سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی ہتھیار اٹھانے والے کی حمایت کی جا سکتی ہے؟ اور اگر ایک ہتھیار اٹھانے والے کی حمایت کی جا سکتی ہے تو باقی سب کی کیوں نہیں؟
سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی ہتھیار اٹھانے والے کی حمایت کی جا سکتی ہے؟ اور اگر ایک ہتھیار اٹھانے والے کی حمایت کی جا سکتی ہے تو باقی سب کی کیوں نہیں؟ ہر ہتھیار اٹھانے والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ بالکل درست کر رہا ہے، لیکن کیا ہر ہتھیار اٹھانے والا درست کر رہا ہوتا ہے؟ ہتھیار اٹھانے کو درست سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، لیکن کیا واقعی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا؟اور پھر یہ بھی کہ اگر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں اور برہانی وانی کا ہتھیار اٹھانا درست ہے تو بلوچوں اور اللہ نذر کا کیوں نہیں؟
سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہتھیار بند نوجوان جو ایک ریاست کے (جبر کے) خلاف اپنے مذہب یا قومیت کی بنیاد پرہتھیار اٹھاتا ہے اور دہشت گرد قرار دے کر مار دیاجاتا ہےاس کی حمایت کے لیے اس کی تصویر لگانا کیا عسکریت پسندی کے پھیلاو میں معاون نہیں؟ ہمیں یہ فرق کیسے کرنا ہے کہ کون سا عسکریت پسند ہماری حمایت کے لائق ہے اور کون سا نہیں؟کیا ابوبکر بغدادی کے حق میں ٹویٹ کرنے والوں یا اہل تشیع کو کافر قرار دے کر قتل کی ترغیب دینے والوں اور سیاسی جبر، معاشی استحصال یا آزادی کی جدوجہد کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں میں فرق کیا جا سکتا ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا عالمی خلافت کے قیام کے حق میں فوجی بغاوت کی دعوت دینے والے آن لائن مواد، آئی ایس آئی ایس کے مجاہدین کو بھرتی کرنے والے ٹویٹر اکاونٹس اور لشکر جھنگوی فیس بک اکاونٹس کی بندش اور برہان وانی کی ڈی پی لگانے والوں کے اکاونٹس کی بندش کو ایک ہی پیمانے پر تولا جا سکتا ہے؟ ان مختلف سیاسی مقاصد کے لیے لڑنے والوں اور سماجی پس منظر کے حامل عسکریت پسندوں میں تفریق کا کوئی اخلاقی یا فلسفیانہ یا معروضی پیمانہ موجود ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا عالمی خلافت کے قیام کے حق میں فوجی بغاوت کی دعوت دینے والے آن لائن مواد، آئی ایس آئی ایس کے مجاہدین کو بھرتی کرنے والے ٹویٹر اکاونٹس اور لشکر جھنگوی فیس بک اکاونٹس کی بندش اور برہان وانی کی ڈی پی لگانے والوں کے اکاونٹس کی بندش کو ایک ہی پیمانے پر تولا جا سکتا ہے؟ ان مختلف سیاسی مقاصد کے لیے لڑنے والوں اور سماجی پس منظر کے حامل عسکریت پسندوں میں تفریق کا کوئی اخلاقی یا فلسفیانہ یا معروضی پیمانہ موجود ہے؟
اس سب کے باوجود کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور بلوچستان میں ریاستی جبر ناقابل برداشت ہو چکا ہے میں ہتھیار اٹھانے والون کی حمایت نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا فلسطین، کشمیر اور بلوچستان کے نوجوانوں کے پاس ہتھیار اٹھانا ہی واحد راستہ رہ گیا ہے؟ کیا وہ اس بات سے واقف نہیں کہ ان کی ہر گولی کے جواب میں ٹینک آئیں گے، ان کے ہر راکٹ کے جواب میں کئی میزائل داغیں جائیں گے، ان کے پتھروں کے جواب میں درجنوں عقوبت خانوں میں دھکیل دیے جائیں گے، وہ ایک فوجی ماریں گے اور جواب میں کئی بستیاں ویران کر دی جائیں گی، کئی مسخ شدہ لاشیں ملیں گی، بندوق کی ہر گولی کے جواب میں کئی ٹینک، کئی طیارے کئی توپیں سب کچھ روند جائیں گے کیا واقعی ہتھیار اٹھانا ایسے میں ایک درست فیصلہ ہے جب آپ کو معلوم ہو کہ ہندوستان، پاکستان یا اسرائیل کی حکومت اس کا بدلہ انہی کے گھر والوں یا انہی کے بستی والوں یا انہی کی قوم، فرقے اور مذہب سے لیں گے؟
بدقسمتی سے ان سب سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں، لیکن اس کے باوجود میں برہان وانی یا اللہ نذر کی حمایت نہیں کر سکتا، میں چاہتے ہوئے بھی ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر نہیں کر سکتا شاید میں بزدل ہوں اور کسی بھی ہتھیار اٹھانے والے سے محبت نہیں کر سکتا۔ اس سب کے باوجود کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور بلوچستان میں ریاستی جبر ناقابل برداشت ہو چکا ہے میں ہتھیار اٹھانے والون کی حمایت نہیں کر سکتا۔ میں آج تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ عدم تشدد، سیاسی جدوجہد یا پرامن احتجاج ہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیر، بلوچستان یا فلسطین جیسے سیاسی تنازعات کا حل ہے۔ اور میں اب بھی اسی پر یقین رکھتا ہوں۔ ہمارے لیے مارٹن لوتھر کنگ، گاندھی اور نیلسن منڈیلا جیسے لوگوں کی مثالیں تھیں جنہوں نے بندوق والوں کے سامنے عدم برداشت کا بند باندھا اور ایک گولی چلائے بغیر آزادی، مساوات اور حقوق حاصل کیے، لیکن اب کیا بدل گیا ہے؟ یہ سب کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے، اب ان عظیم لوگوں کے بتائے اور سکھلائے ہوئے طریقے کیوں کار گر نہیں رہے؟ ہمارے نوجوانوں کو برہان وانی اور اللہ نذر سے طاقت کیوں ملتی ہے؟ یہ لوگ مزاحمت کے استعارے کیوں بن گئے ہیں؟
یہ بہت مشکل ہے کہ آئے روز کی تلاشیوں کو بھگتا جائے، ہر ناکے پر اپنے کارڈ دکھائے جائیں، روز ہڑتال کی جائے۔۔۔۔ میرے نزدیک یہ لوگ برہان وانی اور اللہ نذر سے زیادہ بہادر ہیں اور ہمیں انہی کی حمایت کرنی ہے۔
برہان وانی یا اللہ نذر جیسے نوجوان اس غصے، اس ہتھیار بندی اور صف بندی کے ذمہ دار نہیں، یہ چند مٹھی بھر تخریب کاروں کا معاملہ نہیں یہ پاکستان، ہندوستان اور اسرائیل کی حکومتیں ہیں جنہیں نعرے، جلسے، جلوس یا احتجاج نہیں صرف بندوق کی گولی سنائی دیتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کرنے میں ناکام رہے ہیں جہاں حکومتیں پرامن احتجاج کرنے والوں کی بات سننے کو تیار ہو جائیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں برہان وانی کو اپنی بات کہنے کے لیے حزب المجاہدین میں شامل ہونا پڑتا ہے اور اللہ نذر کو پہاڑوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ جابر اور طالع آزما ریاستیں اور ان کی فوجیں اللہ نذر اور برہان وانی سے ڈرتی ہیں۔
لیکن میرے نزدیک اب بھی برہان وانی بہادر نہیں، بہادر وہ لاکھوں لوگ ہیں جو سڑکوں پر نکلتے ہیں، آنسو گیس کے شیلز کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، چھروں سے چھلنی ہوتے ہیں اور برہان وانی جیسے نوجوانوں کا نام لیتے ہیں۔ یہ بہت آسان ہے کہ بندوق اٹھا کر پہاڑوں یا جنگلوں میں چھپ جایا جائے اور چند فوجیوں کو قتل کر دیا جائے اور پھر کسی جھڑپ میں ہلاک ہو کر بہادری کی علامت بن جایا جائے، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ ہر روز سڑکوں پر ہندوتانی، پاکستانی یا اسرائیلی فوجیوں کے سامنے نکل کر آزادی کا نعرہ بلند کیا جائے، یہ بہت مشکل ہے کہ آئے روز کی تلاشیوں کو بھگتا جائے، ہر ناکے پر اپنے کارڈ دکھائے جائیں، روز ہڑتال کی جائے۔۔۔۔ میرے نزدیک یہ لوگ برہان وانی اور اللہ نذر سے زیادہ بہادر ہیں اور ہمیں انہی کی حمایت کرنی ہے۔ ہمیں ان کی حمایت کرنی ہے، اس سے پہلے کہ یہ بھی برہان وانی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں کیوں کہ برہان وانی کی ہلاکت کی مختلد تعبیریں ممکن ہیں مگر چالیس سے زائد نہتے کشمیریوں کی ہلاکت کی مذمت کا کوئی جواز ممکن نہیں، برہان وانی کی تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر کرنا غلط ہو سکتا ہے مگر احتجاجی مظاہروں اور بھارتی فوج کے مظالم کی تصاویر شیئر کرنے پر اکاونٹس بند کرنا کسی طرح درست نہیں۔ کیا ہندوستان کی حکومت، پاکستان کی فوج اور دنیا تبھی مظلوموں کی بات سنیں گے جب سڑک پر نکلنے والا ہر شخص ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا جائے گا؟
اگر یہ سب یونہی رہا اور ہم نے ہتھیار اٹھانے والوں کو احتجاج کرنے والوں پر ترجیح دی تو عین ممکن ہے جب میرے قبیلے، میری بستی یا میرے فرقے پر بھی ایسے ہی حالات آئے تو میں یا آپ یا ہم سب بھی ہتھیار اٹھا لیں۔ آئیے! برہان وانی کی بجائے پرامن احتجاج کرنے والے کشمیریوں، بلوچوں اور فلسطینیوں کی حمایت کریں، ان کی بات ہتھیار اٹھانے سے پہلے سنیں، ان کے منصفانہ مطالبات کو تسلیم کریں، پاکستان میں بھی، ہندوستان میں بھی، اور دنیا میں ہر جگہ تاکہ کل کو ہمیں ہتھیار اٹھانے سے پہلے سوچنا پڑے کہ کیا ہتھیار اٹھانا ہی واحد راستہ ہے۔