[blockquote style=”3″]
ادارتی نوٹ: عرفان شہزاد کا تحریری سلسلہ ‘مفتی نامہ’ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مذہبی طبقات اور عام عوام کے مذہب سے متعلق معاشرتی رویوں پر ایک تنقید ہے۔ اس تنقید کا مقصد اس شگفتہ پیرائے میں آئینہ دکھانا ہے جو ناگوار بھی نہ گزرے اور سوچنے پر مجبور بھی کرے۔
[/blockquote]
مفتی نامہ کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
مفتی نامہ قسطر نمبر-3
مفتی صاحب کے پاس ایک ہی سانچا ہے جس میں وہ سبھی کو ایک ہی شکل، ایک ہی رنگ اور ڈھنگ میں ڈھالنے کے چکر میں کیسے کیسے جواہر، کیسے کیسے نوادر، کیسے کیسے باصلاحیت ردی کر کے پھینک چکے ہیں۔
مفتی صاحب کے ہاں مساوات کا عجب عالم ہے، گدھے گھوڑے سبھی ایک چھڑی سے ہانکتے ہیں۔ ان کی بارگاہ میں اندھے اور بینا بھی ایک ہی صف میں آ کھڑے ہوتے ہیں کہ سبھی کو آنکھیں بند کیے ایک ہی قطار میں مرغا بنے مفتی صاحب کی عنایات کی مار اپنی تشریف پر برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ مفتی صاحب کے پاس دین اور علمیت کاایک ہی سانچا ہے جس میں وہ سبھی کو ایک ہی شکل، ایک ہی رنگ اور ڈھنگ میں ڈھالنے کے چکر میں کیسے کیسے جواہر، کیسے کیسے نوادر، کیسے کیسے باصلاحیت ردی کر کے پھینک چکے ہیں۔ کسی کے سوالات ان کے علم سے لمبے نکل آئے تو جھٹ بزرگی کی قینچی اٹھا کر مختصر کر دیئے، کوئی ان کے حافظے سے دراز قد ثابت ہوا تو جھٹ اپنی انا کی آری سے اسے کاٹ کر اپنی مرضی کا کر کے چھوڑ دیا، کبھی بالشت بھر بھی کسی کاجواب بہتر نکل آیا تو قنوطیت کے چاقو سے تراش کر بد شکل کر دیا۔ ایسی بھٹی سے نکلنے والے قدماء کی غلطیوں کو بھی مقدسات میں شامل نہ کریں تو کیا کریں۔ ایسی پنیری کی پود گھنے درختوں کے سائے تلے سوکھ نہ جائے تو کیا ہو؟ ایسے کارخانوں کے پُرزے اصل کی نقل کے سوا کیا ہوں گے؟ علم کیا ہے، جستجو کس چڑیا کا نام ہے، تحقیق کیا بلا ہے، تجدید اور تحریف کس قدر زرخیز ہیں یہ بچارے کیا جانیں گے؟ یہی دیکھا کیے کہ مفتی صاحب کے ہاں سے جو بھی نکلا وہ مفتی صاحب کا ہی ایک چربہ لگا، جو بھی ان سے فیص یاب ہوا انہی کے پیچھے صف باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ بہت سے تو ایسے بھی تھے جو اس جمود کو ہی حقیقت مطلق سمجھ کر قانع ہو گئے اور کہیں کسی جگہ، کسی نہ کسی مسجد میں مفتی صاحب کی ٹکسال کے ہی سکے ڈھالنے لگے۔۔۔۔۔ اور کچھ تھے جو سرے سے اس سب بندوبست سے ہی بیزار ہو گئے۔ ایک ہمارے مفتی صاحب ہی کیا، تقریباً ہر جگہ دین کا “کام” ایسے ہی غیر دلچسپ، غیر تخلیقی اور بے معنی انداز سے کیا جا رہا ہے۔ جو خود رٹا وہی طلبہ کو رٹا دیا، جو خود سمجھ نہیں آیا اسے سمجھے بغیر یاد کر لیا اور کرا دیا۔
حافظ صاحب کی اس تحلیل نفسی نے مجھے سمجھا دیا کہ مدارس کی اس شدت پسندی اور دوسروں کے لیے اتنی باافراط نفرت کی آخر وجہ کیا ہے۔
مفتی صاحب کے ہاں طرح طرح کے، قسم قسم کے، ہر قماش کے ہر قبیل کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ کئی تو ان کے ہاتھوں ہی ان کی شخصیت کی ایک نقل بن کر رہ جانے والے وہ طلبہ تھے جو عقیدت کو فرض سمجھ کر سبھی کچھ سہتے رہے تھے اور “جیسے پڑھے ہیں ویسے ہی پڑھائیں گے” کے مفتیانہ طریق کے سالک تھے اور کچھ وہ تھے جو اس سب سے الگ تھلگ بس دن کاٹ رہے تھے۔ ہمارے مدرسے کے ایک ساتھی جو مفتی صاحب کے ہاتھوں ہی سے گزر کر حافظ ہوئے تھے نہایت خوش الحان تھے۔ یوں تو ان میں کبھی کوئی برائی نہ دیکھی نی ان کے بارے میں کبھی کسی سے کچھ ایسا ویسا سنا لیکن قرآن پاک کا زیادہ احترام نہیں کرتے تھے۔ ایک روز مفتی صاحب کے ہاں چند انتظامی مسائل کے باعث جانا ہوا تو دیکھا مفتی صاحب موجود نہیں، البتہ ہمارے مذکورہ حافظ صاحب ان کی جگہ بیٹھے ہیں۔ معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کسی کام سے گئے ہیں اور اپنے آنے تک انہیں “نگرانی” کا کام سونپ گئے ہیں۔ باتوں باتوں میں ذرا کھل گئے تو اپنے دل کی بات سنانے لگے۔ بولے ہم حفاظ کو (اللہ معاف کرے) قرآن سے وحشت ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو اس کے حفظ کے لیے ہمیں بچپن کی معصوم عمر میں زدوکوب کیا جاتا ہے، ذلیل کیا جاتا ہے، گھروں سے دور رکھا جاتا ہے، استاد کی ہر جائز اور ناجائز ماننی پڑتی ہے بلکہ بہت “ناجائز والی” بھی ماننی پڑ جاتی ہے۔ بچپنے کی عمر میں جس چیز کی وجہ سے اتنا کچھ سہنا پڑے اس سے محبت و عقیدت کیسے ہو سکتی ہے؟
حافظ صاحب کی اس تحلیل نفسی نے مجھے سمجھا دیا کہ مدارس کی اس شدت پسندی اور دوسروں کے لیے اتنی باافراط نفرت کی آخر وجہ کیا ہے۔
Image By: Asad Fatemi
One Response
Good ,interesting and informative article for building up healthy mindset .