[blockquote style=”3″]
یہ نظم اس سے قبل معروف آن لائن رسالے ‘ہم سب‘ پر بھی شائع ہو چکی ہے، نصیر احمد ناصر کی اجازت سے اسے لالٹین پر بھی شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
گلوریا جینز میں شام
[/vc_column_text][vc_column_text]
آج بہت دنوں بعد
گلوریا جینز میں کافی پیتے ہوئے
آخری سِپ کے ساتھ
شام کو بھی انڈیل لیا ہے منہ میں
معدہ چاکلیٹی تنہائی سے لبا لب ہو گیا ہے
اور تم کاغذی مَگ ہاتھ میں پکڑے
ہمیشہ کی طرح منہ کھولے، ساکت و صامت
ناگاہ ہونے والی اِس ملاقات میں
میری طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہو
کہ آفرینش سے پہلے تھما ہُوا وقت
گلوریا جینز میں کیسے آ گیا ہے
گلوریا جینز میں کافی پیتے ہوئے
آخری سِپ کے ساتھ
شام کو بھی انڈیل لیا ہے منہ میں
معدہ چاکلیٹی تنہائی سے لبا لب ہو گیا ہے
اور تم کاغذی مَگ ہاتھ میں پکڑے
ہمیشہ کی طرح منہ کھولے، ساکت و صامت
ناگاہ ہونے والی اِس ملاقات میں
میری طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہو
کہ آفرینش سے پہلے تھما ہُوا وقت
گلوریا جینز میں کیسے آ گیا ہے
جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا
شام اِسی طرح مٹ میلی تھی
تاریخ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی
زمین پر صرف جغرافیہ تھا
پرندوں اور جانوروں کا ترتیب دیا ہُوا
اور وقت سایوں کی طرح چلتا تھا
اور تم یونہی حیران و پریشان
میری طرف دیکھ رہی تھیں
شام اِسی طرح مٹ میلی تھی
تاریخ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی
زمین پر صرف جغرافیہ تھا
پرندوں اور جانوروں کا ترتیب دیا ہُوا
اور وقت سایوں کی طرح چلتا تھا
اور تم یونہی حیران و پریشان
میری طرف دیکھ رہی تھیں
تم نے کبھی خود کو باخبر نہیں رکھا
تمہیں نہیں معلوم کہ آج کل
میری دنیا چھوٹی سی ہے
عالمِ نبات و حشرات کی طرح
جس میں چیونٹیوں کی قطاریں ہیں
پرندوں کے گھونسلے ہیں
لچک دار پلاسٹک کے سانپ اور کیڑے مکوڑے ہیں
اور آئس ایج کے زمانے سے کھیلنے والا
ایک ننھا نواسا ہے
اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
سائبر ایج کے بچے
کھلونوں سے نہیں زمانوں سے کھیلتے ہیں
اور کھیل ہی کھیل میں
تاریخ کا آغاز ہو جاتا ہے
اور خاتمہ بھی ۔۔۔۔
پانی پر تیرتے مکان اور آبی شاہراہیں
اور مصوروں اور مجسموں کے شہر
آباد ہوتے اور اجڑ جاتے ہیں
بادشاہوں کی میتوں کے ساتھ
ہزاروں مصاحبین زندہ دفن کر دیے جاتے ہیں
اور عہد بہ عہد صدیاں ویران ہو جاتی ہیں
تمہیں نہیں معلوم کہ آج کل
میری دنیا چھوٹی سی ہے
عالمِ نبات و حشرات کی طرح
جس میں چیونٹیوں کی قطاریں ہیں
پرندوں کے گھونسلے ہیں
لچک دار پلاسٹک کے سانپ اور کیڑے مکوڑے ہیں
اور آئس ایج کے زمانے سے کھیلنے والا
ایک ننھا نواسا ہے
اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
سائبر ایج کے بچے
کھلونوں سے نہیں زمانوں سے کھیلتے ہیں
اور کھیل ہی کھیل میں
تاریخ کا آغاز ہو جاتا ہے
اور خاتمہ بھی ۔۔۔۔
پانی پر تیرتے مکان اور آبی شاہراہیں
اور مصوروں اور مجسموں کے شہر
آباد ہوتے اور اجڑ جاتے ہیں
بادشاہوں کی میتوں کے ساتھ
ہزاروں مصاحبین زندہ دفن کر دیے جاتے ہیں
اور عہد بہ عہد صدیاں ویران ہو جاتی ہیں
تمہیں نہیں یاد کہ دوسری بار
میں نے تمہیں دشمن سرزمینوں کے عین وسط میں دیکھا تھا
زیرِ زمین سرنگوں میں
جھک کر چلتے ہوئے اور رینگتے ہوئے
اور غاروں کے اندر بنے ہوئے گھروں میں
جہاں سوراخوں اور چمنیوں سے تازہ ہوا آتی تھی
گہری نیند میں
خوابوں کو کیمو فلاژ کیے ہوئے
اور ہونٹوں کے بیچ مسکراہٹ کی لکیر کھنچی ہوئی
جیسے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو
اب تو دنیا اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے
کہ اسے دِکھانے کے لیے
ہاتھوں کی لکیریں بھی ناکافی ہیں
میں نے تمہیں دشمن سرزمینوں کے عین وسط میں دیکھا تھا
زیرِ زمین سرنگوں میں
جھک کر چلتے ہوئے اور رینگتے ہوئے
اور غاروں کے اندر بنے ہوئے گھروں میں
جہاں سوراخوں اور چمنیوں سے تازہ ہوا آتی تھی
گہری نیند میں
خوابوں کو کیمو فلاژ کیے ہوئے
اور ہونٹوں کے بیچ مسکراہٹ کی لکیر کھنچی ہوئی
جیسے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو
اب تو دنیا اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے
کہ اسے دِکھانے کے لیے
ہاتھوں کی لکیریں بھی ناکافی ہیں
اور اِس جگہ
جہاں اب شہر آباد ہے
اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں گلوریا جینز میں
میں نے تمہیں آخری بار دیکھا تھا
یہاں چند گھر تھے،
ایک راستہ تھا، ایک موڑ تھا، جہاں میں کھڑا تھا
بدترین شکستوں اور ہزیمتوں کے ساتھ
گلیاں سنسان اور چھتیں خالی تھیں
درختوں اور مکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا
اور تمہاری صرف ایک جھلک تھی
دشمن نے دلوں اور ذہنوں کے سارے رابطے جام کر دیے تھے
پہاڑوں نے ہمیں پناہ نہیں دی تھی
اور بادل بے وقت برس رہے تھے
جہاں اب شہر آباد ہے
اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں گلوریا جینز میں
میں نے تمہیں آخری بار دیکھا تھا
یہاں چند گھر تھے،
ایک راستہ تھا، ایک موڑ تھا، جہاں میں کھڑا تھا
بدترین شکستوں اور ہزیمتوں کے ساتھ
گلیاں سنسان اور چھتیں خالی تھیں
درختوں اور مکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا
اور تمہاری صرف ایک جھلک تھی
دشمن نے دلوں اور ذہنوں کے سارے رابطے جام کر دیے تھے
پہاڑوں نے ہمیں پناہ نہیں دی تھی
اور بادل بے وقت برس رہے تھے
اور آج پھر ۔۔۔۔۔ یگوں بعد
ہم مِلے ہیں گلوریا جینز میں
اور ہمیشہ کی طرح تمہیں نہیں معلوم
کہ ہم ایک ہی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں
ہماری کوئی تاریخ ہے نہ جغرافیہ
بس ایک سوک سینٹر ہے
اور ایک قبرستان
اور گلوریا جینز میں
وقت تھما نہیں، روشنی کی رفتار سے سڑپ رہا ہے!!
ہم مِلے ہیں گلوریا جینز میں
اور ہمیشہ کی طرح تمہیں نہیں معلوم
کہ ہم ایک ہی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں
ہماری کوئی تاریخ ہے نہ جغرافیہ
بس ایک سوک سینٹر ہے
اور ایک قبرستان
اور گلوریا جینز میں
وقت تھما نہیں، روشنی کی رفتار سے سڑپ رہا ہے!!
Image: Lauren Orscheln
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
One Response
An Evening At Gloria Jeans – Poem by Naseer Ahmed Nasir
Today, after so many days
while having coffee at Gloria Jeans…
I have gulped down the evening too
with the last sip
My stomach is now full of
Chocolate solitude
and you, holding the paper mug
in your hands,
silent and frigid in awe, like always,
looking at me on this sudden encounter
wondering, how on earth the time
that stood still before the genesis
has found its way to Gloria Jeans?
The evening, I had seen you
for the very first time
was just as murky as it is today
The history wasn’t born yet
On the Earth, there was geography
defined by the birds and the animals only
The time used to drift in shadows and you
awestruck and apprehensive like always
were looking at me
You never kept yourself aware of anything
You don’t even know that
my world is too small these days
like the realms of flora and pests
in which there are columns of marching ants
and the birds’ nests
snakes made of flexible plastic and
the flying and crawling insects
and a little offspring who plays
with the epoch of ice-age
No wonder if he does so
because, the children of cyber-age
play with the eras not with toys
and just like that the history begins
and comes to an end
Boat-houses and the waterways
and the cities full of painters and the sculptures
are established and then ransacked
and with the dead bodies of the kings
thousands of toadies get buried alive too
and just like that, time after time
centuries turn into despair
You don’t even remember
that I had seen you the second time
right in the middle of hostile lands
Stooping and crawling
in the underground tunnels
and in the abodes carved into the caves
where ventilation was made possible
through holes and the chimneys
Your dreams camouflaged
even in the deep slumber
and your lips tightly sealed with a grin
as if, if the world was split into two halves
But now, the world has been divided
into so many parts that, to show it to someone
even the lines in a palm are not enough
And right here, at this very place
where this city is hustling and bustling
and we are sitting here in Gloria Jeans
I had seen you for the last time
here, there were only a few dwellings
there was a trail and a bend
where I was standing
With the worst defeats and disgraces
streets were deserted and the rooftops desolate
smoke was rising up from the trees and the abodes
and only a forlorn glimpse of you
The enemy had jammed all the communication
between hearts and the minds
The hills had denied the refuge to us
and the clouds were bursting out of nowhere
And today yet again – after so many ages
we have met at Gloria Jeans
and like always you don’t even know
that we live in the same housing society
We have no history, no geography
just one civic center and
a necropolis
and in Gloria Jeans
the time has not come to a standstill
it is striding on a lightening pace…!!!
(English translation by Kamran Awan)