Laaltain

گیلے ہونٹوں کا خشک جہان

10 جنوری، 2017
میں نے ان لبوں کا ذائقہ چکھا ہے۔ وہ لب جو نیم سرخ اور نیم گلابی ہیں۔جن کی گدازی اور غیر معمولی ملائمیت بلا کی حیرت انگیز ہے۔ میں ان لبوں کا پر ستار،ان کا محافظ، ان کے قرب و جوار سے آگاہ، ان کی سرحدوں کا نگہ بان ہوں۔ جب کبھی ان لبوں کی زمین پر اپنے ہونٹوں کے ہمراہ اترتا ہوں تو وادئ رنگ و نور کی پر کیف فضا میں آشفتہ خاطر بھٹکتارہتا ہوں۔ایک عجیب و غریب بے چینی کےساتھ، جس میں اضطراب کی دبیز لہر،تسکین کا متزلزل وجود ہوتا ہے اور طالع بیداری کا موہوم احساس ہوتا ہے۔ میں ان لبوں کے ساحلوں پر گشت کرتا ہوں۔ ان کو چھوتا ہوں،چھیڑتا ہوں۔ ان کی سرخ زمین پر دور تک سفر کرتا ہوں۔ ان کے پیچیدہ اور کھردرے نقش و نگار کا نظارہ کرتا ہوں۔ اپنے لبوں کے دریا سے ان کی سطح زمین کی گلاب مٹی کو شفاف کرتا ہوں۔ میں ان لبوں کی شناخت قائم کرنے میں اپنے دن رات، صبح و شام صرف کرتا رہتا ہوں۔ لمحوں اور صدیوں کی تقسیم کے فرسودہ تصورات کو ان لبوں کی ہمسایگی سے منقطع کرتا ہوا۔میں ان دلدلی ریگستانوں میں چند ساعتوں میں ہزاروں سال کی مسافت طے کرتا ہوں۔ان کے طلول بلد اور عرض بدل کی تمام لکیروں کواپنے قدموں تلے روندتا ہوا گزرتا چلا جاتا ہوں۔ وہ لب میرے وجود کو ایک قسم کا تحرک بخشتے ہیں۔ میں ان پر سفر کرتا ہوا ان کی سطح زمین کو اپنے ہونٹوں کی طلسماتی صفات سے لپیٹتا ہوا ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گردش کرتا رہتا ہوں۔

 

وہ لب جو میرا حاصل زندگی ہیں۔جن کو میں اپنی خردبیں نگاہوں سے آٹھوں پہر تکتا رہتا ہوں۔جس کی رنگت اور تمازت،شفقت اور تمکنت، روشنی اور نورانیت، بے قراری اور سکونت کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ جن کی شاہراہ عام پر میں حیراں و پریشاں، مضمحل اور تنہا کھڑا کائنات کی رنگینوں کا مظاہرہ کرتا رہتا ہوں۔ وہ لب میرے دونوں جہانوں کی الجھی ہوئی گتھی کو مزید الجھا کر اپنی بساط کی دو رنگی چادر پر پھیلا دیتے ہیں اور میں ان میں کبھی زمین سے آسمان اور آسمان سے زمین کے چکر لگاتا ہوا اپنی ژولیدہ نگاہی کے نخچیر میں مقید ہو جاتا ہوں۔

 

میں جب کبھی ان لبوں کی کائنات میں بہتے آبشاروں، خشک ہو تے دریاوں، پھٹتی اور ادھٹرتی زمینوں، بے رنگ پانیوں اور ریگستانی ہواوں کے بے ترتیب جھکڑوں کو بنتے بڑگڑتے دیکھتا ہوں تو ان کی وسیع و عریض اور مختلف المزاج شناخت پر مخنونانہ انداز میں چیخ پڑتا ہوں۔ ایک تیز آواز جس سے ان لبوں کی سطح زمین متزلز ل ہو جاتی ہے۔ اس کے آتش فشاں پھوٹ پڑتے ہیں اس کے آسمان پر چاروں پر تاریک دھواں منتشر ہو جاتا ہے اور میں اس کائنات نما ہونٹوں کودوبارہ زندگی سے آشنا کرانے کے لیے اپنی زبان کی نمکین چارد کے ریشمی جال کو ان کے چو طرفہ وجود پر پھیلانےمیں مصروف ہو جاتا ہوں، جس سے ان ہوٹنوں کے مشرق، مغرب، شمال اور جنوب دوبارہ اسی آب و تاب سے جی اٹھتے ہیں۔

 

میں ان لبوں کوجن کے اندر ایک ناقابل فہم رمز پایا جاتا ہے اپنے ہوٹنوں سے کچلتا ہوں۔ ان کی بے ترتیب بستوں کو ملیا میٹ کرتا ہوں۔ ان پر اپنے خدا نمائی قہر کو برساتا ہوں۔ ان ہوٹنوں کی دنیا میں موجود وحشت ناک قوموں کو موت کی ہیبت سے آشنا کرواتا ہوں۔ ان کے حشو و زوائد کو تراشتا ہوں۔ ان پر اپنی اجارہ داری قائم کرتا ہوں۔ ان کی زندگی کے آداب مرتب کرتا ہوں۔ان کو زندگی کے اصل معنی سے روشناس کرواتا ہوں۔ میں ان کا آقا بن کر ان پر براجمان ہو جاتا ہوں۔ ان کی دنیا میں پانی برسا کر ان کی قوموں سے اپنے حصے کا خراج وصول کرتا ہوں۔ ان کی سانسوں کو اپنے خدا نمائی لبوں کی زنجیر میں قید رکھتا ہوں۔ ان پر جبر کرتا ہوں اور ان پر قابض ہو کر اس وقت تک انہیں اسی طرح تڑپاتا اور ستتا رہتا ہوں جب تک وہ اپنی سنانسوں کےحصول کی استعدا نہیں کرتے۔جب تک وہ میرے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک کر میرے ہونے کو اپنے ہونے پر مقدم نہیں جانتے۔جب تک وہ اپنی زندگی کو میری زندگی پر قربان کرنے کا عزم نہیں کرتے۔

 

میں ان ہونٹوں کی دنیا میں رحم اور ظلم، وفا اور جفا،جنت اور دوزخ، کفر اور ایمان، زہر اور قند، اچھائی اور برائی ان تمام تصورات کو قائم رکھتا ہوں۔ان کے ویران جزیروں پر عذاب نازل کرتا ہوا ان کی آباد بستیوں پر رحم بھیجتا ہوں۔ ان کو اعتدال کے معنی عطا رتا ہوں اور اپنے خدائی وجود کو ان پر نازل کر کے ان کے اعتقادات سے اپنی زندگی کو قائم اور دائم بنا لیتا ہوں۔ میں ان ہوٹنوں کی دنیا کا حاکم ہوں۔ ان کا فرشتہ ان کا عزازیل ان کا شاعر ان کا نغمہ نگار ان کا مالک اور ان کا بندہ ہوں۔

 

میں ان سے اپنے ہونے کا ادراک حاصل کرتا ہوں۔ وہ ہونٹ جو میرے ہوٹنوں سے مس ہوتے ہی کانپنے اور لرزنے لگتے ہیں۔ پھیلنے اور سکڑنے لگتے ہیں۔ بننے اور بگڑنے لگتے ہیں۔ بھیگنے اور خشک ہونے لگتے ہیں۔ میں ان سے اپنے ہوٹنوں کی سردی مائل حرارت اخذ کرتا ہوں۔ وہ لب مجھ سے مل کر مجھ سے جدا ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح جس طرح وہ اپنے شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے ملا کر خود سے الگ کر لیتے ہیں۔ میں ان کے شمالی اور جنوبی خطوں کے درمیان اپنے لبوں کے خشک جزیروں کا جہان آباد کرتا ہوں اور ان لبوں کے شمال سے اپنے لبوں پر آباد قوموں کے لیے پانی وصول کرتا ہوں اور جنوب سے ان کا اناج حاصل کرتا ہوں۔ وہ اناج جو انہیں اپنے جنوبی دیوتا کی کھردری اور ادھڑی ہوئی زمین سے حاصل ہوتا ہے۔ میرے لبوں کی دنیا ان لبوں کی کائنات کے بگھرے ہوئے خداوں کی حمد و ثنا کرتی ہے۔

 

ان لبوں کے اندھے غاروں سے آنے والے گرم ہوا کے جھوکے میرے لبوں کے شہر سراوں میں آباد ضعیف العقیدہ عوام کو اپنے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں ان لبو ں کو زندگی کی آخری علامت جانتا ہوں کیوں کہ میرا وجود ان میں آباد ہے۔ میرے خدا ان سے قائم ہیں۔ میرے دیوتا ان میں جیتے ہیں۔میرے شاعر ان پر اپنے نغمے لکھتے ہیں۔میرے مصور ان پر اپنی رنگینی تراشتے ہیں۔میرے لوہار ان پر تلوریں بناتے ہیں۔میرے سنار ان پہ اپنے زیورات تیار کرتے ہیں۔ وہ لب میرے لب ہیں۔ وہ ہونٹ میرے معبود ہیں۔ میں ان کا بندہ ہوں اور وہ میرے منتشر وجود کو مرتب کرنے والے، میرے اجزائے بدن کو تشکیل دینے والے میرے آقا ہیں۔میری حرارتوں کو زندگی بخشنے والے میرے سب سے قیمتی دو جام ہیں۔ جن جاموں کو پیتے ہوئے میرے ذہن میں اختر حسین جعفری کے یہ مصرعے رقص کرتے رہتے ہیں کہ:

 

عجیب وہ سیل تھا کہ جس نے
کنار دریا کی سرحدوں میں نئے اضافے کیے ہیں تازہ زمین
آباد کر گیا ہے
عجیب وہ دھوپ تھی جو پیش از سحر کی ساعت کے گھر میں اتری

Image: Hue Bucket

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *