[blockquote style=”3″]
نوٹ: خرم سہیل کی اوم پوری صاحب کے حوالے سے ماضی قریب میں دو تحاریر ڈان اردو اور دنیا پاکستان پر شائع ہو چکی ہیں ، زیرِ نظر تحریر خصوصی طور پر لالٹین کے لیے تصنیف کی گئی ہے۔
[/blockquote]
بھارت کے معروف اداکار اوم پوری، دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے،ان کی ناگہانی موت کے بعد، جتنے منہ،اتنی باتیں ہیں۔ یہ صرف ایک فردکی موت نہیں ہوئی، بلکہ اچھے تعلقات کاموسم بھی رخصت ہوا، جن سے پاکستان اور بھارت، دونوں ملکوں پر خوشی کی بہار اتری تھی۔ دونوں طرف سے تخلیق کاراپنے اپنے فن کی داد وصول کر رہے تھے۔اوم پوری ہی نہیں گئے، ایک احساس رخصت ہوا۔ وہ دونوں طرف کے مداحوں کی دھڑکنوں میں شامل تھا۔ اُس نے دونوں طرف کے انتہاپسندوں کویہ جواب دیاکہ آپس کی لڑائی میں، اس حدتک نہ چلے جاؤ، جہاں فلسطین اوراسرائیل کے حالات پہنچ گئے ہیں۔
اوم پوری کی آواز میں دونوں اطراف کے لیے سانجھا درد تھا اورفکرمندی بھی، اس سارے منظر نامے پر سب سے زیادہ حیرت کی بات، ہندوستان میں پاکستان دوست آوازوں کا خاموش ہونا ہے۔ سامنے کی مثال مہیش بھٹ کی ہے۔ ساراہندوستان بول رہا ہے، وہ خاموش ہیں۔ حتیٰ کہ ان کاکوئی تعزیتی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ اوم پوری کی موت کے بعد بالی وڈ میں، فنکاروں کا محتاط رویہ دال میں کچھ کالا کی خمازی کرتا ہے۔
اوم پوری نے پاکستان میں ایک فلم “ایکٹران لا” میں کام کیا، جس میں انہوں نے اپنی شاندار اداکاری کی بدولت فلم میں چارچاند لگادیے۔اس فلم کی شوٹنگ کراچی میں ہوئی، اس موقع پر مجھے بھی ان سے ملاقات کاموقع ملا۔ ان کو بے حد مشفق اور پاکستان دوست پایا۔ پاکستان میں کئی ٹیلی وژن شوز میں اپنی گھن گرج والی آواز سے مداحوں کے دل جیتے، لیکن انہیں، اپنے ہی ملک کے ایک ٹاک شو میں متنازعہ گفتگو کرنے پر اُکسایا گیا۔
طیش میں آکر وہ کچھ متنازعہ باتیں کر بیٹھے، مگروہ ان کے ذاتی خیالات تھے، اس وجہ سے ان کی تذلیل کاایک نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہو گیا، ان حالات سے وہ دلبرداشتہ ہوئے، جان کو بھی خطرہ لاحق تھا، اس وجہ سے امریکا منتقل ہونے کافیصلہ کرلیا۔جس رات ان کی پراسرار موت ہوئی، اس سے اگلی صبح انہیں امریکی سفارت خانے جاناتھا،اس بات کی تصدیق ان کے ڈرائیور رام مشرانے کی، جن کا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ پر ہے۔
انڈیا میں اوم پوری کی موت کے فوری بعد، یہ خبر آئی کہ ان کو دل کا دورہ پڑا ہے، مگر ان کے دوست اوربھارتی فلم ساز خالد قدوائی اور ڈرائیور کے بیانات کے بعد بات سمجھ آتی ہے کہ یہ سب کچھ طے شدہ تھا۔ موت کی آہٹ پاکر اوم پوری کی پدرانہ شفقت نے بھی جوش مارا، اس رات، وہ اپنے بیٹے سے بھی ملنا چاہتے تھے، جس کے لیے انہوں نے کوشش بھی کی،کسی طرح رابطہ کر کے بیٹے سے مل لیں، مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔
ہندوستان میں دو طرح کا سینما تخلیق ہوا، جس کو کمرشل اور پیرلل یعنی آرٹ سینما کہا جاتا ہے۔ اوم پوری دونوں قسم کے سینما میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے، اسی لیے وہ نہ صرف ہندوستان میں مقبول تھے، بلکہ انہوں نے ہالی وڈ، یورپین سینما اور پھر پاکستان کی فلمی صنعت میں بھی اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ ہالی ووڈ میں افغان جہاد کے تناظر میں جب فلم “چارلی ولسن” بنی، تو اس فلم میں جہاں ایک طرف پاکستان کے معروف اداکارنعیم طاہر کے بیٹے فرحان طاہر کام کر رہے تھے، تو دوسری طرف اوم پوری فلم میں، ضیاالحق کا کردار نبھا رہے تھے۔
اوم پوری نے “سٹی آف جوائے” جیسی فلم کے ذریعے، بنگال میں کلکتہ کے سائیکل رکشہ چلانے والے کی زندگی کواپنی اداکاری سے اجاگر کیا۔ ہندوستان کی بے شمار آرٹ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ بھارت میں آرٹ فلموں کے سب سے بڑے فلم ساز “ستیہ جیت رائے “کے ساتھ بھی کام کیا۔ اپنے جگری دوست نصیرالدین شاہ کے ساتھ زندگی کے اچھے برے دن دیکھے۔ ان کی اپنے سماج سے بغاوت کاعنصر شروع سے موجود تھا، جب ہی فلم ‘ماچس’ میں وہ بغاوت کے سپہ سالار کے طور پر بھی دکھائی دیے۔ پاکستانی فلم “ایکٹران لا” میں ایک نیک صفت اورشفیق باپ کا کردار نبھایا۔ پاکستان سے محبت کی قیمت بھی اوم پوری صاحب کو بھارت میں دینا پڑی۔
اوم پوری کو، پاکستان اور ہندوستان کے اخبارات کے علاوہ، امریکا کے نیویارک ٹائمز اور برطانیہ کے دی گارڈین نے بھی، ان کی شاندار فلمی خدمات کا اعتراف کیا۔ وہ برصغیر کی اداکاری کا ایک آفتاب تھے، جو طلوع تو انڈین سینماسے ہوا، مگر غروب پاکستان میں ہوا، ان کی زندگی کی آخری قابلِ ذکر فلم پاکستان میں ریلیز ہونے والی فلم ایکٹر ان لا تھی۔ اوم پوری نے تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔ برطانیہ میں ان کو جس فلم سے شہرت ملی،اس کا نام “ایسٹ از ایسٹ” تھا، جس میں انہوں نے ایک پاکستانی خاندان کے سربراہ کا کردار نبھایا تھا۔
انبالے کے سپوت، اوم پوری صاحب کو دنیا بھر میں کہیں بھی ان کی مادری زبان بولنے والا مل جاتا، تووہ اس سے گفتگو کرنے میں پنجابی زبان کو ترجیح دیتے، اس بات کااعتراف بھی انہوں نے مجھ سے انٹرویو میں کیا تھا۔ میں نے پوچھا “آرٹ سینما دیکھنے والے تو تنہارہ گئے؟” اس سوال پر وہ اداس ہو گئے، شاید ان کی تنہائی، آرٹ سینما کے شائقین کی تنہائی سے بھی زیادہ تھی، جس کااحساس مجھے بھی بعد میں ہوا۔ اوم پوری کہاکرتے تھے “میں خواب نہیں دیکھتا، کیونکہ وہ خواب پورے نہ ہوں، تو دل ٹوٹتا ہے، میں اس توڑ پھوڑ کوبرداشت نہیں کر پاؤں گا، اس لیے میں خواب ہی نہیں دیکھتا۔” اوم پوری صرف ایک فنکار ہی نہیں، ہجوم سے بچھڑا ہوا شخص بھی تھا، جس کی آنکھوں میں گئی رتوں کے خواب تھے۔

اوم پوری نہیں جانتے تھے، خواب دیکھے نہیں جاتے، خوبصورت شعور اور حساس مزاج رکھنے والوں کے ہاں خواب اُترا کرتے ہیں، تصور کے راستے سے، آنکھوں کے اندر اور روح میں سرایت کرتے ہیں۔ وہاں کوئی ضبط کام نہیں آتا، آپ نے پاکستان اوربھارت کی دوستی کا خواب دیکھا تھا، آپ ٹھیک کہتے تھے، جب خواب پورے نہ ہوں تو دل ٹوٹ جاتاہے۔ آپ کی آواز کی خاموشی میں، دونوں ملکوں کاتعلق ہی نہیں ٹوٹا، بلکہ کئی پاکستان دوست آوازیں بھی ٹوٹتی محسوس ہو رہی ہیں۔ مہیش بھٹ اور گلزار خاموش ہیں۔۔۔کراچی اور لاہور ہی اداس نہیں، انبالہ اور ممبئی بھی غم میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر بے آواز۔۔۔