١٣ مئی کو کراچی میں اسماعیلی فرقے پر حملے نے جہاں ایک طرف مختلف ضربوں اور ناموں کے ساتھ کیے جانے والے فوجی آپریشنوں کی قلعی کھول دی تو دوسری طرف ملک کی اندر بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی لاچاری کو بھی آشکار کر دیا۔ پاکستان میں مذہب کو سب سے پہلے پنجاب میں دولتانہ حکومت نے احمدیوں کے خلاف سیاسی مقا صد کے لیے استعمال کیا تھا، مذہب کا یہی سیاسی استعمال آج بڑھ کر دہشت گرد گروہوں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں مذہب کے سیاسی استعمال کا دائرہ کار بڑھا کر اسے روس اور امریکہ کے مابین جاری جنگ کا حصہ بنایا گیا ۔ اسی کی دہائی میں پہلی عالمی و مذہبی دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک کی بنیاد رکھی گئی۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے مطابق اسی کی دہائی سے لیکر اب تک پاکستان کے اندر چودہ دہشتگرد تنظیمیں سرگرم ہیں جبکہ ساوتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق ان تنظیموں کی کل تعداد اڑتالیس ہے۔ دہشتگرد پیدا کرنے میں پاکستانی مٹی کی زرخیزی کا اندازہ شدت پسند تنظیموں میں اضافے کی رفتار سے لگایا جاسکتا ہے جن کا واضح مقصد ‘کم تر مسلمانوں ‘ کے ساتھ حساب کتاب برابر کرنا ہے۔
پاکستان میں مذہب کو سب سے پہلے پنجاب میں دولتانہ حکومت نے احمدیوں کے خلاف سیاسی مقا صد کے لیے استعمال کیا تھا، مذہب کا یہی سیاسی استعمال آج بڑھ کر دہشت گرد گروہوں کی شکل اختیار کرچکا ہے
دنیا بھر میں ریاستیں اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں مگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ریاست دہشگردوں کی مدد بھی کرتی ہے اورشہریوں کے ساتھ مل کر ان کی کارروائیوں کی مذمت بھی کرتی ہے ، گویا غالب کی زبان میں ‘ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک رہرو کے ساتھ ‘ والا معاملہ ہے۔ تسلیم کہ ریاست تمام دہشتگرد گروہوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے ، مگر ریاست ‘اچھے ‘ اور ‘برے’ دہشتگردوں کے درمیان تمیز کے نظریے پر نظرثانی تو کر سکتی ہے ۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے تمام حملوں کی ذمہ داری کالعدم مذہبی تنظیمیں مکمل خلوص کے ساتھ قبول کر لیتی ہیں مگر حکومت اور چند سیاسی جماعتیں ان حملوں میں ہندوستان کے ملوث ہونے پر بضد رہتے ہیں ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ان حملوں میں ہندوستان ہی ملوث ہے مگر پاکستان کے دشمن بھارت اور پاکستان کی “دوست” مذہبی تنظیموں کے شر سےعوام کو محفوظ رکھنا ریاست ہی کی ذمہ داری ہے ۔عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان حملوں میں کون ملوث ہے، عوام کو غرض اس بات سے ہے کہ حکومت ان کے جان اور مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ جون ایلیا کے الفاظ میں کیا عوام یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ
چلائے تیر تو کس کس نے لیکن
میرا قاتل کوئی تیرے سوا نئیں
میرا قاتل کوئی تیرے سوا نئیں
اسماعیلی مسلمانوں پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا حملہ نہیں ہے ،ماضی میں بھی اس پرامن برادری کو اس طرح کے واقعات کا سامنا رہا ہے ؛ اسی کی دہائی میں چترال کے اندر کئی اسماعیلیوں کا قتل عام ہوا ، گلگت میں بھی وقتاً فوقتاً اسماعیلیوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ برس کریم آباد میں اسماعیلی جماعت خانے پردستی بم پھینکا گیا جس میں دو افراد شہید ہوئے اور اٹھایئس کے قریب زخمی ، گارڈن کے علاقے سے کئی اسماعیلی سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔
ریاستیں اپنے اندر بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ اس لیے نہیں کرتیں کہ وہ ریاستی معیشت، فنون لطیفہ، ادب، طب اور تعلیم کے پھیلاو میں ریاست کی مدد کرتی ہیں، ریاستیں اقلیتی افراد کے تحفظ کی اس لیے پابند ہیں کیوں کہ وہ بھی ریاست کے شہری ہوتے ہیں
کراچی حملے کی بعد میڈیا نے نہایت محتاط طریقے سے اس حملے کی کوریج کی ۔ پاکستان کے انگریزی اخباروں نے ‘اسماعیلی کمیونٹی ‘ جبکہ اردو اخبارات نے ‘اسماعیلی برادری ‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ میڈیا بھلے آزادی کا کتنا ہی دعوی کرے مگر اس کی زبان اکثر خوف کے باعث لڑکھڑاتی ہے ۔ میڈیا کے دانشوروں نے حملے کے فوری بعد اپنا سارا زور یہ بات باور کرانے میں لگایا کہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور اسماعیلیوں کا اس ملک کی معیشت میں بہت زیادہ عمل دخل ہے لہذا حکومت ان ک تحفظ یقینی بنائے۔ اسی طرح کے دلائل اثنا عشری شیعوں اور احمدیوں پر حملوں کے بعد بھی دیے جاتے ہیں۔ یہ ایک انوکھی دلیل ہے، ریاستیں اپنے اندر بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ اس لیے نہیں کرتیں کہ وہ ریاستی معیشت، فنون لطیفہ، ادب، طب اور تعلیم کے پھیلاو میں ریاست کی مدد کرتی ہیں، ریاستیں اقلیتی افراد کے تحفظ کی اس لیے پابند ہیں کیوں کہ وہ بھی ریاست کے شہری ہوتے ہیں۔ اگر کسی مذہبی اقلیت کا ملک کے قیام اورا س کی ترقی میں کوئی قابل ذکر حصہ نہ ہو تو اس کا تحفظ کن بنیادوں پر کیا جائے گا ؟ کیا ہمارے میڈیائی دانشوروں کی پاس اس بات کا کوئی جواب ہے ؟
افغان جہاد کے معاشرے پر پڑنے والی اثرات کے بعد ہمارے پالیسی ساز اداروں کو دوسروں کے معاملات میں سینگ پھسانے کی بجائے اپنے اندرونی مسئلوں پہ توجہ دینے کی ضرورت تھی مگر پاکستان کو اپنے مسئلوں سے زیادہ امت کے مسائل سلجھانے میں دلچسپی ہے ۔ اپنے پچاس ہزار شہری کھونے کے بعد بھی پاکستانی پارلیمنٹ میں یمن کے معاملے پر بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری عقل اب تک ٹھکانے نہیں لگی ، اسی لیے پاکستان کے اندر بسنے والی اقلیتوں کو اپنے تحفظ کے ضمن میں زیادہ پرامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جون ایلیاکے بقول:
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نہیں
ہمارا اور کوئی مدعا نہیں
پاکستان کے اقلیتوں کا ایک ہی مدعا تھا اور ہے کہ انہیں جینے کا حق دیا جائے، مگر کیا ریاست کا بھی یہی مدعا ہے ؟