اکیس سالہ نوجوان محفوظ خان کا تعلق پونیال کے خوبصورت وادی گیچ سے تھا۔ وہ کراچی کے ایک کالج میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ ایک مہینے قبل گلگت آیا تھا۔ محفوظ خان کو قریبی گاؤں گوہرآباد میں پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار نے اُس وقت ٹکر ماری جب وہ موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ انہیں زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
ٹریفک حادثے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں کسی نوجوان کو جان سےہاتھ دھونا پڑا۔ آج کل گلگت بلتستان میں مشکل سے ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہے جب کوئی خوفناک ٹریفک حادثہ رونما نہ ہوتا ہو۔
ٹریفک حادثات کی ایک اہم وجہ غیر تجربہ کار اور ڈرائیونگ کے اصولوں سے نابلد ڈرائیور حضرات ہیں۔ صرف گاڑی کا سٹیرنگ ہاتھ میں لے کر لائن سیدھی کرنے سے کوئی ڈرائیور نہیں بن جاتا۔ ہمارے معاشرے میں یہ چلن عام ہے کہ آج جس نے گاڑی یا بائیک خرید لی، وہ اگلےدن اسے لے کر روڈ پرنکل آتا ہے۔
جان لیوا حادثات کے وقوع پزیر ہونے میں جہاں شہریوں کی مجرمانہ غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کارفرما ہے وہیں حکومت اور متعلقہ اداروں کو بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
گاڑی کی سیٹ پر براجمان بیشتر حضرات کو یہ تک نہیں معلوم ہوتا کہ کب انڈیکیٹرز کا استعمال کیا جائے اورکب لائٹ ڈم کی جائے، اہم موڑوں اور آبادی والی جگہوں پر کیوں کر گاڑی کی رفتار کم کی جائے۔ کیسے اور کس وقت اگلی گاڑی کو اوور ٹیک کیا جائے۔
اسی طرح کئی حضرات گاڑی چلاتے ہوئے سگریٹ نوشی اور موبائل پر باتیں کرتے ہیں جبکہ لمبے سفر پر چلنے والی گاڑیوں اور بسوں کے ڈرائیور حضرات ضروری آرام اور نیند پوری کئے بغیر ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ بہت سے تو نشے کی حالت میں گاڑی چلاتے ہیں اور کچھ خود کو جہاز کا پائلٹ سمجھ کرخوفناک حد تک تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ان جان لیوا حادثات کے وقوع پزیر ہونے میں جہاں شہریوں کی مجرمانہ غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کارفرما ہے وہیں حکومت اور متعلقہ اداروں کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے لئے محفوظ اور موثر ذرائع آمدورفت کی فراہمی یقینی بنائے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کا رویہ اس حوالے سے قابل مذمت اور شرمناک ہے۔
گلگت بلتستان میں سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ لینڈسلائیڈنگ، سیلاب، بارشوں اور دریائی کٹاؤ کی شکار سڑکوں کی سالوں مرمت نہیں کی جاتی۔ یہ الگ بات ہے کہ سڑکوں پر پڑے ملبے کی صفائی اور ان کی مرمت اُس وقت ضرور کی جاتی ہے جب کسی اہم حکومتی شخصیت کا یہاں سے گزرنا ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان میں سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ لینڈسلائیڈنگ، سیلاب، بارشوں اور دریائی کٹاؤ کی شکار سڑکوں کی سالوں مرمت نہیں کی جاتی۔
ٹریفک کی محفوظ روانی کو یقینی بنانے میں ٹریفک پولیس کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے تاہم گلگت بلتستان میں ٹریفک پولیس کا کردار علامتی ہے۔ ٹریفک وارڈن انہی سڑکوں اور مقامات پر فعال نظر آتے ہیں جہاں فوجی، بیوروکریٹ اور اہم حکومتی شخصیات کا آنا جانا ہوتا ہے۔ عوامی گزرگاہوں پر ٹریفک پولیس اہلکار جھُرمٹ کی شکل میں شہروں میں کہیں کہیں بغیر ہیلمٹ پہنے موٹرسائیکل سواروں کو جرمانے کرتے نظر آئیں گے۔ وہ شاذ و نادر ہی ڈرائیور حضرات اور موٹرسائیکل سواروں کا لائسنس چیک کرتے ہیں۔ ان موٹر سائیکل سواروں میں سے بہت سے کم عمر لڑکے ہوتے ہیں جو قانوناً گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کے اہل نہیں ہوتے لیکن ٹریفک وارڈنز کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قاتل سڑکوں کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔ ایسے کیا اقدامات اُٹھائے جاسکتے ہیں جن سے ٹریفک حادثات میں کمی لائی جا سکے۔
راقم کی نظر میں سرکاری سطح پر ڈرائیونگ کے تربیتی مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ان مراکز میں ڈرائیونگ سیکھنے والے خواتین و حضرات کو گاڑی چلانے کے ساتھ ٹریفک کے اصول و قواعد کے حوالے سے بھی تربیت دی جائے اور صرف اُن خواتین و حضرات کو لائسنس جاری کیے جائیں جو رجسٹرڈ تربیتی مراکز سے تربیت یافتہ ہوں۔
ٹریفک حادثات میں اُس وقت تک کمی نہیں لائی جاسکتی جب تک سڑکوں کو محفوظ نہیں بنایا جاتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ سیلاب، زلزلے اور بارشوں سے متاثرہ سڑکوں کی بروقت مرمت کی جائے جبکہ تنگ سڑکوں کو کھلا کیا جائے تاکہ وہ ٹرانسپورٹ کے لئے محفوظ اور موثر بنائی جا سکیں۔
ٹریفک پولیس کا کردار موثر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں صرف وی آئی پی مقامات پر ہی نہیں بلکہ ایسے تمام مقامات پر تعینات کیا جانا چاہیئے جہاں ٹریفک کا دباو زیادہ ہوتا ہے اور جہاں ٹریفک حادثات روز کا معمول ہیں۔ ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے۔ اسی طرح اسکولوں، مساجد اور ہسپتالوں سمیت آبادی والی جگہوں پر محفوظ سپیڈ بریکرز بنائے جائیں۔
ٹریفک پولیس کا کردار موثر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں صرف وی آئی پی مقامات پر ہی نہیں بلکہ ایسے تمام مقامات پر تعینات کیا جانا چاہیئے جہاں ٹریفک کا دباو زیادہ ہوتا ہے اور جہاں ٹریفک حادثات روز کا معمول ہیں۔
وہ گاڑیاں جو صحیح حالت میں نہیں ہیں ان کے چالان کیے جائیں۔ صرف ایسی گاڑیوں کو روڈ پرمٹ دیا جائے جو صحیح حالت میں ہیں اورسفر کے لئے محفوظ ہوں۔ اس حوالے سے ملک کے باقی علاقوں میں کلئیرینس سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں اس نطام کی عدم موجودگی کی وجہ سے عوام گئی گزری پبلک اور پرائیویٹ گاڑیوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ مسافر گاڑیوں پر گنجائش سے زیادہ سواریاں اور وزن رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی حادثہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسافر اور مال بردار گاڑیوں پر گنجائش سے زیادہ وزن نہ ڈالا جائے جبکہ اس حوالے سے غفلت برتنے والے ڈرائیور حضرات کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔
اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے، کیا حکومت، متعلقہ ادارے اور معاشرہ بحیثیت مجموعی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے تیار ہیں؟ یا ہمیں مزید نوجوانوں کے اپنی جان سے جانے، خواتین کے بیوہ ہونے، بچوں کے یتیم ہونے اور غریب والدین کے اپنے سہاروں سے محروم ہونے کا انتظار ہے؟