اب ریپ کرنے والوں کے پاس عورتوں کو ریپ کرنے کے لیے ایک اور جواز ہے، آپ انہیں گائے کا گوشت کھانے پر بھی ریپ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے مردوں کے پاس شاید کافی جواز نہیں تھے کہ وہ عورتوں کو ریپ کر سکیں۔ اس سے پہلے مرد صرف عورتوں کو ان کے لباس، ان کے گھر سے باہر نکلنے، اکیلے ہونے، ان کے مذہب، ان کے بیٹوں، بھائیوں اور باپوں کی سرگرمیوں اور ان کے صرف عورت ہونے کی وجہ سے ریپ کر سکتے تھے، لیکن اب انہیں گائے کا گوشت کھانے والے مذہب سے ہونے کی وجہ سے بھی ریپ کیا جا سکتا ہے۔ بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ہریانہ کے ضلع میوات (ہندوستان) میں دو خواتین کو ریپ کیا گیا۔ ریپ کرنے والوں کا کہنا تھا "تم لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہو اس لیے تمہیں بے عزت کر رہے ہیں۔” تفصیلات کے مطابق اس واقعے کے ذمہ داران کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پہلے مرد صرف عورتوں کو ان کے لباس، ان کے گھر سے باہر نکلنے، اکیلے ہونے، ان کے مذہب، ان کے بیٹوں، بھائیوں اور باپوں کی سرگرمیوں اور ان کے صرف عورت ہونے کی وجہ سے ریپ کر سکتے تھے، لیکن اب انہیں گائے کا گوشت کھانے والے مذہب سے ہونے کی وجہ سے بھی ریپ کیا جا سکتا ہے۔
ریپ کے لیے جواز تلاش کرنے کی نفسیات شاید ہمارے اس ماضی کی وراثت ہے جہاں دشمن کی عورتیں مال غنیمت کے طور پر اٹھائی جاتی تھیں۔ یہ اس سماجی ڈھانچے کی بھی پیداوار ہے جہاں عورت کی افادیت محض اس کے جنسی طور پر پر کشش ہونے اور جنسی عمل کے نتیجیے میں پیدا ہونے والے بچوں کی مدد سے طے کی جاتی تھی۔ یہ ان اقدار کا بھی عملی اظہار ہے جو عورت اور خاندان کی عزت کو محض جنسی تعلقات کے پیمانے پر پرکھتی ہیں۔ ریپ کو ایک انتقامی کارروائی، جنگی حربے اور نفرت آمیز جرم کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اور اس عمل کے لیے مختلف جواز تلاش کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ سوچے سمجھنے بغیر کہ آخر کس طرح ایک جرم کے لیے کوئی بھی جواز پیش کیا جا سکتا ہے اور کس طرح ریپ کو ریپ کرنے والے کی بجائے ریپ کا شکار ہونے والی کا قصور قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ریپ کی وجوہ کو سمجھنےاور دور کرنے پر بحث کرنے کی بجائے ریپ کے لیے اپنائے گئے جواز پر بحث کرتے ہیں، یعنی بحث یہ نہیں ہوتی کہ ریپ کرنے والے نے ریپ کیوں کیا، بلکہ بحث یہ ہوتی ہے کہ ریپ کرنے والا ریپ کرنے پر ‘مجبور’ کیوں ہوا، کیا ایسا عورت کے لباس کی وجہ سے ہوا، عورت کے اکیلے گھر سے نکلنے کی وجہ سے ہوا، مرد اور عورت کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے ہوا وغیرہ۔ ہمارا معاشرہ خواہ وہ ہندوستان ہو یا پاکستان ہر جگہ ریپ پر کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم ریپ کا شکار ہونے والی عورت کو اپنی زندگی کسی بھی اور جرم کا شکار ہونے والے فرد کی طرح معاشرے میں دوبارہ ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارنے کا موقع بھی فراہم نہیں کرتے۔ یہ نہایت گھناونی بات ہے کہ ہمارے ہاں ‘عزت’ کی خاطر جان قربان کرنے کو مستحسن خیال کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس سے بھی گھناونا عمل ہے کہ ریپ کرنے والوں کو معاشرہ طرح طرح سے تحفظ دیتا ہے۔ یہ تحفظ ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ مختلف حالات میں ریپ کرنے کا حق دینے کا تحفظ ہے؛ کبھی جنگ کے دوران قابو آنے والی لونڈیوں کے ساتھ زبردستی جنسی عمل سرانجام دینے کا جواز پیدا کیا جاتا ہے، کبھی ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ اس کی رضامندی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنے کو درست کہا جاتا ہے۔
یہ نہایت گھناونی بات ہے کہ ہمارے ہاں ‘عزت’ کی خاطر جان قربان کرنے کو مستحسن خیال کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس سے بھی گھناونا عمل ہے کہ ریپ کرنے والوں کو معاشرہ طرح طرح سے تحفظ دیتا ہے۔
لیکن کیا ریپ کا کوئی بھی جواز ہو سکتا ہے اور کیا کسی بھی صورت حال میں ریپ کرنے والے کے عمل کو ایک گھناونے جرم کی بجائے کچھ اور قرار دیا جا سکتا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ نہیں۔ یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ آپ ریپ کرنے والے کے عمل کا جواز ریپ کا شکار ہونے والے کے عمل میں تلاش کریں۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ریپ کی ذمہ داری عورت پر ڈال کر اس جرم کی سنگینی اور گھناونا پن کم کر سکتا ہے تو وہ غلط ہے۔ ہمیں خود کو یہ سمجھانا ہے کہ ریپ عورت کے لباس، عقیدے، گھر سے نکلنے یا اس کے کسی دشمن کی عورت ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتے، ریپ اس لیے ہوتے ہیں کیوں کہ ریپ کرنے والوں کے لیے معاشرتی تحفظ موجود ہے، کیوں کہ ریپ کے لیے اسی طرح جواز تراشے جاتے ہیں جیسے مذہب یا قومیت کے نام پر قتل کے جواز تراشے جاتے ہیں۔ ریپ اس لیے بھی ہوتے ہیں کیوں کہ ہم انکار کرتے ہیں کہ ریپ صرف ریپ ہی ہے۔ یہ گھناونا جرم تب تک موجود رہے گا جب تک طاقت ور کو زبردستی جنسی عمل پورا کرنے کے لیے جواز دیا جاتا رہے گا۔
Leave a Reply