پاکستان تحریکِ انصاف کے چیرمین جناب عمران خان صاحب مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل باربار اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ جمہوریت کے استحکام میں مقامی حکومتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ وعدہ بھی کرتے تھے کہ اگر انہیں حکومت ملی تو نوے دن کے اندر بلدیاتی انتخابات منعقد کرکے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں گے اور ترقیاتی فنڈز منتخب مقامی نمائندوں کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے۔ 2013ء کے انتخابات میں خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان تحریکِ انصاف کے بلندبانگ دعوؤں کی وجہ سے انہیں ووٹ ڈالے اور تحریک انصاف کے پی کے میں صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ حکومت سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اپنے وعدوں کو بھول کرمفادات اور اقتدار کے حصول کی سیاست میں مصروف ہوگئی۔ نوے دنوں میں بلدیاتی انتخابات کا دعویٰ دو سال گزرنے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت پر پورا ہوا اور یوں کے پی حکومت نے تیس مئی 2015ء کو صوبہ بھر میں مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کا انعقاد کیا۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز میں خرد برد روکنے کے بہانے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص فنڈز دو سال تک استعمال ہی نہیں کیے۔ مالی سال 2013-14میں 93ارب جبکہ مالی سال 2014-15میں 97 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے حکومتی نااہلی کے باعث التوا کا شکار رہے اور یوں دو برسوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے صوبائی بجٹ میں مختص 190ارب روپے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے واپس کر دیئے گئے۔
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کو چھ ماہ کا عرصہ گزر چکاہےلیکن ابھی تک اختیارات کی منتقلی اور ترقیاتی فنڈز کے اجراء کا وعدہ ایفاء نہیں ہوسکا۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ انتخابات میں جیتنے والے نمائندوں کے نوٹیفکیشن بھی اب تک جاری نہیں کیے جا سکے

مالی سال 2015-16 کے لیے پیش کیے گئے صوبائی بجٹ میں بلدیات کے لیے 23 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کو چھ ماہ کا عرصہ گزر چکاہےلیکن ابھی تک اختیارات کی منتقلی اور ترقیاتی فنڈز کے اجراء کا وعدہ ایفاء نہیں ہوسکا۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ انتخابات میں جیتنے والے نمائندوں کے نوٹیفکیشن بھی اب تک جاری نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کے مستقبل کے حوالے سے لوگوں میں مایوسی پھیلنے لگی ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے بعد سے اب تک دو ایسے بڑے سانحات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن کے دوران بلدیاتی اداروں اور منتخب کونسلر زکی خدمات حاصل کرنے کی اشدضرورت تھی۔ جولائی اور اگست کے موسم میں مون سون کی بارشوں کے بعد خیبرپختونخواہ سمیت پورا ملک سیلاب کی زد میں آیا اور اس سیلاب کے صرف دوماہ بعد 26اکتوبر کے زلزلے نے بچے کچھےعلاقوں کی آبادی کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ ان سانحات کے دوران عوام کو جلد ازجلد امداد پہنچانے کے لیے بلدیاتی اداروں اور منتخب اراکین کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے صوبائی اور مرکزی حکومت نے انہیں نظرانداز کردیا۔ ان سانحات کے دوران مقامی حکومتوں کے نظام کو بروئے کار نہ لانا سول انتظامیہ اور منتخب جمہوری قیادت کی کمزوریاں عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ منتخب نمائندوں اور جمہوری حکمرانوں کو فوج کے سوا کسی اور ادارے یا نظام پر بھروسہ نہیں، ہمارے حکمران سول اداروں کو مضبوط کرنے کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ طالبان سے لےکر کراچی کے بھتہ خوروں کے خلاف آپریشن تک، زلزلے سے لے کر منہدم عمارتوں تک ہر جگہ فوج ہی مصروف عمل ہے۔ مقامی حکومتوں اور سول اداروں کو مضبوط نہ بنانے کی وجہ سے فوج کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے اور جمہوریت اور جمہوری ادارے مزید کمزور ہو رہے ہیں۔
حکومت اگر موسمِ گرما کے سیلاب اور حالیہ زلزلے کے متاثرین کی فوری امداد میں مخلص ہوتی تو خیبر پختونخوا کی ہر گلی اور محلے میں موجود منتخب بلدیاتی نمائندوں پر انحصار کیا جاتا۔ یہ نمائندے نہ صرف اپنے اپنے علاقے کی حالتِ زار سے واقف ہیں بلکہ متاثرین اور ان کے مسائل کی بروقت نشاندھی کرنے اور ضرورت مندوں تک امدادپہنچانے کے عمل میں رہنمائی کے اہل بھی ہیں۔

منتخب جمہوری اداروں کو نظرانداز کرنے کے نقصانات:
کسی بھی ریاست میں جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کو آئین کے مطابق زیادہ سے زیادہ جمہوری انداز سے چلایاجائے۔ فوج کی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت اورپولیس کاکام ریاست کے اندر قانون کا نفاذہے۔ پاکستان کے 68سالہ تاریخ کے بیشتر سال چارفوجی آمر ہڑپ کر گئے اور باقی کے ادوار میں فوج پسِ پردہ رہ کر حکمرانی کے فرائض نبھاتی رہی۔ افسوس ناک امریہ ہے کہ جب کبھی منتخب جمہوری حکومتوں کے ہاتھ اقتدار آیا تو وہ بھی اپنی نااہلی، سیاسی حالات اور پیچیدگیوں کی وجہ سے فوج اور سول نوکر شاہی پر انحصار کرتی رہیں جس کی وجہ سے یہ دونوں ادارے مزید مضبوط ہوتے چلے گئے۔ سول معاملات میں دفاعی اداروں کی مداخلت اور سول ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے فوج کی پیشہ وارانہ کارکردگی کا معیار گرا ہے۔
حکومت اگر موسمِ گرما کے سیلاب اور حالیہ زلزلے کے متاثرین کی فوری امداد میں مخلص ہوتی تو خیبر پختونخوا کی ہر گلی اور محلے میں موجود منتخب بلدیاتی نمائندوں پر انحصار کیا جاتا۔ یہ نمائندے نہ صرف اپنے اپنے علاقے کی حالتِ زار سے واقف ہیں بلکہ متاثرین اور ان کے مسائل کی بروقت نشاندھی کرنے اور ضرورت مندوں تک امدادپہنچانے کے عمل میں رہنمائی کے اہل بھی ہیں۔ چونکہ یہ کونسلرز براہ راست منتخب ہوکے آئے ہیں اس لیے انہیں رائے عامہ اور اگلے انتخابات کا خوف لاحق رہتا ہے، اگلی بار انتخاب لڑنے اور جیتنے کے لیے یہ اپنے علاقے میں تندہی سے کام کرتے۔ اگر ان نمائندوں کی خدمات حاصل کی جاتیں تو فوج، پولیس اور پٹواریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شفاف اور بروقت امدادی کاروائی عمل میں آتی۔ لیکن حکومت کو نہ تو اپنے بنائے نظام پر بھروسہ ہے اور نہ ہی منتخب نمائندوں پر اور یہی پاکستان میں بلدیاتی نظاموں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

Leave a Reply