عمران خان، نواز شریف، منورحسن، عسکری اسٹیبلشمنٹ اور تمام مذہبی جماعتوں کو اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ جنگ اب ہماری ہوگئی ہے؟ طالبان سے مذاکرات کی حامی اور دہشت گرد مذہبی گروپوں کو اپنا اثاثہ قرار دینے والی جماعتوں اور رہنماوں کو جو اب بھی طالبان کو دہشت گرد قرار دینے اور مسلح جہاد کی مذمت کرنے کو تیار نہیں، انہیں پشاور حملے سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرارنہ دینے پراس حملہ کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیے۔ڈرون حملوں، فوجی کارروائیوں اور امریکہ اور یورپ کی پالیسیوں کو دہشت گردی کی وجہ قرار دینے والے دانشوروں اور سیاستدانوں کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ مذہبی دہشت گردی محض معاشی، سماجی اور سیاسی محرومیوں کا ردعمل نہیں بلکہ شدت پسند جہادی فکر کا بھی نتیجہ ہے۔ ماضی میں جن بندوقوں کا رخ ہمارے "دشمنوں” کی جانب تھا ان کے دہانے ہم پر کھلنے سے ہمیں اب یہ احساس ہو جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری بلکہ صرف ہماری ہے۔ اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تکفیری فکر کی بنیاد پر انسانی جان لینے کےانتہا پسندانہ مذہبی جواز کو رد نہ کرنے کے باعث ہی آج پاکستانیوں کی جان لینے کو مذہبی فریضہ قرار دیا جارہا ہے۔ پشاور حملہ یقینی طور پر امریکہ، ہندوستان اور روس کے خلاف جہاد کو جائز قرار دینے والے فتاویٰ کا تکلیف دہ تسلسل ہے،پشاور آرمی پبلک سکول کے 132معصوم شہیدوں کو ان ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے لاشوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا جن کی موت پر خاموشی روا رکھی گئی۔
پشاور سانحہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ محض عسکری نہیں بلکہ نظریاتی ہےاور مسلح جہادی نظریات کا رد کیا جانا حملے یا حملہ آور طالبان کی مذمت سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
پشاور سانحہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ محض عسکری نہیں بلکہ نظریاتی ہےاور مسلح جہادی نظریات کا رد کیا جانا حملے یا حملہ آور طالبان کی مذمت سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔طالبان جس شدت پسند اسلامی عسکری فکر کی بنیاد پرانسانوں پر حملہ کرنا درست سمجھتے ہیں اس نظریاتی بنیاد کی نفی کیے بغیر پشاور سانحہ کے مقتولین کا کفارہ ادا نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی کی دہائی کے دوران جس شدت پسند مذہبی اور فرقہ وارانہ جہادی فکر کی ترویج کی گئی تھی وہ محض مدارس تک محدود نہیں بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں، ذرائع ابلاغ، مذہبی جماعتوں اور تبلیغی اجتماعات کے ذریعہ ہر مسلمان میں پیدا کیا جانے والا مذہبی برتری کا کھوکھلا اور اندھا احساس برتری بھی اس حملے کے پس پردہ کارفرما نظریاتی بنیاد کے فروغ کا باعث بنا ہے۔پشاور میں سو سے زائد بچوں کا قتل محض مجرمانہ اقدام نہیں بلکہ سیاسی اسلام اور شدت پسندجہادی فکر پر پختہ اور غیر متزلزل ایمان کا اظہار ہے جس کے تحت کسی کی جان لینا یا اپنی جان قربان کرنا مذہبی فریضہ تصور کیا جاتا ہے۔
مذہبی مدارس کا نصاب، کالعدم تنظیموں کا لٹریچر اور اور شدت پسند جہادی رہنماوں کے مذہبی خطبے پشاور میں بچوں کے قتل عام جیسے واقعات کو نہ صرف جواز فراہم کرتے ہیں بلکہ ایک مستحسن قدم کے طور یاد کرتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی قریب میں ڈرون حملوں کی بنیاد پر خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں معصوم انسانوں کے قتل کا جواز فراہم کیا جاتا رہا ہے، ریاست کے لیے خطرہ بننے تک تحریک طالبان کو اپنا اثاثہ ظاہر کا چلن پرانی بات نہیں ، ہندوستان، اسرائیل امریکہ اور یورپ کی فتح کے لیے جنگی جہادی ترانے گلی محلوں میں گونجتے رہے ہیں اور کشمیر اور افغان جہاد کے لیے پاکستانی نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور تربیت دینے کے مراکز ہر مسجد میں فعال رہے ہیں۔ افغان جہاد اور کشمیر جہاد کو پاکستان کے خلاف جہاد کی طرح دہشت گردی قرار دینا ہوگا ورنہ پشاور سانحہ جیسے سانحات روکے نہیں جا سکیں گے۔
مذہبی مدارس کا نصاب، کالعدم تنظیموں کا لٹریچر اور اور شدت پسند جہادی رہنماوں کے مذہبی خطبے پشاور میں بچوں کے قتل عام جیسے واقعات کو نہ صرف جواز فراہم کرتے ہیں بلکہ ایک مستحسن قدم کے طور یاد کرتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی قریب میں ڈرون حملوں کی بنیاد پر خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں معصوم انسانوں کے قتل کا جواز فراہم کیا جاتا رہا ہے، ریاست کے لیے خطرہ بننے تک تحریک طالبان کو اپنا اثاثہ ظاہر کا چلن پرانی بات نہیں ، ہندوستان، اسرائیل امریکہ اور یورپ کی فتح کے لیے جنگی جہادی ترانے گلی محلوں میں گونجتے رہے ہیں اور کشمیر اور افغان جہاد کے لیے پاکستانی نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور تربیت دینے کے مراکز ہر مسجد میں فعال رہے ہیں۔ افغان جہاد اور کشمیر جہاد کو پاکستان کے خلاف جہاد کی طرح دہشت گردی قرار دینا ہوگا ورنہ پشاور سانحہ جیسے سانحات روکے نہیں جا سکیں گے۔
افغان جہاد اور کشمیر جہاد کو پاکستان کے خلاف جہاد کی طرح دہشت گردی قرار دینا ہوگا ورنہ پشاور سانحہ جیسے سانحات روکے نہیں جا سکیں گے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مغرب اور امریکہ کی جنگ قرار دینے والی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، اعتدال پسند مذہبی رہنماوں اور مسلم مفکرین کو جہادی دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور جہادی فکر کو حق بجانب ثابت کرنے پر آرمی پبلک سکول پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیئے۔ بلکہ ہر اس فرد کو ماضی میں افغان جہاد، کشمیر جہاد، نائن الیون اور ممبئی حملوں کو جہادی کامیابی قرار دینے والے سبھی پاکستانیوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہزارہ ٹاون، مینا بازار پشاور، مون مارکیٹ لاہور، پشاور چرچ، میریٹ ہوٹل، جی ایچ کیو، مہران ائیر بیس اور ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملوں میں سازش اور بیرونی ہاتھ تلاش کرنے والوں کو اب سنجیدگی سے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کی تلاش کرنا ہوگی کیوں کہ یہ محض ریاست یا حکومت کی ناکامی نہیں مذہبی فکر کی ناکامی ہے جو مسلح عسکری جہاد کو رد کرنے میں ناکام رہی ہے۔سیاسی اسلام اور مذہبی غلبہ کے تصورات کی موجودگی میں ہمیشہ عسکری جدوجہد کی گنجائش باقی رہنے کا اندیشہ ہے۔مذہبی سیاسی فکر کے عسکری پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے محض عسکری کاروائیوں، جہادی تنظیموں پر پابندیوں یا سکیورٹی میں اضافہ سے دہشت گردی کے مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا، ریاستی اور عالمی سطح پرشدت پسند تصورِ جہاد کا سختی سے رد کیا جانا کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
Hi,moom butti… sorry laaltain,.yes we do need to fight the concept of militant Jihad head on,but to completely eradicate it from our minds,we do need to bring more and more social,economic and political equity!! Jay ho!
we need to bring more social,economic and political equity in our society to achieve our goal!