ہوا، سادھو کو ریزہ، ریزہ کر کے جگہ، جگہ بکھیرتی اور پھر اس شغل سے اکتا جاتی تو سادھو اپنے زروں کی ڈھیری سے خود کی پھر سے جوڑنے لگتا اور جب مکمل ہو جاتا تو ہوا اسے پھر سے بکھیر دیتی۔
محبت ہر روز پچھلا راستہ دہراتی اور اسے ہر روز فقط دو قدم آگے بڑھنے کا وقت مل پاتا۔ ایک روز کسی سیانے کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے محبت کو اس کشٹ میں دیکھا تو کہا کہ؛ "او بے وقوف۔۔۔۔ یہ جو ہر روز خود کو دہراتی ہو تو اس کا فائدہ؟ یہی وقت آگے بڑھنے میں گزارو تو چند دن لگیں منزل پر پہنچنے میں”
محبت نے سوچا کہ بھلا آدمی کہہ تو ٹھیک ہی رہا ہے۔ ویسے بھی مجھے اپنا گزرا ہوا وقت، راستہ، یادیں سب ہی تو یاد ہے پھر اس وقت کے زیاں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس نے مشورہ دینے والے کا شکریہ ادا کیا اور منزلیں مارتی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ وقت اور راستے گزرنے لگے اور پھر محبت کو بھول گیا کہ اصل میں اسے پہنچنا کہاں تھا۔ جب بہت سوچنے پر بھی یاد نہ آیا تو اس نے کسی سیانے سے اپنی راہ درست کروانے کا سوچا۔
محبت نے سوچا کہ بھلا آدمی کہہ تو ٹھیک ہی رہا ہے۔ ویسے بھی مجھے اپنا گزرا ہوا وقت، راستہ، یادیں سب ہی تو یاد ہے پھر اس وقت کے زیاں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس نے مشورہ دینے والے کا شکریہ ادا کیا اور منزلیں مارتی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ وقت اور راستے گزرنے لگے اور پھر محبت کو بھول گیا کہ اصل میں اسے پہنچنا کہاں تھا۔ جب بہت سوچنے پر بھی یاد نہ آیا تو اس نے کسی سیانے سے اپنی راہ درست کروانے کا سوچا۔
ان وقتوں میں سیانے راہ چلتے مل جایا کرتے تھے سو اسے بھی کہیں سے ایک سیانے کا ٹھکانہ معلوم ہو ہی گیا جو یُگوں سے گمشدہ تھا۔ اسے سادھو کا پتہ تو آسانی سے مل گیا تھا مگر سادھو کو مجسم حالت میں جا لینے کو زمانے لگ گئے۔ وہ راکھ کا بنا تھا اور کسی بھی لمحے ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا۔ ہوا، سادھو کو ریزہ، ریزہ کر کے جگہ، جگہ بکھیرتی اور پھر اس شغل سے اکتا جاتی تو سادھو اپنے زروں کی ڈھیری سے خود کی پھر سے جوڑنے لگتا اور جب مکمل ہو جاتا تو ہوا اسے پھر سے بکھیر دیتی۔ مگر اس نے اپنے دفاع میں کبھی ایک لفظ تک بولنا نہ چاہا اور راکھ سے دھول ہوتا چلا گیا۔
محبت، مدتوں ہوا اور راکھ کی اس آنکھ مچولی کے بیچ سادھو سے اپنا دکھ کہنے کی کوشش میں لگی رہی۔ اتنا وقت گزر گیا کہ لوگ انھیں ایک دوسرے سے الگ سمجھنا بھول گئے
جب ہوا، راکھ اور محبت کا اپنا، اپنا وجود خطرہ میں پڑنے لگا توایک روز محبت نے ہمت کی اور ہوا سے آنکھ بچا کرسادھو کی راکھ سمیٹی اور اسے ایک غار میں جا ڈھیر کیا۔ اور جب سادھو خود کو سمیٹ چکا تو محبت نے بڑے ادب سے پوچھا کہ : اے سیانے میں محبت ہوں اور تجھ سے مشورہ کرنے آئی ہوں، سادھو نے محبت پر طنز کی ایک نگاہ کی اور کہنے لگا؛ تو نے جس سے صلاح کی اور جو تیری صلاحوں میں آیا، اس کی عقل مندی میں کس کو کلام ہو سکتا ہے؟ محبت سادھو کی اس بے لحاظی پر بہت دکھی ہوئی۔ تو اب جو میں کھو گئی ہوں تو خود کو کہاں اور کیسے ڈھونڈوں؟؟؟ اس پہ سادھو بے اختیار ہو کے ہنسا اور جب اسے احساس ہوا کہ وہ ہنس رہا ہے تو دکھ سے رو دیا۔ محبت نے حیران ہو کر پوچھا کہ اے مہا پرش یہ ایک ساتھ ہنسنے اور رونے کا کیا سبب ہے؟
سادھو کہنے لگا؛ اے محبت تمہارا کام منزلیں مارنا نہ تھا کہ تم جہاں گرد نہیں ہو، ٹھہر جانا بھی نہیں کہ جمود صرف موت کا خاصہ ہے۔۔۔ اور میں ہنسا اس ستم ظریفی پر کہ تم کھو نہ جاتی تو آج میں جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھاننے والا جوگی نہ ہوتا اور رویا تمہارے گم ہونے پر کہ محبت ایک بار کھو جائے تو اسے ڈھونڈ لانا ناممکن ہے۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر سادھو غار سے نکلا اور ہوا اس کی دھول اڑا لے گئی اور پھر کبھی کسی نے اسے ٹوٹتے بنتے نہ دیکھا۔
تبھی محبت کو یاد آیا کہ ایک بار ایک سیانے نے اسے خود کو دہرانے سے روکا تھا اور تب سے وہ اپنا آپ بھول گئی ہے۔ اس دن محبت نے سوچا کہ وہ بے وقوف ہی ٹھیک ہے اور ہر سیانے سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اب وہ کسی کی نہیں سنتی اور اگر سن بھی لے تو مانتی بالکل نہیں۔
تبھی محبت کو یاد آیا کہ ایک بار ایک سیانے نے اسے خود کو دہرانے سے روکا تھا اور تب سے وہ اپنا آپ بھول گئی ہے۔ اس دن محبت نے سوچا کہ وہ بے وقوف ہی ٹھیک ہے اور ہر سیانے سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اب وہ کسی کی نہیں سنتی اور اگر سن بھی لے تو مانتی بالکل نہیں۔
Image: Agostino Arrivabene
اے محبت تمہارا کام منزلیں مارنا نہ تھا کہ تم جہاں گرد نہیں ہو، ٹھہر جانا بھی نہیں کہ جمود صرف موت کا خاصہ ہے۔۔۔ اور میں ہنسا اس ستم ظریفی پر کہ تم کھو نہ جاتی تو آج میں جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھاننے والا جوگی نہ ہوتا اور رویا تمہارے گم ہونے پر کہ محبت ایک بار کھو جائے تو اسے ڈھونڈ لانا ناممکن ہے۔ ۔ ۔
محبت کی اس سے بہتر صورت گری کم ہی ملتی ہے۔
رلا دیا ہے جناب آپ نے۔