Laaltain

کیا ہم سوشل میڈیا پر تنازعات تلاش کرتے ہیں؟

20 ستمبر، 2016

[blockquote style=”3″]

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ ‘یہ ویب سائٹس کس طرح پاکستان اور دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں؟’ اس موضوع پر مضامین کا ایک سلسلہ لالٹین پر شروع کیا جا رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں ان مضامین سے ادب، معاشرے، سیاست، صحافت، تفریح اور دیگر شعبہ ہائے زندگی پر ان ویب سائٹس کے اثرات سمجھنے میں مدد ملے گی۔

[/blockquote]

اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

معلوم نہیں کوئی بھی چیز وائرل کس طرح ہوتی ہے اور کیوں اتنے بہت سے لوگ کسی ایک بات پر فوراً ٹویٹس اور تبصروں کے خنجر ایک دوسرے پر سونت لیتے ہیں۔ میرے لیے ایک تصویر یا ویڈیو کا ٹرینڈ کرنا اور پر ہونے والے مباحثوں کامعاملہ ایک معمہ ہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک تنازعے کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ بھی ایسا جو سنسنی پھیلا دے۔ ہم صرف ان باتوں کو پھیلاتے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی ناپسندیدہ شخصیات کو بدنام کر سکیں یا اپنے پسندیدہ لوگوں کو ہر معاملے میں درست ثابت کر سکیں۔ وہ تمام باتیں جن سے ہمارے موقف کی تائید یا تردید نہیں ہوتی ہمارے لیے بے معنی ہیں۔ وہ تمام واقعات جو کسی بھی طرح ہمارے سیاسی رحجانات کی مخالفت یا حمایت نہیں کرتے ہمارے لیے قابل توجہ نہیں۔ ہمیں ہر وقت کچھ ایسا چاہیئے جو متنازع ہو یا جس کے باعث جھگڑا کھڑا ہو سکے، بات توتو میں میں تک پہنچے، گالم گلوچ کی نوبت آئے، پگڑیاں اچھالی جائیں اور ایک دوسرے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑی جائے۔

 

ہمیں ہر وقت کچھ ایسا چاہیئے جو متنازع ہو یا جس کے باعث جھگڑا کھڑا ہو سکے، بات توتو میں میں تک پہنچے، گالم گلوچ کی نوبت آئے، پگڑیاں اچھالی جائیں اور ایک دوسرے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑی جائے۔
ابھی حال ہی میں دو تین ایسے واقعات پیش آئے جو میرے اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ملالہ یوسفزئی نے ایک بیان میں یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ ہجرت کر کے آنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے عملی اقدامات کریں۔ یہ خبر کہیں بہت سی خبروں میں دبی رہی حالانکہ ملالہ یوسفزئی اور اس کے بیانات ہمارے ہاں ایک ایسا موضوع ہیں جو مذہبی غیر مذہبی، لبرل اشتراکیت پسند، دائیں اور بائیں بازو غرض ہر قسم کے حلقوں کے لیے ایک بہت بڑے تنازعے کا باعث ہے۔ ملالہ کے اس بیان پر اوریا مقبول جان کا کوئی کالم اس کے خلاف نہیں آیا، کسی اینکر پرسن نے اس معاملے پر ملالہ کی نیت پر شبہ کیا۔ اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا۔ اس بات کو بس ایک خبر کے طور پر دیکھا گیا اور بات آگے بڑھ گئی چند فیس بک صفحات نے اس بات پر بھی مخالفین کا منہ چڑانے کی کوشش کی مگر دال نہیں گلی اور سب بھول بھال گئے۔

 

اسی طرح عاصمہ جہانگیر نے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کے کشمیر میں مظالم پر ہندوستان کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا کشمیر کی صورت حال سے موازنہ درست نہیں۔ عاصمہ جہانگیر کو کئی مذہبی فیس بک صفحات ہندوستان کی ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے۔ یوٹیوب پر ویڈیوز میں انہیں ملک دشمن ثابت کیا جاتا ہے اور جب بھی وہ فوج پر گرجتی برستی ہیں تو یہ ویڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں مگر میں نے کسی مذہب پسند صفحے پر اس بیان کے حوالے سے کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن اس کے برعکس جب بھی وہ فوج کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کی جاتی ہے تو عاصمہ جہانگیر کے خلاف وہ طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے کہ الامان۔

 

ماضی قریب میں سامنے آنے والی خبروں پر ہونے والی بحث کے دوران سوشل میڈیا پر ان خبروں کے متنازع ترین پہلووں پر ہی بات چیت کی جاتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ بم دھماکوں اور انسانی سانحات کو بھی تنازعات میں تبدیل کر دیا گیا۔ مرنے والوں کے لاشوں، ان کے عقائد، ان کی بے گناہی اور ان پر سامنے آنے والا ردعمل ہر طرح سے جانبدار ہوتا ہے۔ اکثر فیس بک صفحات پر میں اس قسم کا مواد دیکھتی ہوں کہ اگر یہی بم دھماکہ کسی مسلم ملک میں ہوا ہوتا تو کیا تب بھی لبرلز کا یہی ردعمل ہوتا(مثلاً فرانس میں ہونے والے حملے اور امریکہ میں ایک ہم جنس پرستوں کے کلب پر حملہ)۔ اسی طرح ہم نے فرانس میں برقینی پر پابندی کے معاملے میں ایسی پوسٹس پڑھیں کہ اگر خواتین کے ساتھ فلاں واقعہ کسی مسلم ملک میں ہوا ہوتا تو کیا مذہبی جماعتیں اسی طرح احتجاج کرتیں وغیرہ۔

 

ماضی قریب میں سامنے آنے والی خبروں پر ہونے والی بحث کے دوران سوشل میڈیا پر ان خبروں کے متنازع ترین پہلووں پر ہی بات چیت کی جاتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ بم دھماکوں اور انسانی سانحات کو بھی تنازعات میں تبدیل کر دیا گیا۔
ایسے لگتا ہے جیسے ہر فرد نے سوشل میڈیا پر اپنا ایک نظریاتی مورچہ سنبھالا ہوا ہے اور وہ کسی بھی طرح کسی ایسی بات کی حمایت یا مخالفت کرنے کو تیار نہیں جس سے اس کے نظریاتی موقف کو گزند پہنچنے کا امکان ہو۔ ہر خبر اور ہر واقعے پر ہمارا ردعمل کبھی بھی متوازن، غیر جانبدارانہ یا عالمانہ نہیں ہوتا۔ بس ایک ہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اپنی نظریاتی جنتوں اور جہنموں کا وجود ثابت کیا جائے۔ کوئی یورپ پر آنچ نہیں آنے دیتا، کسی نے سعودی اور ایرانی حکومتوں کے دفاع کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ کچھ فیس بکیے فوج کے دفاع پر کمربستہ ہیں تو کچھ سیاستدانوں کے متوالے ہیں، کچھ کو سب خرابیاں مذہب اور مولوی میں دکھائی دیتی ہیں اور کوئی ہر معاملے میں امریکہ کی مخالفت فرض سمجھتا ہے۔

 

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے ہمارے تنازعات کی ٹوہ میں رہنے کے رویے کو پرورش دی ہے۔ ہم جو پہلے ہی ہر چیز میں سازش تلاش کرتے رہے ہیں اور ہر بات کو جھگڑے کی شکل دینے میں مہارت رکھتے ہیں سوشل میڈیا پر جہاں ہمارے لیے اپنی شناخت چھپانا بھی ممکن ہے اور کسی بھی شخص سے براہ راست ٹاکرے کا امکان بھی نہیں وہاں تنازعات کو تصادم کی شکل دینا بے حد آسان ہو گیا ہے۔ ہم ہر معاملے کو ایک تنازعے کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اگر ایک تنازعہ موجود نہیں ہے تو کھڑا کیا جائے، اگر موجود ہے تو اسے بھڑکایا جائے، اگر تنازع بھڑک رہا ہے تو ہم اس میں اپنے اپنے نظریات کا ایندھن جھونکنے میں لگے رہتے ہیں تاوقتیکہ کہ ہمارے اپنے ہاتھ جھلسنے لگیں۔ یہ الاو تب تک روشن رکھے جاتے ہیں جب تک کہیں کوئی اور چنگاری آن لائن نہ ہو جائے۔

 

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اگر ایک تنازعہ موجود نہیں ہے تو کھڑا کیا جائے، اگر موجود ہے تو اسے بھڑکایا جائے، اگر تنازع بھڑک رہا ہے تو ہم اس میں اپنے اپنے نظریات کا ایندھن جھونکنے میں لگے رہتے ہیں تاوقتیکہ کہ ہمارے اپنے ہاتھ جھلسنے لگیں۔
تنازعات کی ٹوہ میں رہنے کے اس رحجان نے ہماری عام زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہم جو پہلے ہی ہر شخص کے معاملے میں Judgmental تھے ہم نے اب یہ کام پہلے سے کہیں زیادہ شروع کر دیا ہے۔ فلانے کی بات مت سنو وہ لبرال فاشسٹ ہے، اس کی تحریر مت پڑھو کہ وہ بنیاد پرست مولوی ہے، اس کا پیج لائیک مت کرنا وہاں را کے ایجنٹ بیٹھے ہیں، اس کو بلاک کر دو یہ تو ملحد ہو گیا ہے، فلاں یہ ہے اور فلاں وہ ہے کے لیبل لگانا اتنا آسان ہو گیا ہے کہ ہر کسی کی ہر بات متنازع ہو گئی ہے اور ایسے میں کہیں بھی کوئی بھی معقول یا متوازن رائے پڑھنے کو نہیں ملتی۔ موٹروے پولیس کے اہلکار پر فوجی افسران اور جوانوں کے تشدد کی خبر پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا وہ اس کی ایک حالیہ مثال ہے۔ سوائے ‘ہم سب’ پر شائع ہونے والی ایک دو تحاریر خصوصاً محترم وجاہت مسعود کی تحریر کے ہر کسی نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لیے اور سنگ باری شروع ہو گئی۔ پہلے پہل فوج کو بدنام کیا گیا پھر اس پورے واقعے کو ہی فوج کے خلاف پروپیگنڈا قرار دے کر تنازعے کی نذر کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ تخریب پسندی بہت بری طرح سے ہمارے دنیا اور لوگوں سے متعلق تصورات کو بدل رہی ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ تبدیلی نہایت منفی ہے۔ اب ہم سوشل میڈیا سے باہر بھی ایسے ہی رویوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سبزی خریدتے ہوئے، بچوں کو سکول چھوڑتے ہوئے، کلاس میں پڑھاتے ہوئے یا اپنے گھر والوں، پڑوسیوں اور کولیگز سے بات کرتے ہوئے ہم صرف تنازعات کو ہوا دیتے رہتے ہیں اور کسی بھی ایسے شخص پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں جو ہم سے مختلف نظریات رکھتا ہو۔ ہمیں ہر وقت ایک تنازعے کی تلاش رہتی ہے اور اگر نیٹ نہ ہو، یا کوئی متنازع چیز ٹرینڈ نہ کر رہی ہو تو ہم عجیب سی craving کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بس ابھی کوئی ایسی بات ہو کہ ہم خوب تالیاں پیٹیں، تو تڑاخ کریں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں۔

 

‘تنازع پسندی’ کی یہ انسانی جبلت معلوم نہیں آگے کیا رخ اختیار کرے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ اب جنگیں ٹی وی پر نہیں درحقیقت سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہیں۔ کسی بھی خبر کے نیچے بس پاکستانیوں یا ہندوستانیوں کے کمنٹس پڑھ لیجیے آپ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ تنازعات کس طرح پیدا ہو رہے ہیں۔ کس طرح ہم سب ایک طرف ان تنازعات کا حصہ بننے پر مجبور بھی ہیں اور اپنی ٹویٹس، پوسٹس اور میمز کے ذریعے تنازعات کھڑے کرنے کی دبی دبی خواہش بھی رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *