میں اپنے ابا کو دفنانے کے بعد سے اکثر سوچتا ہوں کہ میری نسل کا بڑھاپا کیسا ہو گا؟ اس نسل کا جو ٹیکنالوجی سے گریزاں نسلوں کی وہ اولادیں ہیں جنہوں نے خوشی خوشی یا باامر مجبوری برقی آلات کو بچپن میں ہی ہم جولی بنالیا تھا۔ میرے چچا کا گھر وہ پہلا گھر تھا جس نے گاوں سے نکل کر پہلے ریڈیو، پھر ٹی وی، پھر فون، کمپیوٹر اور پھر موبائل خریدا۔ کیبل لگوائی اور پھر انٹرنیٹ بھی۔ اور اسی گھر میں میں نے اور میرے عم زادوں نے وی سی آر پر گبر سنگھ کو ہارتے بھی دیکھا ہے اور شاہ رخ خان کو سی ڈی پلیئر پر دلہنیا لے جاتے بھی۔ ہم نے جورے بھٹی اور باسو کمہار کو بھی دیکھا اورنجی سناری سے پہلے پہلے عشق بھی لڑائے۔ ہم نے سانپ والی اولین موبائل گیم کا اختتام بھی کیا اور سٹریٹ فائٹر کے سب فارمولے بھی ازبر کیے۔ لیکن اس سب کے باوجود میرا بڑھاپا میرے باپ کے بڑھاپے سے کس قدر مختلف ہو گا؟
مجھے نہیں پتہ کہ اگلے دس، بیس، تیس اور شاید چالیس سال کے بعد میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمارا بڑھاپا کس قسم کا ہوں گا۔ کیا میرے لیے ورچوئل ریلیٹی، مریخ پر زندگی، مصنوعی ذہانت، خود کار کاریں اور چلتے پھرتے روبوٹ اتنے ہی اجنبی ہوں گے جس قدر میرے ابا کے لیے ٹچ سکرین موبائل اور انٹرنیٹ تھے؟
فلاپی سے 128 جی بی کی فلیش ڈرائیو کا سفر میرے لڑکپن سے جوانی تک کی مختصر سی کہانی ہے اور پی ون Compaq سے آئی فائیو ایچ پی تک کتنی ہی پائیریٹڈ ونڈوز میں نے اپنے ہاتھوں سے کی اور برباد کی ہیں۔ پاک نیٹ سکریچ کارڈ کی کھسی سپیڈ پر سلیزی ڈریم اور دیسی بابا ڈاٹ کام سے لے کر پی ٹی سی ایل ان لمیٹڈ پیکج پر پورن ہب پر ایچ ڈی میں میا خلیفہ تک میری جوانی کی تنہائیاں رنگین ہیں۔ 25 روپے والی کیسٹ سے 25 روپے کی ایم پی تھری سی ڈی تک کا عرصہ ہمارے لیے محض ایک میڈیم سے دوسرے میڈیم تک جانے کا معاملہ تھا جو شاید ایک دکان چھوڑ کر دوسی دکان سے ٹافیاں خریدنے جتنا ہی آسان تھا لیکن میرے ابا کی نسل کے لیے نورجہاں کی کیسٹ سے مفت ڈاون لوڈ کردہ ایم پی تھری تک جانے کا معاملہ ایک سیارہ چھوڑ کر دوسرے سیارے پر رہائش رکھنے جیسا تھا۔ ٹیکنالوجی سے ناواقفیت پر شرمندگی کے تمام مراحل میں نے اپنے لڑکپن میں ہی طے کر لیے تھے جو اباجی پانچ برس میں بھی طے نہ کر سکے۔ ونڈو 95 سے ونڈو ٹین تک کی سیڑھیاں میں نے جست لگا کر طے کر لیں لیکن میرے ابا کے لیے کمپیوٹر آخری عمر تک ٹائپ رائٹر اور ٹی وی سے مشابہ ہی رہا۔
لیکن اس سب کے باوجود۔۔۔۔۔ ہمارا بڑھاپا کیسا ہو گا؟ میں نے اپنے باپ کو بوڑھے ہوتے دیکھا ہے اور اس کا بڑھاپا اس ٹیکنالوجی سے گریز کا بڑھاپا تھا، وہ آخری عمر تک بھی موبائل پر کال ریسیو کرنے سے گھبراتے تھے، اخبار پڑھتے تھے اور پی ٹی وی پر خبرنامہ دیکھ کر سو جاتے تھے۔ انہوں نے پہلے ریڈیو اور پھر اپنی آخری عمر میں کس مشکل کے ساتھ ٹی وی کو قبول کیا یہ اپنی جگہ ایک اہم تاریخی واقعہ ہے مگر بٹن اور مشین کے مابین بغیر تار کا تعلق ان کے شعور کا حصہ نہیں بن سکا۔ وہ چینل بدلنے سے پہلے ریموٹ پر مطلوبہ بٹن ڈھونڈنے کے بعد بھی کئی بار دبانے سے پہلے سوچتے تھے اور دبانے کے بعد بھی انہیں اکثر یقین نہیں ہوتا تھا کہ آیا درست بٹن دبایا ہے یا نہیں۔
پھر بھی انہیں دفنانے کے بعد مجھے بار بار یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا بڑھاپا کیسا ہو گا۔ گو ہماری نسل ٹیکنالوجی سے گریزاں نہیں بلکہ نت نئی ٹیکنالوجی اور آلات کی رسیا ہے۔ ہمارے لیے شاید اب کسی بھی نئی تکنیک میں حیرت کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ ہم اب کسی بھی بٹن کو دبانے سے پہلے ڈرتے نہیں، ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس بٹن کو دباتے ہی مطلوبہ نتائج مل جائیں گے۔ ہمیں بٹن سے ٹچ سکرین پر آنے میں چند دن لگے لیکن میرے ابا کے لیے تار والے ٹیلی فون سے بغیر تار والے موبائل تک پہنچنے کا واقعہ اتنا سہل اور معمولی نہیں تھا۔ میں نے اکثر انہیں بڑے بھائی کے دلائے پہلے نوکیا سیٹ کے بٹنوں پر انگلیاں پھیرتے اور کال وصول کرنے کا درست بٹن پوچھتے دیکھا تھا۔ کی پیڈ کا گھس جانا ان کے لیے ٹیکنالوجی کی دنیا اندھیر ہو جانے کے مترادف تھا۔ انہیں اکثر یہ گلہ کرتے سنا کہ ان کے جاپانی ریڈیو کی آواز اب صاف نہیں رہی اور کوئی کاریگر اسے ٹھیک بھی نہیں کر کے دیتا۔
ایک تسلی یہ بھی ہے کہ اگر اس بے لگام، سبک رفتار اور مشین پرست نسل کا بچپن اور جوانی اگر چند سکرینوں کے سامنے گزر سکتا ہے تو پھر بڑھاپا بھی کسی نہ کسی نئی ایجاد کے سہارے کٹ جائے گا۔
مجھے نہیں پتہ کہ اگلے دس، بیس، تیس اور شاید چالیس سال کے بعد میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمارا بڑھاپا کس قسم کا ہوں گا۔ کیا میرے لیے ورچوئل ریلیٹی، مریخ پر زندگی، مصنوعی ذہانت، خود کار کاریں اور چلتے پھرتے روبوٹ اتنے ہی اجنبی ہوں گے جس قدر میرے ابا کے لیے ٹچ سکرین موبائل اور انٹرنیٹ تھے؟ کیا میں ٹیکنالوجی کے سبک رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر حیرت کے سب امکانات سے ماورا ہو جاوں گا یا پھر اپنے ابا کی طرح بمشکل ہانپ ہانپ کر اپنی شرمندگی بچانے کے لیے نت نئے آلات کو قبول کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا؟
اور پھر میرے حواس اور صحت کے معاملات کا کیا ہوگا؟ میرے ابا کی نسل کے لوگ اپنی آخری عمروں میں کولا مشروبات، بناسپتی گھی، ڈبے میں بند کھانوں، مصنوعی حرارت اور خنکی اور ڈیجیٹل سکرینوں سے متعارف ہوئے لیکن ہم نے تو اپنے لڑکپن میں ہی فاسٹ فوڈ چکھ لیا تھا، کولا مشروبات کے عادی ہو گئی تھے اور ڈبے میں بند خوراک کو کھلی چیزوں پر ترجیح دینے لگے تھے اور ہماری آنکھوں نے تو ڈیجیٹل پردے پر ہی اپنا بیشتر وقت گزارنا شروع کر دیا ہے۔۔۔۔ ہمارے حواس، ہمارے اعصاب، ہمارے معدے اور ہمارے قویٰ کیسے ہوں گے؟ عین ممکن ہے کہ ہم بہت سی بیماریوں کے علاج دریافت کر لیں اور موت کے معمے حل کر لیں لیکن مصنوعی ذہانت کے حملے شروع ہو گئے تو ٹیکنالوجی میں پل بڑھ کر جوان اور پھر بوڑھے ہونے والی اولین نسلیں کیا کریں گی؟ عین ممکن ہے کہ ہم ناکارہ سمجھ کر کسی ایسے زمانے میں مقید کر دیئے جائیں جہاں ہمارے لیے ناشناسا آلات، ہماری فہم سے بالاتر ایپلیکیشنز اور ہمارے زمانے سے بعد کی ٹیکنالوجی ممنوع قرار دے دی جائے۔
ٹیکنالوجی کی گود میں پلنے والی نسلوں کا بڑھاپا اس ٹیکنالوجی کے ہاتھوں کس حد تک پرآسائش یا تکلیف دہ ہو گا کون جانتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ میں بھی ای میل اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے پرانے ورژن، اور پرانے سمارٹ فونز کو چلانے والی ایپس کے سہارے ایک نئی دنیا میں بسنے والی اگلی نسل کے لیے اجنبی اور ناکارہ قرار پاوں۔ ایک تسلی یہ بھی ہے کہ اگر اس بے لگام، سبک رفتار اور مشین پرست نسل کا بچپن اور جوانی اگر چند سکرینوں کے سامنے گزر سکتا ہے تو پھر بڑھاپا بھی کسی نہ کسی نئی ایجاد کے سہارے کٹ جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ انسان بڑھاپے، موت اور بیماری پر ہی قابو پا لے اور ہمیشہ کی جوانی اور تندرستی حاصل کر لے؟ مگر موسیقی سننے کے نت نئے آلات، فلم بینی کے نئے انداز اور باخبر رہنے کے جدید ذرائع کوئی پتہ نہیں کب مجھے فرسودہ اور دقیانوسی بنا دیں؟ میں بھی اپنے ابا کے جاپانی ریڈیو کی طرح ایک آئی پیڈ ایسا لیے گھومتا رہوں جس کی مرمت کرنے والے کاریگر بھی باقی نہ رہیں؟ مائیکروسافٹ والے ہو سکتا ہے کہ میرے لیپ ٹاپ اور میری ونڈو کے لیے تکنیکی معاونت بند کر دیں اور نئی ونڈو اور نئے پارڈوئیر کی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کی سکت مجھ میں نہ ہو؟ ہو سکتا ہے کہ جس طرح میں نے بغیر تار کے چلنے والے چارج ایبل آلات کو اپنے معمولات زندگی میں جگہ دے دی ہے ہو سکتا ہے انسانی دماغ سے کنٹرول ہونے والے آلات یا مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں اور روبوٹ چلانے کے استعمال کو سمجھنے کے لیے تب تک میں بے حد بوڑھا ہو چکا ہوں اور اپنے باپ کی طرح ایک نیم مفلوج اور غیر متعلق زندگی گزار کر مر جاوں۔۔۔۔۔۔۔