آپ منٹو سے واقف ہوں یا نہ ہوں، منٹو کو پسند کرتے ہوں یا نہ ہوں، منٹو منٹو کی تکرار سے بیزار ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ منٹو کو ابھی تک پوری طرح دریافت ہی نہیں کیا گیا ۔۔۔۔ہر صورت میں منٹو ایک ایسی فلم ہے جو دیکھی جانی چاہیئے۔ یہ فلم صرف اس لیے اہم نہیں کہ یہ اردو افسانے کے خدا منٹو کی زندگی پر بنائی گئی ہےبلکہ اس لیے بھی قابل دید ہے کیوں کہ یہ سوانحی فلموں میں اب تک کی پاکستانی کی سب سے بہتر فلم ہے۔ سنجیدہ فلم بینوں کے ذہن میں پاکستانی فلموں میں کہانی، ہدایتکاری، عکاسی اور فلمی موسیقی سے متعلق جو تحفظات پائے جاتے ہیں وہ اس فلم کو دیکھنے کے بعد بہت حد تک دور ہوجاتے ہیں۔ منٹو کو پاکستانی سینما پر دوررس اثرت مرتب کرنے والی فلم قرار دیا جاسکتا ہے ۔اپنے موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے بھی یہ پاکستانی سینما کی پہلی فخریہ پیشکش ہے۔ پاکستانی سینما کی بحالی اور فلم سازی کی نئی لہر کے ساتھ یکجہتی کے لیے نئے فلم سازوں کی حوصلہ افزائی کے طور پر دیکھنے کی بجائے اس فلم کو ایک معیاری فلم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
منٹو کو پاکستانی سینما پر دوررس اثرت مرتب کرنے والی فلم قرار دیا جاسکتا ہے ۔اپنے موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے بھی یہ پاکستانی سینما کی پہلی فخریہ پیشکش ہے۔
سرمد سلطان کھوسٹ کی یہ فلم شاہد ندیم کے اس ڈرامہ سکرپٹ سے ماخوذ ہے جو اجوکا تھیٹر کے لیے لکھا گیا تھا اور اس سے قبل ‘میں منٹو’ کی صورت میں ٹی وی پر پیش کرنے کے لیے بھی بنایا جا چکا ہے۔ بجاطور پر یہ فلم اب تک پاکستان میں منٹو پر کیے گئے تھیٹراور ٹی وی ڈراموں سے بدرجہا بہتر اور معیاری ہے۔ شاہد ندیم کا لکھا سکرین پلے منٹو کی متنازع مگر اہم کہانیوں اور منٹو کی پاکستان آمد کے بعد کی زندگی پر مشتمل ہے۔ فلم کی کہانی منٹو کی کہانیوں اور منٹو کی سوانح کے تانے بانے پر مشتمل ہے۔ فلم منٹو کی ذاتی زندگی کے ان پہلووں کو بھی سامنے لاتی ہے جن پر کم بات کی گئی ہے؛ میڈم نورجہاں سے ان کا تعلق، مقدمات ، مے نوشی، خانگی حالات اورنفسیاتی الجھنیں اس فلم میں منٹو کو نئی نسل سے متعارف کرانے کے لیے ایک موزوں تعارف بن جاتی ہیں۔ فلم میں منٹو کی اہم کہانیوں ٹھنڈا گوشت، لائسنس ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، کھول دو، اوپر نیچے درمیان اور پشاور سے لاہور تک سے استفادہ کی گیا ہے اور ان کہانیوں کی فلم بندی بھی کی گئی ہے۔
فلم تکنیکی اعتبار سے بھی بے حد عمدہ ہے۔ منٹو دیکھتے ہوئے بیشتر نئی پاکستانی فلموں کی طرح یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ بڑی سکرین پر ایک ٹی وی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں
فلم تکنیکی اعتبار سے بھی بے حد عمدہ ہے۔ منٹو دیکھتے ہوئے بیشتر نئی پاکستانی فلموں کی طرح یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ بڑی سکرین پر ایک ٹی وی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ فلم کی سینماٹوگرافی، ہدایتکاری، موسیقی اور تدوین سبھی پاکستانی سینماکے لیے اجنبی ہیں اور شاید ہی پاکستان میں پہلے کبھی اس طرز کی فلم پیش کی گئی ہو۔ سرمد سلطان کھوسٹ کی اداکاری اوسط سے کچھ بہتر درجے کی تھی مگر ان کی ہدایتکاری کی صلاحیتوں پر کوئی شبہ نہیں۔ جس عمدگی سے انہوں نے ٹھنڈا گوشت، اوپر نیچے درمیان، لائسنس اور ہتک فلمائے وہ قابل تعریف ہیں۔ فلم کی موسیقی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ جمال رحمان کی مرتب کردہ موسیقی منٹو کی کہانیوں میں موجود تلخی اوربے باکی کے ساتھ منٹو کے وجود کے ساتھ جڑی الجھنوں اور نفسیاتی خلفشار کا بھرپور اظہار کرتی ہے۔ اس فلم کے تمام گیت عمدہ ہیں خصوصاً جاوید بشیر کی آواز میں ریکارڈ کی گئی مجید امجد کی نظم "کون ہے یہ گستاخ” ایک شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ میشا شفیع کی آواز میں شیو کمار بٹالوی کا گیت” محرم دلاں دے ماہی ” اور علی سیٹھی کی گائی غالب کی غزل "آہ کو چاہیئے ” بھی عمدہ ہیں۔
منجھے ہوئے اداکاروں کے باوجود اگر کوئی شعبہ اس فلم میں کم زور رہا ہے تو وہ مکالموں کی ادائیگی اور کاسٹیوم کا ہے
اگرچہ بعض مقامات پر مکالموں کی ادائیگی خصوصاً سرمد سلطان کھوسٹ اور صبا قمر کی اداکاری کم زور ہے لیکن اس کے باوجود دیگر تمام اداکاروں نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے خصوصاًمنٹو کی ہمزاد کا کردار نمرا بچُہ نے بے حد عمدگی سے نبھایا ہے۔ سویراندیم، عرفان کھوسٹ، ثانیہ سعید، فیصل قریشی ا ور نادیہ افگن نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ منجھے ہوئے اداکاروں کے باوجود اگر کوئی شعبہ اس فلم میں کم زور رہا ہے تو وہ مکالموں کی ادائیگی اور کاسٹیوم کا ہے۔ سرمد سلطان بعض جگہوں پر منٹو کے اندرونی خلفشار کی ترجمانی میں ناکام رہے ہیں اور بعض مقامات پر غیر ضروری طور پر اوورایکٹ کرنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔اسی طرح صباقمر کسی بھی طرح میڈم نورجہاں کا کردار نبھانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اگر صباقمر نے میڈم جی کو دیکھ رکھا ہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان کی موجودگی پورے منظر کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی۔ ان کی بھرپورشخصیت کے سامنے پردے پر کوئی اور ٹک نہیں سکتا تھا۔
کاسٹیوم کا شعبہ بھی کم زور ہے، فلم میں کہیں بھی یہ احساس نہیں ہو پاتا کہ یہ گزشتہ صدی کی چالیس اور پچاس کی دہائی کے واقعات ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود فلم اپنے ناظرین وک کسی بھی لمحے منٹو سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ اس فلم کی کامیابی یہ ہے کہ یہ منٹو سے ناواقف افراد کو بھی منٹو کی موجودگی کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس فلم کے بننے اور کامیاب ہونے کے بعد کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ اب معاشرہ منٹو کو پڑھنے ، تسلیم کرنے اور فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اپنانے کو بھی تیار ہے؟

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: