گھوڑے اور آدمی کے ساتھ کو آج مدتیں بیت گئی تھیں اور اب وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ چلتے چلتے گھوڑے نے سوچا ،”بس بہت ہو ا آج یہ سارا تماشہ ختم ! مجھے بات کرنا ہی ہو گی کہ میں اب اس کے اور ساتھ نہیں رہ سکتا۔”
ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے پڑاو ڈالا گیا اور آدمی نے گھوڑے کی زین کھول دی۔ آگ جلائی اور دونوں اپنا اپنا دکھڑا پھر سے سوچنے بیٹھ گئے۔ آدمی نے سوچا کہ میں نے اسے پالا پیارکیا ، کھانے کو دیا ، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا اور یہ ناشکرا پھر بھی کبھی مجھ سے خوش نہیں ہوتا ۔ گھوڑے نے سوچا کہ یہ خود غرض شخص ساری دنیا میری پیٹھ پر بیٹھ کر گھوم آیا ، میرا کیا فائدہ تھا جو میں اس کا بار اٹھائے اٹھائے پھرا ہوں۔
“بس بات ختم”، اچانک آدمی بولا۔” آج کے بعد تم مجھ سے آزاد ہوئے اور میں تمہارے دانہ پانی کی فکر سے۔ یہ جنگل ختم ہوتے ہی ہم ایک دوسرے کو خداحافظ کہہ دیں گے اور پھر کبھی نہیں ملیں گے۔ ” گھوڑا چپ چاپ مان گیا۔
دونوں نے آخری بار اکٹھے کھانہ کھایا ۔ آدمی جدائی کے بوجھ تلے دبا ہوا بمشکل اٹھا،گھوڑے پر زین کسی اور اس کی باگ پکڑ کر پیدل چل پڑا۔ دن آدھے سے زیادہ گزر چکا تھا۔ جب وہ دونوں خاصی دور یوں ہی رہے تو گھوڑے سے رہا نہ گیا اور اس نے آدمی سے پوچھا ، ” سوار کیوں نہیں ہوتے؟”آدمی چپ چاپ چلتا رہا، گھوڑے نے پھر پوچھا ، آدمی کچھ نہ بولا۔ تیسری بار گھوڑے نے غصے سے پوچھا تو آدمی نے بمشکل جواب دیا،” مانگی ہوئی جدائی اتنی مشکل ہے تو اَن چاہی جدائی کیسی ہوتی ہو گی؟”
گھوڑے کو لگا کہ اس کی زین منوں وزنی ہو چکی ہے اور وہ اب کبھی نہیں چل پائے گا لیکن جنگل ان کے پیروں کے نیچے سے کھینج کر نکال لیا گیا۔ شام کے سائے گہرے ہوگئے تھے اور وہ جنگل کے اندھیرے اور اِسے آ لگنے والی برف کی سفیدی کی سرحد پر کھڑے تھے۔ جب خاموشی اور رات بڑھنے لگے تو آدمی بولا، ” جنگل ختم ہو گیا ہے۔ ” گھوڑے کو آدمی وہی لڑکا لگا جسے دیکھ کر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ میری پیٹھ پر چڑھنے والا یہ پہلا اور آخری انسان ہوگا۔ اور آدمی نے اس دکھ ، سردی ، جنگل اور اندھیرے میں گھوڑے کے سیاہ سائے کو دیکھا اور سوچا کہ وہ اسے آخری بار دیکھ رہا ہے۔ آدمی کو وہ وُکے ہوئے آنسو جو اس نے گھوڑے کو پانے کی دھمکی کے طور پر اپنے باپ کو سمیٹ کر دکھائے تھے، پھسل کر اس کی ڈاڑھی تک آئے اور جم گئے۔
“جنگل ختم ہو گیا ہے” آدمی نے دہرایا مگر گھوڑا اپنی جگہ سے ہل نہ پایا اور آدمی بے سمت ہو کر وہیں بیٹھ گیا۔ صبح ہوئی تو جنگل نے ان دونوں کو جھیل کے کنارے ایک الاو کے پاس بیٹھے دیکھا۔ شام ہوئی تو جنگل آدمی اور گھوڑے کو وہیں ایک گھر بنانے میں مدد دے رہا تھا۔ اور پھر ان دونوں نے تمام عمر جھیل کے سنگم پر گزار دی ، جدائی کی سرحد کو پار کرنے کا حوصلہ کئے بغیر۔ ۔
ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے پڑاو ڈالا گیا اور آدمی نے گھوڑے کی زین کھول دی۔ آگ جلائی اور دونوں اپنا اپنا دکھڑا پھر سے سوچنے بیٹھ گئے۔ آدمی نے سوچا کہ میں نے اسے پالا پیارکیا ، کھانے کو دیا ، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا اور یہ ناشکرا پھر بھی کبھی مجھ سے خوش نہیں ہوتا ۔ گھوڑے نے سوچا کہ یہ خود غرض شخص ساری دنیا میری پیٹھ پر بیٹھ کر گھوم آیا ، میرا کیا فائدہ تھا جو میں اس کا بار اٹھائے اٹھائے پھرا ہوں۔
“بس بات ختم”، اچانک آدمی بولا۔” آج کے بعد تم مجھ سے آزاد ہوئے اور میں تمہارے دانہ پانی کی فکر سے۔ یہ جنگل ختم ہوتے ہی ہم ایک دوسرے کو خداحافظ کہہ دیں گے اور پھر کبھی نہیں ملیں گے۔ ” گھوڑا چپ چاپ مان گیا۔
دونوں نے آخری بار اکٹھے کھانہ کھایا ۔ آدمی جدائی کے بوجھ تلے دبا ہوا بمشکل اٹھا،گھوڑے پر زین کسی اور اس کی باگ پکڑ کر پیدل چل پڑا۔ دن آدھے سے زیادہ گزر چکا تھا۔ جب وہ دونوں خاصی دور یوں ہی رہے تو گھوڑے سے رہا نہ گیا اور اس نے آدمی سے پوچھا ، ” سوار کیوں نہیں ہوتے؟”آدمی چپ چاپ چلتا رہا، گھوڑے نے پھر پوچھا ، آدمی کچھ نہ بولا۔ تیسری بار گھوڑے نے غصے سے پوچھا تو آدمی نے بمشکل جواب دیا،” مانگی ہوئی جدائی اتنی مشکل ہے تو اَن چاہی جدائی کیسی ہوتی ہو گی؟”
گھوڑے کو لگا کہ اس کی زین منوں وزنی ہو چکی ہے اور وہ اب کبھی نہیں چل پائے گا لیکن جنگل ان کے پیروں کے نیچے سے کھینج کر نکال لیا گیا۔ شام کے سائے گہرے ہوگئے تھے اور وہ جنگل کے اندھیرے اور اِسے آ لگنے والی برف کی سفیدی کی سرحد پر کھڑے تھے۔ جب خاموشی اور رات بڑھنے لگے تو آدمی بولا، ” جنگل ختم ہو گیا ہے۔ ” گھوڑے کو آدمی وہی لڑکا لگا جسے دیکھ کر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ میری پیٹھ پر چڑھنے والا یہ پہلا اور آخری انسان ہوگا۔ اور آدمی نے اس دکھ ، سردی ، جنگل اور اندھیرے میں گھوڑے کے سیاہ سائے کو دیکھا اور سوچا کہ وہ اسے آخری بار دیکھ رہا ہے۔ آدمی کو وہ وُکے ہوئے آنسو جو اس نے گھوڑے کو پانے کی دھمکی کے طور پر اپنے باپ کو سمیٹ کر دکھائے تھے، پھسل کر اس کی ڈاڑھی تک آئے اور جم گئے۔
“جنگل ختم ہو گیا ہے” آدمی نے دہرایا مگر گھوڑا اپنی جگہ سے ہل نہ پایا اور آدمی بے سمت ہو کر وہیں بیٹھ گیا۔ صبح ہوئی تو جنگل نے ان دونوں کو جھیل کے کنارے ایک الاو کے پاس بیٹھے دیکھا۔ شام ہوئی تو جنگل آدمی اور گھوڑے کو وہیں ایک گھر بنانے میں مدد دے رہا تھا۔ اور پھر ان دونوں نے تمام عمر جھیل کے سنگم پر گزار دی ، جدائی کی سرحد کو پار کرنے کا حوصلہ کئے بغیر۔ ۔
تبصرے
بہت شاندار۔۔۔ انسان اور گھوڑے کی ازلی رفاقت اور باہمی تعلق کو بہت دلنشین انداز میں مضمون کیا ہے۔۔۔ اُردو ادب میں ایسے موضوعات کے خالی میدان میں یہ نئی عمارت مُجھے میلوں دُور سے بھی اپنی طرف متوجہ کئے جا رہی ہے۔۔۔مصنفہ داد اور مبارک کی حقدار ہیں کہ ھماری زبان میں ایسے ادب پارے ایک جنسِ نایاب ہیں۔