ہم ممتاز قادری کو دین کا سپوت کہتے ہیں، قاتلوں کو عاشق رسولﷺ کا خطاب دیتے ہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے حق میں جلسے، جلوس اور ریلیاں بھی نکالتے ہیں اور اگر ہماری رائے سے کوئی اختلاف کرتا ہے تو اسے دین دشمن اور توہین رسالتﷺ کا مرتکب قرار دے کر اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیتے ہیں۔ ہم جنہیں عاشقان رسول ﷺ قرار دیتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے غیض و غضب سے کوئی محفوظ نہیں، جن کی زبانیں بہتان تراش ہیں اور جن کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہیں ۔ ہم نے ہر برس کی طرح اس بار بھی جشنِ ولادتِ رسولﷺ کی خوشی میں میلاد پڑھے، تقریریں کیں، نعرے لگائے، لنگر تناول فرمائے مگر نبی رحمت ﷺکے حلم، بردباری اور صبر کو اپنانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔جشن ولادت رسول ﷺ کی شام لبرٹی گول چکر پر سلمان تاثیر کی چوتھی برسی کے موقع پر جو لوگ جمع تھے ان پر حملہ آور لوگوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ کے نبی ﷺانتقام لینے کی بجائے معاف کرنا پسند کرتے تھے، وہ قاتلوں نہیں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے والے تھے اور اگر نہتے مظاہرین پر حملہ آور ہونے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح انہوں نے سچا عاشقِ رسول ﷺ ہونے کا ثبوت دیا ہے تو ان سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اب اس دیس میں حق کے لیے آواز اٹھانا ناممکن ہو چکا ہے اور محض طاقتور ہی اپنا تحفظ کر سکتے ہیں ۔ دھرنا دینے والے اور ملکی معیشت اور املاک کو نقصان پہنچانے والےچار ماہ تک دھمکاتے رہے کہ اگر کسی پولیس والے نے ان کے کسی کارکن کو ہاتھ بھی لگایا تو اسے الٹا لٹکا دیا جائے گا لیکن سانحہ پشاور کےتناظر میں پشاور مٰیں ایک پرامن ریلی کا انعقاد کرنے والے خواتین و حضرات کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے رہنما یہی درس دیں گے تو پھر عام لوگوں کا متشدد ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمیں یہی درس دیا جاتا ہے کہ آپ عقلِ کل ہیں اور جو بھی آپ سے اختلاف کرے وہ آپ کا مخالف ہے اور آپ کو چاہیے کہ آپ اسے منہ توڑ جواب دیں۔ ہم نے یہی سیکھا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال ہمارا حق ہے کیوں کہ حکقمت ہمیں تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔
یوں لگتا ہے کہ اب اس دیس میں حق کے لیے آواز اٹھانا ناممکن ہو چکا ہے اور محض طاقتور ہی اپنا تحفظ کر سکتے ہیں ۔ دھرنا دینے والے اور ملکی معیشت اور املاک کو نقصان پہنچانے والےچار ماہ تک دھمکاتے رہے کہ اگر کسی پولیس والے نے ان کے کسی کارکن کو ہاتھ بھی لگایا تو اسے الٹا لٹکا دیا جائے گا لیکن سانحہ پشاور کےتناظر میں پشاور مٰیں ایک پرامن ریلی کا انعقاد کرنے والے خواتین و حضرات کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے رہنما یہی درس دیں گے تو پھر عام لوگوں کا متشدد ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمیں یہی درس دیا جاتا ہے کہ آپ عقلِ کل ہیں اور جو بھی آپ سے اختلاف کرے وہ آپ کا مخالف ہے اور آپ کو چاہیے کہ آپ اسے منہ توڑ جواب دیں۔ ہم نے یہی سیکھا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال ہمارا حق ہے کیوں کہ حکقمت ہمیں تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔
اور اگر نہتے مظاہرین پر حملہ آور ہونے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح انہوں نے سچا عاشقِ رسول ﷺ ہونے کا ثبوت دیا ہے تو ان سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں۔
دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی بے بسی مولوی عبدالعزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے اوران کی جانب سے کھلے بندوں یہ کہنا کہ نہ وہ اس وارنٹ کو چیلنج کریں گے اور نہ ہی گرفتاری دیں گے، سے ہی ظاہر ہے۔ حکومت اپنی تمام تر مشینری کے باوجود اس قابل نہیں کہ انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرسکے۔ وزیراعظم صاحب قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص یا گروہ کو لسانی مذہبی یا علاقائی منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس سے سختی سے نمٹا جائے گا لیکن دوسرے ہی روز عامر لیاقت ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر مذہبی منافرت کو ہوا دیتا ہے اور کسی سرکاری ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ اس شخص کے خلاف کاروائی کی جائے۔ہماری حکومت کے پاس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے محض ڈبل سواری پر پابندی لگانے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے جیسے اقدمات کے سوا نہ تو کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی اتنی اہلیت کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف موثر کاروائی کر سکے۔
Catoon by: Sabir Nazar
Leave a Reply