إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿سورة المائدة: ٣٣﴾
(ترجمہ) “جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے۔” (جالندھری)
سوشل میڈیا پر حالیہ شروع ہونے والی فقہی مباحث میں زنا بالجبر اور پُر تشدد قتل و غارت کے مرتکبین کو سزا دینے کے حوالے سے اوپر پیش کی گئی آیت سے استدلال کیا جا رہا ہے کہ ایسے مجرمین محارب ہیں اور ان کو جرم کے اعتبار سے اس آیت میں موجود سزاؤں میں سے کوئی سزا دی جائے گی۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ محارب کی تعریف، شرائط اور اس پر سزا کے اطلاق میں جہاں فقہ کے اندر شدید اختلافات موجود ہیں، وہیں اس کا اطلاق پُر تشدد قسم کے زنا بالجبر یا قتل پر کرنے کے حوالے سے اگلی ہی آیت میں ایک بہت بڑی الجھن موجود ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٤﴾
(ترجمہ) “ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو میں آ جائیں توبہ کر لی تو جان رکھو کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔” (جالندھری)
گویا ان آیات میں محارب جسے بھی کہا گیا ہے، اس کے حوالے سے تو یہ واضح نص موجود ہے کہ اگر وہ اپنے پکڑے جانے سے قبل توبہ کر لے تو آیت محاربہ کے تحت حد کا اطلاق اس پر نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ وزارت اوقاف و اسلامی امور، کویت کی زیر نگرانی سینکڑوں علماء و محققین کی محنت سے تیار ہونے والے اسلامی فقہ کے انسائیکلوپیڈیا میں کہا گیا:
“فقہاء کے یہاں کوئی اختلاف نہیں کہ محارب کی سزا اللہ کی قائم کردہ ایک حد ہے جو ساقط یا معاف ہونے کے قابل نہیں جب تک کہ ان پر قابو ملنے سے قبل وہ توبہ نہ کر لیں۔” (موسوعہ فقہیہ، ج17 ص191-192، مجمع الفقہ الاسلامی الہند)
فقہ اسلامیہ کے مشہور محقق و عالم دکتور وھبہ الزحیلی (رکن مجمع الفقہ الاسلامی) نے بھی محارب کے پکڑے جانے سے پہلے حد ساقط ہو جانے کی اس صورت کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ مائدہ کی اسی آیت (34) کو بنیاد بناتے ہوئے لکھا: “یہ صورت آئمہ کے درمیان متفق علیہ ہے۔”
(الفقہ الاسلامی و ادلۃ، اردو ترجمہ، جلد ہفتم، ص197، دارالاشاعت کراچی)
گویا محارب کون ہے کون نہیں، اس کے حوالے سے تو شدید اختلاف موجود ہے لیکن قرآن کی اس آیت سے یہ ضرور واضح ہے کہ محارب پکڑے جانے سے قبل اگر توبہ کر لے تو اسے معاف کیا جائے گا اور فقہاء کا اس بارے کوئی اخلاف نہیں۔
لہٰذا زنا بالجبر اور پُر تشدد قتل کے مرتکبین کو محارب قرار دے دینے والے، کیا اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ایسے مجرم پکڑے جانے سے قبل اگر توبہ کر لیں تو انہیں ریاست حد حرابہ سے معاف کر دے؟
یہاں پر یہ یاد رہے کہ جمہور کے نزدیک توبہ کرنے والے سے محارب کی حد ہی ساقط ہو گی یعنی اس پر اگر دوسرا کوئی جرم یعنی قتل یا لوٹ مار ثابت ہو تو اسے ان جرائم کے تحت سزا دی جا سکتی ہے لیکن وہ حرابہ کی حد کے تحت نہیں ہو گی بلکہ ان جرائم کے تحت موجود دیگر شرعی احکامات کے تحت ہی ممکن ہے، جیسے قصاص، یا دیگر حدود۔ چنانچہ اس صورت میں ان جرائم کو ثابت کرنا بھی انہی جرائم میں موجود دیگر شرعی نصاب و شرائط کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اس حوالے سے موسوعہ فقہیہ میں لکھا گیا ہے کہ “قابو میں آنے سے قبل توبہ کر لینے سے ، محاربین سے حرابہ کی حد ساقط ہو جاتی ہے۔۔۔۔ یعنی ان کو حتمی طور پر قتل کرنا، سولی پر چڑھانا، مخالف جانب سے ہاتھ پاؤں کاٹنا اور شہر بدر کرنا، اس پر مذاہب اربعہ کے فقہاء کا اتفاق ہے۔
۔۔۔۔۔ ہاں حقوق العباد توبہ کرنے سے ساقط نہیں ہوں گے، لہیذا جمہور کے نزدیک وہ چھینے گئے مال کے ضامن ہوں گے، حنفیہ کے نزدیک اگر مال موجود ہو (تو مال واپس کریں گے)، اور ان سے قصاص لیا جائے گا، اگر انہوں نے قتل کیا ہو۔”
(موسوعہ فقہیہ، ج17 ص197-198)
حرابہ کا ثبوت: یہاں پر یہ بات بھی قابل غور رہے کہ فقہاء کے نزدیک اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ حرابہ کو بھی ثابت کرنے کے لئے شرعی طور پر خود مجرم کا اقرار یا دو معتبر گواہوں کا نصاب شرط ہے۔ دیکھئے موسوعہ فقہیہ (ج17 ص197)
یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ متاثرین کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ محاربہ کے تحت لائے جانے والے ڈاکو کے بارے میں اگر گواہوں نے اپنا ذکر کرتے ہوئے کہا: “انہوں نے ہم لوگوں پر ڈاکہ ڈالا اور ہمارے اموال کو لوٹ لیا تو ان کی گواہی مقبول نہیں نہ ان دونوں کے حق میں نہ دوسروں کے حق میں کیونکہ عداوت و دشمنی ہے۔”
(موسوعہ فقہیہ، ج17 ص197)
امام مالک کا اس سے ضرور اختلاف ہے کہ جن کے نزدیک کسی ڈاکو کے بارے سںی سنائی گواہی بھی مقبول ہے جو کہ مشہور ہو۔ چنانچہ “اگر دو افراد قاضی کے پاس ایک مشہور ڈاکو کے بارے گواہی دیں کہ حرابہ میں مشہور تو یہی ہے تو ان دونوں کی شہادت سے حرابہ ثابت ہو جائے گا گو کہ ان دونون نے اس کو نہ دیکھا ہو۔” (موسوعہ فقہیہ، ج17 ص197)
ایسی شرائط کے ہوتے ہوئے حرابہ کے تحت کسی مجرم کو لانا اور ثابت کرنا، کن کن مزید الجھنوں کا باعث بن سکتا ہے، وہ سمجھنا مشکل نہیں۔ گویا کہ پُر تشدد قتل اور زنا بالجبر کے مجرموں کو محارب قرار بھی دے دیا جائے تو ان پر اس حد کا اطلاق آسان نہیں اور شرعی طور پر آپ کو پھر حدود اور قصاص کے شرعی نصاب و شرائط کی طرف ہی لوٹنا پڑے گا۔