[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

گوتم نے خود کشی کر لی ہے

[/vc_column_text][vc_column_text]

روش ندیم! تمھارے لیے آسانی سے ایک نظم لکھی جا سکتی ہے
اور تمہیں دیکھنے کے لیے محدب عدسے کی ضرورت نہیں
تم سے پہلے تمہاری عینک کے شیشے نظر آ جاتے ہیں
اور تمہاری آنکھیں
ہونٹوں سے زیادہ مسکراتی ہیں
تمہاری ما بعد جدیدی محبت قابلِ رشک ہے
تم کسی کو گھر نہیں بلاتے
اور منیلا کے بغیر کہیں نہیں جاتے
اور تربوز کا شیک پیتے ہوئے یوں شرماتے اور گبھراتے ہو
جیسے کوئی ” ترقی شدہ ” پینڈو پہلی بار رام رنگی پی رہا ہو

 

تمہاری نظمیں پڑھتے ہوئے
ٹشو پیپر بھیگ جانے کے ڈر سے
رویا نہیں جا سکتا
ہنسا بھی نہیں جا سکتا
کہیں دھیان کی گمبھیرتا نہ ٹوٹ جائے
جانے کیسے تم سدھارتھ کے ساتھ اونچی آواز میں باتیں کرتے
بلکہ ٹھٹھے لگاتے ہو
اور دہشت کے موسم میں نظمیں لکھتے ہو
اس موسم میں تو نظمیں نہیں لاشیں لکھی جاتی ہیں
اور نوحے پڑھے جاتے ہیں

 

منٹو کی عورتیں
تمہارے اتہاس کی سطریں ہیں
اور تمہارے دکھ کی انامیکا
گوتم کے قدموں سے بڑی ہے
آج گوتم کو اعلی ترین ڈگری
اور بہترین تجربے کے باوجود
نوکری کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی
تو اسے معلوم ہوتا کہ دکھ کیا ہے

 

روش ندیم!
تم نے شاید صبح کا اخبار نہیں دیکھا
گوتم کو اب نوکری کی ضرورت نہیں رہی
اس نے چوک میں ڈگری جلا کر
خود کو بھی آگ لگا لی تھی
بے چارہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔
نروان پا چکا تھا ۔۔۔۔۔
خیر چھوڑو
ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے
کہیں اسے تجریدی مکھیاں اور تنقیدی ڈائنو سار نہ کھا جائیں
بھوکے پیٹ تو لیکچر بھی نہیں دیا جا سکتا!!

 

(روش ندیم کے لیے)

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

2 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: