودہ دن تک سب سے کامیاب نظریہ ہے۔ ذراتی طبیعیات کے میعاری نمونے نے تقریباً طبیعیات میں 15 نوبل انعامات جیتے ہیں اور آخری انعام اس سال (2012 میں) میں اینگلرٹ اور ہگز کو BEH میکانزم (ہگز میکانزم) پر دیا گیا۔

بحث سمیٹتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عبدالسلام نے کائنات کے متعلق ہماری موجودہ فہم کو حاصل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔عبدالسلام گزشتہ صدی کا ایک عظیم سائنسدان ہی نہیں تھا بلکہ تیسری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیے ان کی خدمات کا کوئی ثانی نہیں ہے۔وہ سائنسی اکادمی برائے تیسری دینا(TWAS) اور عبدالسلام بین الاقوامی مرکز برائے نظری طبیعیات (ICTP)، جو کہ اٹلی کے شہر ٹریسٹے میں موجود ہے،کے بانی ہیں۔ عبدالسلام بین الاقوامی مرکز برائے نظری طبیعیات دنیا کے صفِ اول کے اداروں میں شامل ہے جہاں تیسری دنیا کے ممالک سے طالب علم اور سائنسدان طبیعیات میں ہونے والی جدید تحقیق سے فیض یاب ہونے آتے ہیں۔ہم اس مضمون کا خاتمہ عبدالسلام کے مندرجہ ذیل قول کیساتھ کرتے ہیں ” سائنسی سوچ تمام انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہے”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *