پاکستان میں آج تک کبھی کوئی تحقیق، کوئی تفتیش اور کوئی "فوری کارروائی” اپنے انجام کونہیں پہنچی، یہ کوئی کبھی نہیں جان سکا کہ کوئی بھی حادثہ یا سانحہ اگر ہوا ہے تو کیوں، اس کے محرکات کیا ہیں، اس سے کس کو فائدہ پہنچا ہے اورکس کونقصان؟ لیکن ہر سانحے پر بےمعنی شور ہر کوئی ہر طرف مچاتا ہے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس واقعے یا حادثے کی آگ پر اپنی روٹیاں تب تک پکاتے ہیں جب تک ایک نیا واقعہ یا ایک نیا حادثہ جنم نہیں لےلیتا ۔ بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری میں آگ کالگنا اور پھر اس آگ کی جانچ کے لیے بنائے جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو بھی ایسے واقعات میں سے ایک حالیہ مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ جے آئی ٹی کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والے مندرجات اس واقعہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے فورا بعدتحریک انصاف اور متحدہ کے درمیان بیان بازیوں اور معافیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
الطاف حسین کے بیانات اور ان کے جواب میں تحریک انصاف اور عمران خان کی زبان اور جملے استعمال کسی طرح شریفانہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ متحدہ نے عمران خان صاحب کی باتوں پر جو ردعمل دکھایا اورجس طرح کراچی میں ریلی نکالی وہ عمران خان صاحب کیلئے ڈھکی چھپی دھمکی کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی اور جے آئی ٹی والوں کیلئے بھی ایک پیغام تھی۔ اِس سب ہنگامےکےبعدالطاف حسین صاحب نےمعافی مانگی اورعمران خان نےمعاف کردیا اورحالات ایسے ہو گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگراس مک مکامیں ڈھائی سو گھروں کے چراغ گُل ہونے کی جے۔آئی۔ٹی رپورٹ سرد خانے میں چلی گئی۔ اس سے پہلے تو اڑھائی سو سے زائد افراد کے اہل خانہ کو یہ تسلی تھی کہ یہ حادثاتی موت ہے مگر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کے پیاروں کو قتل کیا گیا ہے وہ ہر روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔ نہ انہیں وعدے کے مطابق معاوضہ دیا گیا اور نہ ہی نہ ان کے بچوں کو نوکری وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟
گزشتہ ساٹھ سال میں ہم ایک موثر نظام ہی تخلیق نہیں کر پائے،ہم قومی حیثیت میں ناکام ہیں ۔ ہم شعوری طور پر فالج زدہ معلوم ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے بھی اپنی عمران خان کے خلاف ریلی میں سٹیج پر جلی حروف میں بینر لکھا تھا کہ "ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے”۔ میرا ایک سوال ہے کہ آپ جن کے حق میں ریلی نکال رہے ہیں اگر وہ رہنما ہیں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ؛یا تو رہنما کی مانی نہیں جاتی یا رہنما خود ہدایت یافتہ نہیں ہے کیونکہ رہنما ایک بار غلطی کرتا ہے اور سبق سیکھتا ہے ، بار بار غلطی کر کے معافی مانگنے والے کو خود رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے رہنما کی فہم و فراست میں کہیں کوئی جھول ہے اور یہ سب اسی لیے ہے کہ ہم لوگوں کو منزل کی تلاش ہی نہیں بلکہ ہمیں تو یہ بھی ادراک نہیں کہ ہمیں منزل چاہیے بھی تھی یا نہیں، ہم ابھی تک رہنما کے منتظر ہیں۔
الطاف حسین کے بیانات اور ان کے جواب میں تحریک انصاف اور عمران خان کی زبان اور جملے استعمال کسی طرح شریفانہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ متحدہ نے عمران خان صاحب کی باتوں پر جو ردعمل دکھایا اورجس طرح کراچی میں ریلی نکالی وہ عمران خان صاحب کیلئے ڈھکی چھپی دھمکی کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی اور جے آئی ٹی والوں کیلئے بھی ایک پیغام تھی۔ اِس سب ہنگامےکےبعدالطاف حسین صاحب نےمعافی مانگی اورعمران خان نےمعاف کردیا اورحالات ایسے ہو گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگراس مک مکامیں ڈھائی سو گھروں کے چراغ گُل ہونے کی جے۔آئی۔ٹی رپورٹ سرد خانے میں چلی گئی۔ اس سے پہلے تو اڑھائی سو سے زائد افراد کے اہل خانہ کو یہ تسلی تھی کہ یہ حادثاتی موت ہے مگر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کے پیاروں کو قتل کیا گیا ہے وہ ہر روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔ نہ انہیں وعدے کے مطابق معاوضہ دیا گیا اور نہ ہی نہ ان کے بچوں کو نوکری وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟
گزشتہ ساٹھ سال میں ہم ایک موثر نظام ہی تخلیق نہیں کر پائے،ہم قومی حیثیت میں ناکام ہیں ۔ ہم شعوری طور پر فالج زدہ معلوم ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے بھی اپنی عمران خان کے خلاف ریلی میں سٹیج پر جلی حروف میں بینر لکھا تھا کہ "ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے”۔ میرا ایک سوال ہے کہ آپ جن کے حق میں ریلی نکال رہے ہیں اگر وہ رہنما ہیں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ؛یا تو رہنما کی مانی نہیں جاتی یا رہنما خود ہدایت یافتہ نہیں ہے کیونکہ رہنما ایک بار غلطی کرتا ہے اور سبق سیکھتا ہے ، بار بار غلطی کر کے معافی مانگنے والے کو خود رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے رہنما کی فہم و فراست میں کہیں کوئی جھول ہے اور یہ سب اسی لیے ہے کہ ہم لوگوں کو منزل کی تلاش ہی نہیں بلکہ ہمیں تو یہ بھی ادراک نہیں کہ ہمیں منزل چاہیے بھی تھی یا نہیں، ہم ابھی تک رہنما کے منتظر ہیں۔
ہمارے رہنما برسوں پہلے 1989میں چنیوٹ میں لوہے او ر تانبے، سونا، چاندی کے ذخائر کے لیے شروع کیے گئے جیولوجیکل سروے کو آج کی دریافت بتا کر قوم کو خوش فہمی میں مبتلا کیے جا رہے ہیں۔
ہمارے رہنما برسوں پہلے 1989میں چنیوٹ میں لوہے او ر تانبے، سونا، چاندی کے ذخائر کے لیے شروع کیے گئے جیولوجیکل سروے کو آج کی دریافت بتا کر قوم کو خوش فہمی میں مبتلا کیے جا رہے ہیں۔ جس بات کا زمانے کو 2003میں پتہ چل چکا تھا اسے ہمارے رہنما آج کی خبراس لیے بتا رہے ہیں کیوں کہ وہ ان رکاوٹوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتے جن کی وجہ سے یہ منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکاتھا۔ کیا ایسا نہیں کہ "پنجاب” کے رہنما چھوٹے صوبوں کے وسائل کا استحصال کرتے رہے ہیں اور "سندھ "کے حکمرانوں کوپنجاب کے وسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ موجود مسلم لیگ نواز کی حکومت عوام کو اس امر سے بے خبر رکھنا چاہتی ہے کہ اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ وہ مقدمات ہیں جو پرویز الٰہی دور میں ٹینڈر کے ذریعے ٹھیکہ حاصل کرنے والی فرم نے دائر کر رکھے تھے۔رجوعہ سے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے حسن مرتضیٰ پنجاب اسمبلی میں کام کی سست روی کے خلاف پنجاب اسمبلی میں آواز بھی اٹھائی لیکن وفاق اور صوبے میں ن لیگ کی حکومت ہونے کے باعث شنوائی نہیں ہوئی۔ موجودہ قیادت کا رویہ معدنی وسائل، بندرگاہوں حتیٰ کہ امن و سلامتی کی جانب بھی اسی قدر غیر ذمہ دارانہ ہیں، قومی اہمیت کے حامل منصوبے حکام کی نااہلی کی نظر ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام متبادل قیادت کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔
Cartoon by :Sabir Nazar
Leave a Reply