شریف ایس الموسی کی ایک نظم کا ترجمہ
گھر کی طرف کھنچتے ہوئے
ڈھلتی ہوئی شام میں ٹرین میں میری آنکھ لگ گئی
اور میں نے اپنی منزل کھو دی
تھک گیا ہوں میں
اور بمشکل سیڑھیاں چڑھ پاؤں گا
پٹڑی سے دوسری سمت جا نے کے لیے۔۔۔
مجھے اس بوڑھے آدمی کے بارے خیال آ رہا ہے جو کہ رہا تھا
کہ کیسے وہ کھیتوں میں تین سے چار گھنٹے مسلسل چلتا ہے
اور پھر اپنی پنڈلیوں کو پکڑ کر ان سے سوال کرتا ہے
کیا ان میں مزید ہمت ہے؟۔۔۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ میری ٹانگیں اس کی ٹانگیں لگ رہیں ہیں
بھورے پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے میری نظرپڑتی ہے
ایک آدمی پر
جو معائنہ کرتا ہے ایک ٹوٹے ہوئے سگریٹ کا
خوشگوار انداز میں
اور مسل دیتا ہےاسے
نرمی سے اپنے جوتے تلے
ایک مرد اور عورت لمبے سفر پہ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں
جنوب کی طرف
شاید وہ محظوظ ہونا چاہتے ہیں
صحرا میں پورےچاند کے نظارے سے
شہر کے مرکز سے دور اس سٹیشن پر
مصریوں کا کوئی قدیم حیرت انگیز مجسمہ نہیں ہے
یہ سب احساس دلاتے ہیں کہ سب کچھ یہاں مختلف ہے
ایک دیوار کے ساتھ جھکتے ہوئے
میں چیونٹیوں کی ایک قطار دیکھتا ہوں
تیزی سے بھاگتی ہوئی ،اوپر نیچے
سیمنٹ میں پڑے شگاف کے ساتھ ساتھ
اوپر سے نیچے آتی چیونٹیاں گھسیٹ کر لا رہیں
چھلکے کے ٹکڑے
اور نیچے سے اوپر جاتی چیونٹیاں ارادہ کیے ہوئے
انہیں ذخیرہ کرنے کا
تیز روشنی میں ان کے سیاہ چمکدار جسم
سروکار رکھتے ہیں مسلسل چلتے رہنے سے
کوئی چیونٹی اس سے کوتاہ نہیں
نہ بھٹکتی ہے
کیا چیز انہیں مجبور کرتی ہے
صبر یا امید؟۔۔۔۔
رکتی کیوں نہیں ان کی ٹانگیں
تھکتی کیوں نہیں ان کی ٹانگیں۔۔۔۔
بدن جھنجھوڑتا ہے دماغ کو
کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے
ابھارتا ہے کانوں کو کہ وہ سنیں
ٹرین کی میٹھی گرج دار موسیقی
آرزو کرتا ہے ایک کشادہ بستر کی
اور اس کے نزدیک
پیٹ کے بل رینگتی اس عورت کی
جواب نہیں ہے۔۔۔۔
ڈھلتی ہوئی شام میں ٹرین میں میری آنکھ لگ گئی
اور میں نے اپنی منزل کھو دی
تھک گیا ہوں میں
اور بمشکل سیڑھیاں چڑھ پاؤں گا
پٹڑی سے دوسری سمت جا نے کے لیے۔۔۔
مجھے اس بوڑھے آدمی کے بارے خیال آ رہا ہے جو کہ رہا تھا
کہ کیسے وہ کھیتوں میں تین سے چار گھنٹے مسلسل چلتا ہے
اور پھر اپنی پنڈلیوں کو پکڑ کر ان سے سوال کرتا ہے
کیا ان میں مزید ہمت ہے؟۔۔۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ میری ٹانگیں اس کی ٹانگیں لگ رہیں ہیں
بھورے پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے میری نظرپڑتی ہے
ایک آدمی پر
جو معائنہ کرتا ہے ایک ٹوٹے ہوئے سگریٹ کا
خوشگوار انداز میں
اور مسل دیتا ہےاسے
نرمی سے اپنے جوتے تلے
ایک مرد اور عورت لمبے سفر پہ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں
جنوب کی طرف
شاید وہ محظوظ ہونا چاہتے ہیں
صحرا میں پورےچاند کے نظارے سے
شہر کے مرکز سے دور اس سٹیشن پر
مصریوں کا کوئی قدیم حیرت انگیز مجسمہ نہیں ہے
یہ سب احساس دلاتے ہیں کہ سب کچھ یہاں مختلف ہے
ایک دیوار کے ساتھ جھکتے ہوئے
میں چیونٹیوں کی ایک قطار دیکھتا ہوں
تیزی سے بھاگتی ہوئی ،اوپر نیچے
سیمنٹ میں پڑے شگاف کے ساتھ ساتھ
اوپر سے نیچے آتی چیونٹیاں گھسیٹ کر لا رہیں
چھلکے کے ٹکڑے
اور نیچے سے اوپر جاتی چیونٹیاں ارادہ کیے ہوئے
انہیں ذخیرہ کرنے کا
تیز روشنی میں ان کے سیاہ چمکدار جسم
سروکار رکھتے ہیں مسلسل چلتے رہنے سے
کوئی چیونٹی اس سے کوتاہ نہیں
نہ بھٹکتی ہے
کیا چیز انہیں مجبور کرتی ہے
صبر یا امید؟۔۔۔۔
رکتی کیوں نہیں ان کی ٹانگیں
تھکتی کیوں نہیں ان کی ٹانگیں۔۔۔۔
بدن جھنجھوڑتا ہے دماغ کو
کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے
ابھارتا ہے کانوں کو کہ وہ سنیں
ٹرین کی میٹھی گرج دار موسیقی
آرزو کرتا ہے ایک کشادہ بستر کی
اور اس کے نزدیک
پیٹ کے بل رینگتی اس عورت کی
جواب نہیں ہے۔۔۔۔
Leave a Reply