ڈاکٹر شہاب الدین قریش 2010 سے 2012 تک بھارتی الیکشن کمیشن کے سربراہ رہے ہیں، آپ بھارتی انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری سے متعلق ایک کتاب An undocumented wonder کے مصنف بھی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے بلاوے پر قریشی صاحب کی پاکستان آمد اور قیام کے دوران ان سے ہونے والی گفتگو کا احوال قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔
[/blockquote]
بھارت کے سابق الیکشن کمیشنر ڈاکٹر شہاب الدین قریشی کے مطابق بھارت میں چوراسی کروڑ ووٹر حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں اور ان کے انتخابی عملے کی تعداد دس لاکھ ہے۔رقبہ، آبادی، مسائل اور وسائل کے تناظر میں بھارتی الیکشن کمشن کی کارکردگی پوری دنیا کے لیے ایک مثا ل ہے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ بھارتی ریاست کیرالہ میں ڈیم تعمیر ہو رہا تھا، اسی دوران ریاستی انتخاب کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا، ہزاروں مزدور ڈیم کی تعمیر میں مصروف تھے، انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے لیے الیکشن کمشن نے ڈیم سائٹ پر ہی پولنگ سٹیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تا کہ مزدور ووٹرز کو دقت سے بچایا جا سکے۔ جیسے ہی پولنگ تاریخ قریب پہنچی، معلوم ہوا کہ ڈیم تعمیر ہو چکا ہے اور مزدور وہاں سے جا چکے ہیں، مزید تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ڈیم سائٹ پرصرف ایک ہی مزدور باقی ہے ، الیکشن عملہ جس کی تعداد درجن بھر تھی، ڈیم پر پہنچا، پولنگ سٹیشن قائم کیا گیا، اکلوتے ووٹر نے ووٹ کاسٹ کیا، چونکہ اس مقام سے ووٹ ایک ہی تھا لہذا پولنگ عملہ چاہتا تو چھٹی کر سکتا تھا، لیکن پورا عملہ مقررہ وقت تک وہاں ڈیرے جمائے بیٹھا رہا مبادا کوئی اور شخص آکر دعوی نہ کر دے کہ یہاں کا اکلوتا ووٹر تو میں ہوں۔
بھارت میں ذات پات یا دھرم کے نام پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا، یہی نہیں بلکہ کسی بھی عبادت گاہ کو انتخابی مہم یا ووٹ کے حصول کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے۔
کسی بھی ملک میں جمہوریت اور جمہور تبھی مضبوط ہو سکتے ہیں جب وہاں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔ دہلی کے حالیہ انتخابات میں پورے بھارت پر راج کرنے والی مودی سرکار کی بھارتیہ جنتا پارٹی ، عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین شکست سے دو چار ہوئی۔ اس شکست پر بی جے پی اور کانگریس سمیت کسی بھی پارٹی نے ‘دھاندلی’ کا رونا نہیں رویاجو کامیاب اور موثر بھارتی انتخابی نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قریشی صاحب نے مزید بتایا کہ بھارت میں ذات پات یا دھرم کے نام پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا، یہی نہیں بلکہ کسی بھی عبادت گاہ کو انتخابی مہم یا ووٹ کے حصول کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے۔ حساس انتخابی حلقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مقامی صورت حال کی روشنی میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔
پاکستانی نظام کے برعکس بھارت میں انتخابی نتائج ووٹنگ سے تین یا چار روز بعد مرتب کیے جاتے ہیں۔ خاکسار کے استفسار پر کہ اس امر میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ ڈاکٹر قریشی نے دلچسپ وجوہ بیان کیں، کہنے لگے کہ نتائج کے اعلان میں تین سے چار روز کی تاخیر دوبارہ ووٹ ڈالنے (Re-polling) کے امکان کے تحت کی جاتی ہے۔ بھارتی انتخابی قوانین کے تحت کسی فریق کی جانب سے انتخابی عمل پر اعتراض اور الیکشن کمیشن کی طرف سے اس اعتراض کے جائز تصور کیے جانے کی صورت میں ،انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل تین سے چار روز میں دوبارہ ووٹنگ کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے،بعض حلقوں میں دوبارہ ووٹ ڈالے جانے کے بعد بھی ری پولنگ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ٹریبونلز اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکایا جاتا ہے لیکن بھارتی الیکشن کمیشن انتخابی عذرداریاں فی الفور نمٹا دیتا ہےجس کی انتہائی شکل ری پولنگ ہے۔ پاکستان میں 2013 کے انتخاب کے بعد سینکڑوں پٹیشنز دائر کی گئیں، ہمسایوں کے ہاں بااختیار الیکشن کمیشن کے زیرانتظام موثر انتخابی نظام کے باعث انتخابی گہما گہمی میں پٹیشن کا لفظ قدرے اجنبی ہے۔بھارتی آئین کی "چھتر چھایا” تلے بااختیار الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں انتخابات کے دوران عدلیہ کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں۔
پاکستانی نظام کے برعکس بھارت میں انتخابی نتائج ووٹنگ سے تین یا چار روز بعد مرتب کیے جاتے ہیں۔ خاکسار کے استفسار پر کہ اس امر میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ ڈاکٹر قریشی نے دلچسپ وجوہ بیان کیں، کہنے لگے کہ نتائج کے اعلان میں تین سے چار روز کی تاخیر دوبارہ ووٹ ڈالنے (Re-polling) کے امکان کے تحت کی جاتی ہے۔ بھارتی انتخابی قوانین کے تحت کسی فریق کی جانب سے انتخابی عمل پر اعتراض اور الیکشن کمیشن کی طرف سے اس اعتراض کے جائز تصور کیے جانے کی صورت میں ،انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل تین سے چار روز میں دوبارہ ووٹنگ کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے،بعض حلقوں میں دوبارہ ووٹ ڈالے جانے کے بعد بھی ری پولنگ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ٹریبونلز اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکایا جاتا ہے لیکن بھارتی الیکشن کمیشن انتخابی عذرداریاں فی الفور نمٹا دیتا ہےجس کی انتہائی شکل ری پولنگ ہے۔ پاکستان میں 2013 کے انتخاب کے بعد سینکڑوں پٹیشنز دائر کی گئیں، ہمسایوں کے ہاں بااختیار الیکشن کمیشن کے زیرانتظام موثر انتخابی نظام کے باعث انتخابی گہما گہمی میں پٹیشن کا لفظ قدرے اجنبی ہے۔بھارتی آئین کی "چھتر چھایا” تلے بااختیار الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں انتخابات کے دوران عدلیہ کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان تقریبا دو سال تک بغیر ارکان کے کام کرتا رہا، اس عرصے کے دوران چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کرائے گئے ضمنی انتخابات کی قانونی حیثیت پر عدالتوں میں اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔
پاکستان میں الیکڑانک ووٹنگ مشین کا چرچا یہی کوئی سال دو سال سے سننے کو مل رہا ہےجبکہ بھارت میں یہ نظام1998 میں پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا۔ الیکڑانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی کا خاطر خواہ تدارک کیا جا سکتا ہے، بھارت میں دھاندلی کے امکان کو کم کرنے کے لیے ایک ووٹ ڈالے جانے کے بعد ووٹنگ مشین اگلے بارہ سیکنڈز کے لیے غیر فعال ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں پولنگ سٹیشن پر دھاوا بول کر عملہ یرغمال بنا نے اور سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے ایک گھنٹے میں ہزارو ں جعلی ووٹ کاسٹ کیے جاتے رہے ہیں۔ بعض حلقوں میں حکومتی ایم این اے یا ایم پی اے کے مقامی پولیس سے مل کر دھاندلی کےواقعات عام ہیں لیکن بھارت میں ریاستی پولیس کی جانبداری سے بچنے کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن سنٹرل پولیس کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ فعال اور موثر انتخابی نظام کے باوجود بھارتی الیکشن کمیشن کو بعض مسائل کا بھی سامنا ہے جیسے تیسری جنس کے ووٹ دالنے کا معاملہ۔ہندوستانی الیکشن کمیشن نے بغیر کسی لیت و لعل کےتیسری جنس کے خانے کا اٖضافہ کر دیا جس سے بھارتی رائے دہندگان کی تعداد میں دس سے پندرہ لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا۔
ایک عظیم جمہوریہ کا ہمسایہ ہونے کے باوجودپاکستان میں انتخابی شفافیت کا سفر تاحال شروع نہیں کیا جاسکا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان تقریبا دو سال تک بغیر ارکان کے کام کرتا رہا، اس عرصے کے دوران چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کرائے گئے ضمنی انتخابات کی قانونی حیثیت پر عدالتوں میں اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔ آئین کے آرٹیکل 218(3) میں الیکشن کمشن آف پاکستان کو ایسے ضروری اقدامات کا پابندبنایا گیا ہے جو اس بات کو یقنی بنائیں کہ ‘انتخاب ایمانداری’ حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہو اور یہ کہ بد عنوانیوں کا سدباب ہوسکے” لیکن اس بنیادی نقطے پر کس حد تک عمل درآمد ہوا؟ جواب کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم آج بھی ‘چار’ حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک عظیم جمہوریہ کا ہمسایہ ہونے کے باوجودپاکستان میں انتخابی شفافیت کا سفر تاحال شروع نہیں کیا جاسکا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان تقریبا دو سال تک بغیر ارکان کے کام کرتا رہا، اس عرصے کے دوران چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کرائے گئے ضمنی انتخابات کی قانونی حیثیت پر عدالتوں میں اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔ آئین کے آرٹیکل 218(3) میں الیکشن کمشن آف پاکستان کو ایسے ضروری اقدامات کا پابندبنایا گیا ہے جو اس بات کو یقنی بنائیں کہ ‘انتخاب ایمانداری’ حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہو اور یہ کہ بد عنوانیوں کا سدباب ہوسکے” لیکن اس بنیادی نقطے پر کس حد تک عمل درآمد ہوا؟ جواب کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم آج بھی ‘چار’ حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اب تک دنیا بھر کے باون ممالک بھارتی الیکشن کمیشن کے تجربے سے مستفید ہو چکےہیں، بھارت ان ممالک کے انتخابی نظام کے عملے کو فری تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔
بھارت کے برعکس ہمارے ہاں حالیہ انتخاب میں کچھ پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج اور بیلٹ پیپرز کی تعداد بھی فراہم نہ کی گئی، نتائج فارم چودہ اور پندرہ کی بجائے سادے کاغذ پر دیے گئے جن پر پریذائڈنگ افسروں کے دستخط اور نشانِ انگوٹھا بھی موجود نہ تھے۔ الیکشن کمیشن نے تاحال فارم چودہ اپنی ویب سائٹ پر نہیں دیا، حالاں کہ ایسا کرنے سے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات میں کمی واقع ہوتی۔ آخری لمحات میں پولنگ سٹیشنوں اور پولنگ کے عملے کی تبدیلیاں الیکشن کمشن کے نوے فیصد کامیابی کے دعوے سے متضاد نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ1951 سے2013کے انتخابات تک پاکستان میں انتخابی عمل میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی۔اگرچہ وقتا فوقتا انتخابی اصلاحات ہوتی رہی ہیں تاہم انتخابی نتائج کے ضمن میں الیکشن کمشن آف پاکستان کے کردار پر ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ہمارے ہمسایوں کے ہاں الیکشن کمیشن کی فعالیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک دنیا بھر کے باون ممالک بھارتی الیکشن کمیشن کے تجربے سے مستفید ہو چکےہیں، بھارت ان ممالک کے انتخابی نظام کے عملے کو فری تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ ہمسائی کا منہ لال دیکھ کر ہم اپنا منہ تھپڑوں سے لال کرنے سے تو رہے لیکن ان سے کچھ سیکھ ضرور سکتے ہیں۔
ہمارے ہمسایوں کے ہاں الیکشن کمیشن کی فعالیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک دنیا بھر کے باون ممالک بھارتی الیکشن کمیشن کے تجربے سے مستفید ہو چکےہیں، بھارت ان ممالک کے انتخابی نظام کے عملے کو فری تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ ہمسائی کا منہ لال دیکھ کر ہم اپنا منہ تھپڑوں سے لال کرنے سے تو رہے لیکن ان سے کچھ سیکھ ضرور سکتے ہیں۔
Great article jami sahib