Laaltain

کیا سوشل میڈیا پاکستان کو تبدیل کر رہا ہے؟

15 ستمبر، 2016
Picture of توصیف احمد

توصیف احمد

[blockquote style=”3″]

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ ‘یہ ویب سائٹس کس طرح پاکستان اور دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں؟’ اس موضوع پر مضامین کا ایک سلسلہ لالٹین پر شروع کیا جا رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں ان مضامین سے ادب، معاشرے، سیاست، صحافت، تفریح اور دیگر شعبہ ہائے زندگی پر ان ویب سائٹس کے اثرات سمجھنے میں مدد ملے گی۔

[/blockquote]

اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی واقعے کی تصایر یا ویڈیوز سامنے آئی ہوں اور پورے پاکستان میں اس پر بات چیت شروع ہو گئی ہو۔ تصور کیجیے کہ فوج جیسا طاقت ور ادارہ محض چند تصاویر اور ایک ویڈیو کے وائرل ہونے سے اس واقعے پر تحقیقات کا بیان دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔کیا یہ سوشل میڈیا کے بغیر ممکن تھا؟ ہم سب کو سوات کی وہ ویڈیو بھی یاد ہو گی جس میں طالبان ایک لڑکی کو سرعام کوڑوں سے پیٹ رہے ہیں۔ اس ایک ویڈیو نے پورے پاکستان میں رائے عامہ کو سوات آپریشن کے حق میں پھیر دیا تھا۔ کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اس ایک ویڈیو کے بغیر کسی بھی طرح سوات آپریشن کی حمایت پر لوگ آمادہ ہوتے؟ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوا، ایلان کردی کی تصویر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ داعش کی جانب سے ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے بھرتیاں نئی بات نہیں۔

 

تصور کیجیے کہ فوج جیسا طاقت ور ادارہ محض چند تصاویر اور ایک ویڈیو کے وائرل ہونے سے اس واقعے پر تحقیقات کا بیان دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔کیا یہ سوشل میڈیا کے بغیر ممکن تھا؟
دھرنے کے دوران آئی ایس پی آر کی ٹویٹس ہوں، پشاور حملے کے بعد لال مسجد کے باہر Reclaim your mosque کا احتجاج ہو، کراچی میں رینجرز اہلکاروں کے نوجوانوں پر تشدد کی ویڈیو ہو، عائشہ ممتاز کے ریسٹورنٹس پر چھاپے ہوں۔۔۔ کئی اہم معاملات میں ایک عام سے آدمی کے ہاتھ میں پکڑا ایک عام سا سمارٹ فون بھی اتنا ہی طاقت ور ثابت ہوتا ہے جتنا فوج جیسے طاقت ور ادارے کا سوشل میڈیا اکاونٹ۔ ہم نے سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز، تصاویر اور میمز کے ہاتھوں پاکستان میں صورت حال تبدیل ہوتے دیکھی ہے۔ ایک ٹویٹ، ایک ویڈیو، ایک تصویر وائرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی اب ہمہ وقت ایک صحافی ہے۔ بلوچستان میں بیٹھے علیحدگی پسند بھی اپنی آواز دنیا تک اسی ذریعے سے پہنچا رہے ہیں، جماعت الدعوۃ اپنی فلاحی سرگرمیوں کی تشہیر بھی یہاں کر رہی ہے، کھانے پینے کی چیزوں کے اشتہار بھی یہاں دکھائی دیتے ہیں۔ 2013 میں تحریک انصاف کے نوجوان کارکنوں نے اپنی جماعت کی کامیابی کا خواب سوشل میڈیا پر ہی دیکھا اور دکھایا تھا۔ قندیل بلوچ نے لاکھوں لوگوں کو اپنا مداح اسی پلیٹ فارم پر بنایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا واقعی پاکستان کو تبدیل کر رہا ہے؟ کیا ہماری سیاست، ادب، ثقافت، مذہب اور معیشت پر اس ذریعہ اظہار کا کوئی بہت ٹھوس اثر ہوا ہے یا یہ محض چائے کی پیالی میں ایک طوفان جیسا ہے۔

 

سوشل میڈیا کیا واقعی حقیقی معنوں میں کوئی تبدیلی لے کر آ رہا ہے؟ کیا اس کے اثرات پرنٹنگ پریس، ریڈیو اور ٹی وی کی طرح ہمہ گیر ہوں گے؟ کیا وی سی آر اور ڈش انٹینا کی آمد کی طرح سوشل میڈیا کی دستیابی بھی ہماری ایک پوری نسل کو متاثر کر رہی ہے؟ یا یہ تبدیلی وبدیلی کی بات بھی بس سوشل میڈیا کے ایک وائرل سٹیٹس کی طرح ہے اور پھر سب کچھ پہلے جیسا ہی ہو جائے گا یا سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے؟ سوشل میڈیا کے پاکستانی معاشرے، سیاست، ادب، ثقافت اور زندگی کے روزمرہ پہلووں پر اثرات کو کئی طرح سے دیکھا جا سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں بہت سے مصنفین اس معاملے پر لالٹین کے لیے لکھیں گے۔ میری ناقص رائے میں سوشل میڈیا سے آنے والی تبدیلی کو کئی مختلف طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔

 

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس درحقیقت سماج ہی کا ایک عکس ہیں اور یہ عکس حقیقی دنیا سے متعلق آپ کو ایک فریب تو دے سکتا ہے لیکن اس سے حقیقی دنیا اور اس کو تبدیل کرنے والے محرکات بہت شدت سے متاثر نہیں ہوتے۔
ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ تبدیل کیا ہے۔ یہ تبدیلی اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور سنیما سے بڑی تبدیلی ہے کیوں کہ اب لوگ صرف ابلاغ عام کے ذرائع سے حاصل ہونے والے پیغام کو وصول کرنے والے ہی نہیں رہے اب وہ خود بھی اپنی بات اربوں لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اب ہر فرد بغیر کسی ادارتی کنٹرول کے کچھ بھی کہیں بھی پوسٹ کر سکتا ہے اور وہ حقیقی معنوں میں ایک عالمی برادری کا حصہ ہے۔ اب معلومات کے بہاو کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی سنسر شپ عائد نہیں کی جا سکتی۔ ہر شخص کو صحیح معنوں میں اظہار کا حق مل گیا ہے اور اب انسان واقعی اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ اب ہم دنیا سے غیر متعلق نہیں رہ سکتے ہم ہر وقت پوری دنیا سے رابطے میں ہیں۔

 

دوسرا نقطہ نظر یہ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا نے کچھ بہت تبدیل نہیں کیا سوائے ایک میڈیم کے۔ اس سے پہلے بھی لوگ یونہی افواہیں پھیلاتے تھے، جھوٹ سچ پر یقین کرتے تھے اور ایسے ہی تعصبات کے ساتھ اپنے ہم خیال حلقوں تک محدود رہا کرتے تھے۔ خود نمائی کیا کرتے تھے، ان میں ایسے ہی تعصبات تھے جیسے آج فیس بک پر دکھائی دیتے ہیں۔ فیس بک کے نتیجے میں لوگوں کو اظہار کی طاقت تو مل گئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایسا نہیں ہوا کہ ہر شخص کا دائرہ اثر بھی عالمی وسعت کا حامل ہو گیا ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں روپوش علیحدگی پسندوں کی ٹویٹس بھی اتنی ہی طاقت ور ہوں جتنی آئی ایس پی آر کی ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ ایک نئے گلوکار کا گیت بھی اتنا ہی وائرل ہو جائے جتنا کوک سٹوڈیو کی ویڈیوز ہیں۔

 

بدقسمتی سے ہم مختلف الخیال لوگوں کی ایک کائنات کا حصہ بننے کی بجائے ایک ہی سورج کے گرد چکرانے والے سیاروں کی کہکشاوں میں بٹ گئے ہیں
ایک تیسرا تجزیہ یہ بھی ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس درحقیقت سماج ہی کا ایک عکس ہیں اور یہ عکس حقیقی دنیا سے متعلق آپ کو ایک فریب تو دے سکتا ہے لیکن اس سے حقیقی دنیا اور اس کو تبدیل کرنے والے محرکات بہت شدت سے متاثر نہیں ہوتے۔ مثلاً سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود انتخابات میں اسے سوشل میڈیا کے برعکس بہت کم نشستیں ملیں۔ فیس بک پر مسلم لیگ نواز کے خلاف بے پناہ پراپیگنڈا کے باوجود ان کی جماعت پاکستان میں ناصرف حکمران ہے بلکہ اپنے ووٹ بنک کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ درحقیقت ہم جس طرح ماضی قریب میں ٹیلی وژن چینلوں پر دکھائی دینے والے پاکستان کو اصل پاکستان سمجھتے تھے اسی طرح ہم اب سوشل میڈیا پر نظر آنے والے پاکستان کو حقیقی پاکستان سمجھ رہے ہیں۔ حقیقی دنیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں جو تعلق ہے وہ ان دونوں دنیاوں کو متاثر تو کر رہا ہے مگر اس سے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام بالکل بدل جائے گے یہ قیاس کرنا مشکل ہے۔ سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کو سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل ہی تبدیل کریں گے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تبدیلی کے بہت سے محرکات میں سے محض ایک ہے۔ اس کا اثر حقیقت میں اس سے کہیں کم ہے جتنا ہمیں محسوس ہوتا ہے۔

 

میرے خیال میں اس تمام بحث کو یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بہر طور سماجی رابطوں کے لیے ہیں، ان ویب سائٹس سے فرد کو اظہار اور رابطے کی آزادی ملی ہے لیکن اس آزادی کے نتیجے میں ہم اپنے ہم خیال حلقوں تک محدود تر ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم مختلف الخیال لوگوں کی ایک کائنات کا حصہ بننے کی بجائے ایک ہی سورج کے گرد چکرانے والے سیاروں کی کہکشاوں میں بٹ گئے ہیں اور مسلسل دوسرے سورجوں اور کہکشاوں سے دور ہو رہے ہیں۔ ہم سب کو یہی لگ رہا ہے کہ ہم سب کے نقطہ نظر کے مطابق دنیا بہتر یا کہتر ہو رہی ہے، مگر درحقیقت ہم اپنی ذات اور اپنی پسند کے کنوئیں میں پہلے سے زیادہ گہرائی میں اتر رہے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو اپنے لائیک کیے ہوئے پیجز اور فرینڈ لسٹ پر ایک نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ لائیکس اور فینڈز کی اس فہرست میں آپ سے اختلاف رائے رکھنے والے کتنے لوگ اور پیجز ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *