زمانہ طالب علمی میں چھانگا مانگا کے جنگلوں میں جانے کااتفاق ہواتھا۔ وہاں ایک خوش قامت پرندے کے غول نظر آئے۔ ایک تو وہ عمر ہی حیرانی کی تھی دوسرے ہم جماعتوں کے ساتھ سیر کی شوخی، ہر شے حسین نظر آرہی تھی۔ وہ پرند ہ فی الحقیقت حسین تھا یا نہیں، اس کے جملہ عادات و خصائل سے بھی واقفیت نہیں تھی لیکن وہ دل کوبھاگیاتھا۔ یہ تھا گدھ سے میرا پہلاتعارف، حالانکہ یہ پتا چلنےکےبعد کہ یہی موصوف وہ مشہور و معروف سفاک مردار خور ہیں جو جاں بلب جاندار کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں اور آخری ہچکی کے ساتھ ہی چن چن کے ماس کھا جاتے ہیں۔ کیا کہیے اس پہلی نظرکا کہ جس نے اس پرند کے لیے ایسا نرم گوشہ پیدا کردیاتھا جو ان کی ہر خطا کو حسن کی اداقرار دے رہاتھا۔ عام زندگی میں بھی ہمارا یہی معاملہ ہے۔ ہم اپنی پہلی پسند، پسند کے پیمانوں اور محبوب کی جفاکاریوں کو حسن کی اداؤں کا نام دے کر سات خون معاف کر دیتے ہیں۔ ان محبوب ِنظر افراد میں منی لانڈرنگ کی مجرمہ ایان علی ہوں یا فٹ پاتھ پہ سوئےغریبوں پر گاڑی لے کر چڑھ دوڑنے والے سلمان خان، اکثر زیرو پہ آؤٹ ہونے والے شاہد آفریدی ہوں یا کینیڈا پلٹ شیخ الاسلام، اور حسن نظر کو داد دیجیے کہ اس کیٹیگری میں پی پلاکر بیان دینے والے الطاف بھائی بھی آتے ہیں، سب کی پگڑیاں اچھالتے کپتان صاحب بھی اور کھابے اڑانے والے معززوزیراعظم صاحب بھی۔
ایک گدھ جاتی مرد کی بھی کہی جاتی ہے۔ ہر عورت جانتے بوجھتے کہ وہ آوارہ ہے، ہرجائی ہے، بھنوراہے سودائی ہے اس کی تمام تر فریب کاریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے خود کو یہی یقین دلائے جاتی ہے کہ نہیں وہ تو مجھ پہ مرتاہے، ہاں پیار مجھی سے کرتاہے، میری خاطر جگ سے لڑتاہے، اور یہ جہاں تو پیار سے جلتاہے
ایک گدھ جاتی مرد کی بھی کہی جاتی ہے۔ ہر عورت جانتے بوجھتے کہ وہ آوارہ ہے، ہرجائی ہے، بھنوراہے سودائی ہے اس کی تمام تر فریب کاریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے خود کو یہی یقین دلائے جاتی ہے کہ نہیں وہ تو مجھ پہ مرتاہے، ہاں پیار مجھی سے کرتاہے، میری خاطر جگ سے لڑتاہے، اور یہ جہاں تو پیار سے جلتاہے۔ یہ دل بھی تو دغادے جاتاہے، دماغ لاکھ خطرے کے سائرن بجائے دل اسی کو سوچےجاتا اور اس کی ہر برائی پر پردہ ڈالے چلاجاتا ہے۔ مدت ِعمر خواہ 60 سال ہو اس کی بانہوں میں گزارے 60 منٹ کے آگے ہیچ لگتی ہے، لگتا یہی ہے وعدوں تسلی دلاسوں کے سہارے عمر کٹ جائے گی۔ عمر تو نہیں کٹتی ، دل کی پتنگ کٹ جاتی ہے اور محبوب نئی ڈور باندھ، عشق پیچے کہیں اور لڑانے لگتا ہے۔
جیسے اس دور پرفتن میں ہر شبدکے معنی بدل گئے ہیں، بعینہ عورت مرد کے کردار بھی بدلتے چلے گئے ہیں۔ اب ہرجائی، پارہ صفت، ہمہ جہت اور گدھ جاتی کی علمبردار عورت بھی نظر آتی ہے۔ گھریلو خواتین حقوق غصب کرنے اور ہرصورت اپنے مفادات کے تحفظ میں ہرجائز و ناجائز طریقے سے کوشاں نظر آتی ہیں۔ ملازمت پیشہ مرد افراد اپنے ساتھ کام کرنے والی گدھ جاتی کی خواتین سے اکثر خائف نظر آتے ہیں ۔ یہاں مردجاتی کو مات دیتے، تنخواہوں میں خطیر اضافے، دیگر مراعات، اور ڈبل پروموشن جیسے فوائد محض اپنی اداؤں اور حسن کے بل پر وصولتے ہوئے خواتین گدھ جاتی نمایاں نظر آتی ہے۔ کاسمیٹکس کی دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد بالخصوص، حسن کے جملہ کیل کانٹوں سے لیس اور اپنی اداؤں سے دنیا کو اپنے اشاروں پہ نچاتی یہ خواتین بیک وقت مردوں کے دلوں پہ بھی چھریاں چلاتی ہیں اور معاش پر بھی۔ یہ خواتین دیگر خواتین کی بدنامی اور حق تلفی کی وجہ بھی بنتی ہیں،ان کی آمد پر بانہیں، بانچھیں اور کہیں کہیں دھوتیاں بھی کھل جاتی ہیں ان کے جاتے ہی زبان ان کے لیے مغلظات سے پُر ہوجاتی ہے۔ گدھ جاتی کی صفات والی یہ خواتین بعض اوقات صرف مراعات اور ترقی تک محدود نہیں رہتی بلکہ گھر ، زمین، جائیداد تک اپنے نام کروالیتی ہیں یا نیلامی تک لےجاتی ہے ۔ کسی اخلاقی بھاشن میں پڑے بغیر یہ ضرور عرض کریں گے کہ خواتین کی یہ محدود لیکن ازحد خطرناک گدھ جاتی کچھ فوائد حاصل بھی کرتی ہے تو اس کے ذمہ دار یہ بوڑھے مردگدھ خود بھی ہوتے ہیں جو اپنی جاتی جوانی اور عمر رفتہ کو آواز دینے کی ناکام کوشش کرتے ان چڑھتی جوانیوں کی بانہیں تھامے ان کی فرمائشوں پر نثار بربادی کے زینے کی اور بڑھتے جاتے ہیں۔
سیاسی ہمدردیاں وصولنی ہوں یا مخالفین پر الزام تراشیاں، ووٹوں کی تعداد بڑھانی ہو یا مقبولیت کا گراف، کہیں بھتے کے حصول کے لیے ہراساں کرنا ہو، یا بزور اپنے مطالبات منوانے ہوں، بہرصورت خون ضروری ہے
کئی چھوٹی چھوٹی اور محدود پیمانے پر اپنے کارنامے دکھاتی گدھ جاتیاں اور بھی ہیں جو کم تولتی، مہنگا بیچتی اور منافع خوری کرتی ہیں۔ کہیں ملاوٹ کرتی ہیں تو کہیں ذخیرہ اندوزی، کہیں گھٹیا مال کی تیاری تو کہیں دونمبری۔ تف یہ کہ یہ چھوٹی گدھ جاتی خوراک کے نام پر گھوڑے گدھے کتے تک کاٹ کر ان کا گوشت کھلا دیتی ہے۔ یہ محدود گدھ جاتیاں مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں اور اپنے اپنے پیشوں میں گل کھلاتی نظر آتی ہیں۔ طب میں یہ جاتی مریضوں کو ناقابل تلافی جسمانی ہی نہیں معاشی نقصان سے بھی دوچار کردیتی ہے۔ وکالت کا پیشہ ہو، پولیس کامحکمہ ہو، کنسٹرکشن ہو یا تعلیم، یا اور کوئی حرفہ پیشہ ہر جگہ ہی کسی نہ کسی گدھ جاتی سے سابقہ پڑتا ہی رہتا ہے۔
قیام پاکستان کے فورا ً بعد ایک گدھ جاتی وجود میں آئی تھی اور اب تک اس کے مردہ ہوتے اداروں کو کھارہی ہے ۔ یہ گدھ جاتی جو اکثریت بوڑھے گدھوں ( اسے گ کے ساتھ زیر لگاکر نہ بھی پڑھیں تو معنی مزید روشن ہونے کا امکان ہے) پر مشتمل ہے وہ ارباب ِ سیاست کی ہے۔ یہ جاتی جوان خون کی پیاسی ہے؛ نوجوانوں کے خون سے اس کی جوانی بحال ہوجایاکرتی ہے۔ بچپن میں ایک دیومالائی افسانوی کردار کے بارے میں پڑھاتھا جسے ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نوجوان کا خون درکار ہوتا ، اور وہ اسے پی کر ازسرنو جوان ہوجاتا تھا۔ یہ سیاسی گدھ بھی ایسی ہی خونی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی ہمدردیاں وصولنی ہوں یا مخالفین پر الزام تراشیاں، ووٹوں کی تعداد بڑھانی ہو یا مقبولیت کا گراف، کہیں بھتے کے حصول کے لیے ہراساں کرنا ہو، یا بزور اپنے مطالبات منوانے ہوں، بہرصورت خون ضروری ہے۔ سیاسی جماعت کے درخت کو پھلنے پھولنے، نئی کونپلیں پھوٹنے، پتے اور شاخوں کے بڑھانے کے لیے اس کی جڑوں میں خون ڈالا جاتا ہے، نوجوان ، گرم ، اپنے قالب میں مچلتا لہو۔ یہ سیاسی گدھ جاتی جس میں اکثریت کے نہ منھ میں دانت ہیں نہ پیٹ میں آنت، بس اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس میں جیے جاتے ہیں۔ یہاں نوجوان قیادت کا نعرہ لگانے والے بھی ساٹھ کے پیٹے میں ہواکرتے ہیں۔ سیاسی گدھ جاتی کے اغراض و مقاصد عموما وہ نہیں ہوتے جو ان کے منشور میں لکھے جاتے ہیں بلکہ ان کا مقصد محض وہ ہاتھوں کا میل سے ہوتا ہے جو سوئٹزرلینڈ اور دیگر ملکوں کے بینکوں میں جمع ہوتاہے۔
یہ جو ہم شخصیت پرستی میں آگے بڑھتے جاتے ہیں اور ذاتی پسند ، انفرادی مفادات اور اپنی سوچ کو اولیت دیتے اور اور رنگ نسل زبان فرقہ پرستی جیسے عوامل کو اجتماعی بہبود پر ترجیح دیتے ہیں اس صورت میں ان گدھ جاتیوں کو ہمیں اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کا موقع مل جاتاہے
عرصہ پینتیس سال سے ایک اور گدھ جاتی بھی بہت مشہور و مقبول ہوئی ہے۔ موجود تو پہلے بھی تھی لیکن جب اسے سرکاری سرپرستی ملی تو اس نے بھی اپنے قدم جمانے میں دیر نہیں لگائی۔ یہ گدھ جاتی اپنی نوعیت میں مذکورہ بالا تمام گدھ جاتیوں سے زیادہ بااثر اور خطرناک ہے۔ جہاد فی القتال اور قتال فی سبیل اللہ کے نعرے کے ساتھ کھڑی ہونے والی یہ جاتی اپنے سوا کسی دوسرے کو برداشت کرنے کی عادی نہیں۔ جہاں کہیں نظریے یا سوچ کا اختلاف نظرآئے یہ اسے کفر قرار دے کر حامل نظریہ کو واجب القتل ٹھہرا دیتی ہے،اس جاتی کا اہم ہتھیار مذہب ہے۔ چونکہ ملک و قوم میں معاشی و معاشرتی مسائل کی فراوانی و بہتات ہے لہذا ان سے نبردآزما ہونے کے لیے افراد معاشرہ نے مذہب کا انتظام ایک شخص کے سپرد کردیا تھا جو پیدائش نکاح اور اموات کے سارے امور انجام دیتا۔ اب اس شخص کو کیا سوجھی کہ اس نے لوگوں کی سوچ اور جیبوں ہی پہ نہیں زندگیوں پہ بھی قبضہ جمالیا۔ کہاں اسے محض مذہبی اختیارات دیے گئے تھے اب اس نے بزعم خود موت کا اختیار بھی لےلیا، اور ساتھ ساتھ کافر، مرتد، واجب القتل اور دوزخی جیسے ٹیگز بھی الاٹ کرنے شروع کردیے۔
یہ تمام گدھ جاتیاں نا یونہی وجود میں آئی ہیں اور نا ہی زبردستی مسلط کی گئی ہیں۔ یہ سب سراسر ہماری پسند اور ہماری جابےجا انتہاپسندی کی وجہ سے ہیں۔ یہ جو ہم شخصیت پرستی میں آگے بڑھتے جاتے ہیں اور ذاتی پسند ، انفرادی مفادات اور اپنی سوچ کو اولیت دیتے اور اور رنگ نسل زبان فرقہ پرستی جیسے عوامل کو اجتماعی بہبود پر ترجیح دیتے ہیں اس صورت میں ان گدھ جاتیوں کو ہمیں اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کا موقع مل جاتاہے۔ یاد رکھیے! وقتی فائدے کے لیے ان گدھ جاتیوں کے قریب مت جائیے کہ آخر کار خسارہ ہی مقدر ہوگا اور اجتماعی نقصان جو ملک و قوم کو جھیلنے پڑ رہے ہیں ان کا بار بھی ضمیر پر رہے گا۔
3 Responses
طنزیہ اور کاٹ دار لفظوں کے عمدہ چناؤ کے ساتھ ہماری معاشرتی حالت اور رویوں کو بیان کرتی ہوئی فکر انگیز تحریر۔
ایک ایک جملہ تلخ حقیقت پر مشتمل وہ نوک دار تیر ہے جو سینے میں کھبے چلا جاتا ہے۔
بہت عمدہ ۔۔۔