افسانوی نگاہ سے ہم اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر انسان ایک چلتی پھرتی کہانی نظر آئے گا، ایسی کہانی جو اپنا ایک رنگین قالب رکھتی ہے، انسان اور کہانی کے اس مشترک پہلو پر مزید غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ایک انسان اپنی سوسائٹی کے دیگر انسانوں سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہے اسی طرح ہر انسان کی کہانی کا رنگ بھی دوسرے انسانوں کی کہانیوں کے رنگ سے مل کر ایک نیا رنگ بنا رہا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے اور غالباً یہ ہی زندگی کی اصل رنگا رنگی ہے، انفرادی سطح پر اس رنگا رنگی کو ہم کسی شخص کے عام حالات زندگی کے ذریعہ جان سکتے ہیں،اور جب ہم اس کو جاننے کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہمیں ہر ہر قدم پر اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ہر انسانی زندگی اپنے عمومی رویہ کی بنیاد پر کتنے رنگوں سے سجی ہوئی ہے، ایک واقعہ، ایک عمل،ایک لمحہ اور ایک زندگی جیسے کئی آئینوں سے یہ رنگ مترشح ہیں، جو ہر اس شخص کو بہ آسانی نظر آ جاتے ہیں جو اپنے عہد کو بصیر ت کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔کبھی یہ رنگ ترش اور تیکھے ہو جاتے ہیں تو کبھی انگبین آمیز،مگر ان کا سب سے قبح پہلو یہ ہے کہ ان رنگوں کو کسی طرح قید نہیں کیا جا سکتا،یہ ایک ٹکڑاءِسحاب کی مانند نظروں کے تاریک کونوں سے زمانے کی افق پر ابھرتے ہیں اور زندگی کے آسمان پر سے ہوتے ہوئے پھر اس کی تاریکی میں کہیں گم ہوجاتے ہیں،حالاں کہ ان رنگوں کی آمد و رفت کا یہ سلسلہ مستقل جاری ہے،پر زمانی اعتبار سے ان میں تغیر پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک عہد،دوسرے عہد کی رنگین بیانوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ بظاہر تو ابھی تک ایسا کوئی فتراک ہمارے علم میں نہیں جس میں اس نخچیر کو محفوظ کیا جا سکے،لیکن حضرت انسان نے اپنے طور پر ان رنگوں کو قید کرنے کے کئی آئینے بنائے ہیں، جن میں مجھے سب سے بہتر اور شفاف چہرا اس انفرادی اظہاریہ کا نظر آتا ہے جس میں ہر انسان اپنے عہد اپنے معاشرے اپنے گرد و نواح اور اپنی کہانی کے رنگین کرداروں کو قلم بند کر کے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے اورجس کو ادبی اصطلاح میں خودنوشت سوانح بھی کہا جاتا ہے۔

***

‘گردش پا’اردو کی ان چند ایک ‘خود نوشتوں’ میں شمار کی جا سکتی ہے جس میں سچ اور جھوٹ بیان کرنے کی کشکمش نظر نہیں آتی،ہمارے یہاں خود نوشت لکھنے کا معیار اتنا پست ہے کہ کسی بھی خودنوشت میں زندگی کی باریک اور پیچیدہ حقیقتوں کا ذکر اس کی اصل صورت میں نظر نہیں آتا۔ اردو کا خودنوشت لیکھک ایک عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا رہتا ہے، وہ سچ کو سچ بنانے اور جھوٹ کو خوبی سے بیان کرنے کے بھنور میں اس طرح پھنسا رہتا ہے کہ نہ سچ کو سچ کی طرح بیان کر پاتا ہے اور نہ جھوٹ میں افسانوی رنگ بھر پاتا ہے۔ اردو کی خود نوشتوں کا یہ عالم ہے کہ اس کے توسط سے اس صنف کے قاری کو زندگی کرنے کے ہنر کو پرکھنے والی آنکھ کا استعارہ نصیب نہیں ہوپاتا،جس کی وجہ سے زندگی کو ایک میکانکی عمل سمجھ کر گزارنے کا سبق اردو کی خودنوشتوں سے اسی طرح ملتا ہے جس طرح ایک مولوی اپنی درس گاہ میں بستی کے غریب بچوں کو پڑھاتا ہے۔ میں اگر یہ کہوں تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ اردو میں بہت کم ایسی کتابیں ہیں جن کو صحیح معانی میں خود نوشت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو میں خودنوشت کے نام پر حکایات سعدی پڑھانے کا رواج عام ہے۔ خود نوشت سوانح لکھنا جتنا آسان معلوم ہوتا ہے یہ واقعہ ہے کہ یہ امر اتنا ہی مشکل ہے۔ اپنی بات اور وہ بھی ایسی اپنی جو اپنے ہی ساتھ اور اپنے اوپر گذری ہو اس کا بیان افسانہ، ناول اور داستان لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یہ ایک نفسیاتی پریشانی ہے کہ ہر انسان اپنے تئیں بہت زیادہ ایمان دار نہیں ہوپاتا۔ اس لئے وہ اپنے معاملات سے دیگر اشخاص کے مقابلے میں خود جس طرح کے نتائج اخذ کرتا ہے وہ کافی حد تک غیر معتبر ہوتے ہیں۔ کسی واقعہ اور حادثے کا ہم پر گزرنا اور اس واقعہ کو اپنے زاویہ نگاہ سے بیان کرنا،دوسرے پر گزرے ہوئے کو بیان کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے، خود نوشت میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہی ہے کہ یہ خود نوشتہ ہے، اس لئے اس میں واقعات کا بیان بھی خود ساختہ اور خود آراستہ بن کر سامنے آتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اپنی کہانی کا مرکزی کردا ر خود میں ہوں۔ اس لئے اب میں جب اپنے معاملات کو بیان کروں گا،تو مجھے اس کی صحیح تصویر سامنے لانے کی جرات خود مجتمع کرنا پڑے گی، اورمجھے اپنے تئیں یک گنا سفاک بھی ہونا پڑے گا، سچ کو لغوی معنی سے بر تر ہو کر سچ کی طرح اور جھوٹ جو کہ ہر انسان کی سرشت میں شامل ہے اس کو داستانی رنگ میں بیان کرنا ہوگا۔ یہ ایک کڑا امتحان ہے۔ کیوں کہ اکثر اوقات انسان اپنی زندگی کا سچ او ر اپنی زندگی کے افسانوی جھوٹ کو بیان کرنے میں اصل واقعہ حذف کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے واقعہ کی اصل نوعیت اپنا دم توڑ دیتی ہے، سچ کو سچ کی طرح بیان کرنے میں تو خواہ کچھ لوگ کامیاب ہو جائیں لیکن ہماری زندگی کے بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جن کو بیان کرنے کا تصور بھی سفاک سے سفاک ادیب کی انگلیوں میں ارتعاش پیداکر دیا ہے۔

گردش پا کو پڑھنے کے بعد اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ زبیر رضوی کو اس کشمکش نے کہیں گھیرا نہیں ہے، انہوں نے جو کہا ہے اس سے ایک زندگی کی ایسی تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے کہ آپ اس تصویر کے تمام رنگوں کا الگ الگ انداز میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ گرد ش پا میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ میں اس بات کا فیصلہ تو نہیں کر سکتا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ ااگر اس میں کچھ جھوٹ شامل بھی ہے تو وہ سچ نما کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ زیبر صاحب کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ایسے واقعات جن کو انسان خود سے بھی چھپاتا ہے،ان کو بھی بے دریغ بیان کر دیا ہے۔ حالاں کہ میں نے ان واقعات کو یک بارگی شک کی نگاہوں سے بھی دیکھا اور اس میں افسانوی رنگ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ مجھے ان کے ایسے واقعات میں جن میں بلا کی جرات موجود ہے ایک ایسا رنگ نظر آیا جو گڑھا ہوا تو ہر گز نہیں ہو سکتا۔

زبیر صاحب ایک اچھے نظم نگار ہیں جس بات کی اطلاع ان کی نثر پڑھنے سے بھی ملتی ہے۔ مجھے گردش پا کا مطالعہ کرتے وقت جگہ جگہ اس بات کا احساس ہوا کہ اس داستان کا یہ حصہ اگر منظوم نما نہ ہو کر منظوم ہوتا تو زیادہ بھلا معلوم ہوتا۔ زیبر صاحب جملہ تراشی کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں،یہاں جملہ تراشنے سے میری مراد جملہ کی اختراع و ایجاد کرنا ہے۔ گردش پا میں بہت سے ایسے جملے ہیں جو زبیر صاحب کی تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ گردش پا ایک ایسی کتاب ہے جس کو اردو زبان کی خود نوشت سوانحی کتب میں بالیقین شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ یہ خود نوشت سوانح کے اجزائے ترکیبی کو ترتیب وار انداز میں پرو کر تحریر کی گئی ہے، بلکہ اس لئے کیوں کہ اس میں زندگی کے ان معاملات کو بیان کیا گیا ہے جو ایک پژ مردہ اور افسردہ انسان کو زندہ رہنے کا حوصلہ بخشنے اور اس کو زندگی کرنے کا عمل سکھاتی ہے۔ یہ اس خود نوشت اور خود نوشت نگار کی سب سے اہم بات ہے کہ ان دونوں میں جس قدر بے باکی اور آزادہ روی پائی جاتی ہے اتنی ہی نستعلیقیت اور اصول پسندی بھی نظر آتی ہے۔ میرے نزدیک گردش پا اردو کی ان چند ایک کتب میں شمار ہے،جس پر نارنگ صاحب کا یہ اقتباس کھرا اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو انہوں نے1959ء میں’ شام موہن لال جگر بریلوی’ کی خود نوشت سوانح ‘حدیث خودی’کے لئے لکھاتھا،

ساری کتاب میں ایک لفظ غیر ضروری یا زائد نہیں۔سیدھا صاف انداز بیان جس میں دلکش محاورے کہیں کہیں لطف دے جاتے ہیں۔فقرے مربوط ہیں جیسے کوئی بالمشافہ گفتگو کر رہا ہو۔کہیں گنجلک یا ژ ولیدہ بیانی نہیں۔پھر الفاظ کا انتخاب ایسا مناسب اور معقول کہ بات دل میں اتر جائے اور کہنے والا بھی خود نمائی کے خطروں سے صاف دامن بچا جائے۔جو کچھ لکھا ہے،جذباتیت سے ہٹ کر لکھا ہے۔بے ہنگم عبارت آرائی نام کو نہیں۔جو بات کہنا چاہی ہے،سوچ سمجھ کر کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے ز یادہ صاف کہی ہے(الخ)۔پوری کتاب میں کہیں کوئی جھول محسوس نہیں ہوتا۔ایک ایک جملہ طبیعت حاضر کر کے اور جی ٹھو نک کے لکھا ہے۔

)صفحہ نمبر: 544،حدیث خودی:ایک خود نوشت سوانح عمری،کاغذ آتش زدہ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (

یہ واقعہ ہے کہ مجھے یہ جملے جگر بریلوی کی خود نوشت سوانح’حدیث خودی ‘ سے زیادہ ’زبیر رضوی کی ’گردش پا ‘ کے متعلق درست معلوم ہوتے ہیں۔اب میں یہاں دلیل کے طور پر زبیر صاحب کی خود سوانح کے چند ایک جملے تحریرکر رہا ہوں جن سے اس کتاب کی سادگی،نغمگی اور تخلیقیت مترشح ہے۔

*ہم سب انار کی طرح پھوٹتی ہوئی ہنسی کو اندر ہی اندر گھونٹ رہے تھے۔

*انہیں اس بات کا پوری طرح احساس تھا کہ ہندوستان کے ایک ایسے شاہزادہ کے دربار میں ناچ رہی ہیں جہاں ہوا بھی بدن چرا کر گزرتی ہے۔

* ہر موسم میں دھیرے دھیر ے سانس لینے والا لداخ کا شہر لہیمہ میں نے پہلی بار دیکھا۔

*دلی نے آہستہ سے میرے کان میں کہا چھوڑ آئے الف لیلہ جیسی جادو نگری ؟؟

*مجھے آپا جان کا وجود کبھی مٹی تو کبھی آگ کا بنا ہوا لگتا، جب کبھی میں انہیں نہاتا ہوا دیکھ لیتا تو مجھے لگتا جیسے کوئی چولھے میں جلی ہوئی لکڑی کو پانی سے بجھا نے کی کوشش کر رہا ہو۔

*مجھے لگا جیسے آپا جان نے اپنے سفید دوپٹے کو لال رنگ سے رنگ لیا ہے۔ ان کے سفید رنگ کو نہ جانے کیسے گلابی رنگ کی یاد آگئی تھی۔ مجھے محسوس ہوا آپا جان کا وجود مٹی سے آگ بنتا جا رہا ہے،
*

لکشمی اکثر پیپر مینٹ جیسی گولیاں چوستی رہتی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگی مجھے پیاس لگتی ہے۔ ان گولیوں کو چوسنے سے پیاس نہیں لگے گی۔ لکشمی کی دی ہوئی گولیاں اب میں بھی چوسنے لگا تھا کیوں کہ لکشمی کے کہنے پر مجھے بھی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ مجھے بھی بہت پیا س لگنے لگی ہے۔

*مجاز کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا جیسے ساری نئی اردو شاعری سے ہماری ملاقات ہو گئی۔

عین ممکن ہے کہ یہ جملے آپ کو الگ سے وہ مزا نہ دے پائیں جو مزا انہوں گردش پا کی نثر کے بہتے دریا میں غوطہ زنی کے بعد مجھے دیا، اور ممکن ہے کہ گردش پا کے مطالعہ کے بعد بھی یہ جملے کسی کو متاثر نہ کریں،لیکن میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ گردش پا کی مسلسل قرات کے دوران ان جملوں پر میرے بدن میں ایک لہر سی دوڑ گئی جس کے لطف سے کچھ اچھی کتابوں کے قاری ہی واقف ہیں۔

Leave a Reply