آج ایک دوپہر ٹوٹی ہوئی پڑی تھی سرہانے
کل گلی میں گھل گیا تھا
مجھے پتھروں سے کھرچ کر
ایک شام اٹھا کر اندر لائی تھی
سوچیں لاابالی ہوجائیں تو ایسے ہی ہوتا ہے
کل گلی میں گھل گیا تھا
مجھے پتھروں سے کھرچ کر
ایک شام اٹھا کر اندر لائی تھی
سوچیں لاابالی ہوجائیں تو ایسے ہی ہوتا ہے
کیا ہوا تھا؟
کچھ نہیں میں بس تمہیں
جان بوجھ کر
یاد کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں
جیسے کوئی خودکشی کوئلوں کے ڈھیر میں
گیلی ماچس لے کر گھس جائے
کچھ نہیں میں بس تمہیں
جان بوجھ کر
یاد کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں
جیسے کوئی خودکشی کوئلوں کے ڈھیر میں
گیلی ماچس لے کر گھس جائے
کچھ یادیں جو سو رہی تھیں
ان پر کفن چڑھا دیا ہے
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا
اگر کس یاد کا دم گھٹ جائے
آج کل میں یادوں کی مشین بنا ہوا ہوں
کیا ہوا تھا؟
کچھ نہیں شور میں جو وقت کا سرا
شعور سے چھوٹ کر گر گیا تھا
وہ ٹوٹی دوپہر کے درمیان پڑا مل گیا ہے
فرصتوں کی ہنڈیا بھر بھر
غموں کی فصلوں کو کھاد ڈال رہا ہوں
اس میں سے کوئی تین چوتھائی فصل ویسے بھی جھوٹی ہے
میں نے اسکے بیج خلا میں بو دیے تھے
اب فرصتوں کی کھاد نہ ڈالوں
تو وہ غیر مرئی پھل نہیں دیتی
فصل پر پھل واجب ہے
کچھ نہیں شور میں جو وقت کا سرا
شعور سے چھوٹ کر گر گیا تھا
وہ ٹوٹی دوپہر کے درمیان پڑا مل گیا ہے
فرصتوں کی ہنڈیا بھر بھر
غموں کی فصلوں کو کھاد ڈال رہا ہوں
اس میں سے کوئی تین چوتھائی فصل ویسے بھی جھوٹی ہے
میں نے اسکے بیج خلا میں بو دیے تھے
اب فرصتوں کی کھاد نہ ڈالوں
تو وہ غیر مرئی پھل نہیں دیتی
فصل پر پھل واجب ہے
میرا ذہن میرا مدافعاتی کارخانہ ہے
کیا ہوا اگر میرا دل
ایک پواہڑ عورت کا باورچی خانہ ہے؟
کشمکش کردار کی ماں ہے
کیا ہوا اگر میرا دل
ایک پواہڑ عورت کا باورچی خانہ ہے؟
کشمکش کردار کی ماں ہے
تمیں کچھ نہیں پتا میں کیا کیا کرتا ہوں
کہ سوچتا بھی رہوں
اور سوچ نہ بھی سکوں
یادوں کے کچھ ہٹے کٹے حصّوں پر
میں نے ایسے ہی مرہم لگا دیا ہے
ان غازیوں کو میں نے
سوچ کے مکّار ہاتھوں سے
خون لگا کر
شہیدوں میں شامل کر دیا ہے
کہ سوچتا بھی رہوں
اور سوچ نہ بھی سکوں
یادوں کے کچھ ہٹے کٹے حصّوں پر
میں نے ایسے ہی مرہم لگا دیا ہے
ان غازیوں کو میں نے
سوچ کے مکّار ہاتھوں سے
خون لگا کر
شہیدوں میں شامل کر دیا ہے
پھر یہی ہوتا ہے
شام، رات بھر گلی کے فرش سے
مجھے کھرچتی رہتی
دوپہر سرہانے لیٹ کر
ٹوٹ جاتی ہے
میں پارے کی طرح
اپنی فصلوں میں گر جاتا ہوں
شام، رات بھر گلی کے فرش سے
مجھے کھرچتی رہتی
دوپہر سرہانے لیٹ کر
ٹوٹ جاتی ہے
میں پارے کی طرح
اپنی فصلوں میں گر جاتا ہوں