میرے اس مضمون کا محرک فاروقی صاحب کا یہ جملہ ہے کہ نئی نسل کو زبان نہیں آتی اس لیے وہ اچھا ادب تخلیق کرنا نہیں جاتنی ۔ ادب کا بنیادی ٹول زبان ہے اور اردو کی نئی نسل زبان سے ہی نا واقف ہے۔ یہ بات فاروقی صاحب نے زمرد مغل سے اپنے ریختہ کے انٹر ویو میں کہی ہے۔ اللہ جانے یہ زمرد کا کلیجہ بھی کتنا سخت ہے کہ نئے لکھنے والوں کے حوالے سے وہ یہ بات سن لے گئے حالاں کہ اکثر لوگوں کو ان سے یہ ہی خدشہ رہتا ہے کہ یہ تو کسی بھی بات کا پلٹ کر ٹیڑھا جواب دے دیں گے۔ بہر کیف وہ ہمارے دوست ہیں اور نئی نسل کے اچھے اور ذہین ادیب۔ خیر فاروقی صاحب کا یہ جملہ مجھے اس لئے بھی کچھ عجیب لگا کیوں کہ فاروقی صاحب نے یہ بات قطعی لا علمی کی بنیاد پر کہی ہے ۔ نئی نسل سے وہ کیا تصور باندھے بیٹھے ہیں اللہ جانے مگر میں جہاں تک جانتا ہوں اس حد تک نئی نسل میں اردو ادب لکھنے اور اس پر تنقید کرنے والوں کو نہ صرف یہ کہ ٹھیک بلکہ اچھی زبان آتی ہے۔ میں جس زمانے میں بمبئی میں مقیم تھا اس وقت اندھیری ایسٹ میں ایک ضعیف العمر صاحب رہا کرتے تھے اب تو ان کا نام بھی ذہن سے نکل گیا کہ انہوں نے اردو زبان میں اسلامی تلمیحات پر ایک کتاب مرتب کی تھی بقول ان کے وہ اس کتاب کو خود فاروقی صاحب کے پاس لے گئے تھے جس پہ فاروقی صاحب نے ان کے زبان نہ جاننے پر انہیں پچاسوں صلاواتیں سنائی تھیں۔ اللہ جانے یہ واقعی صحیح ہے یا غلط مگر مجھے اس معاملے میں فاروقی صاحب کچھ غلط معلوم نہیں ہوئے کہ ایسی کتابوں میں زیادہ تر زبان کی غلطیاں پائی جاتی ہیں اس لیے انہوں نے اس کتاب پر ضرور اعتراض کیا ہوگا۔ فاروقی صاحب کا مسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ان تک ایسی ہی کتابیں پہنچتی ہوں گی جیسی ان اندھیری والے علاقائی علامہ نے ترتیب دیی تھی۔ مجھے تو علم نہیں کہ اردو کے نئے لکھنے والوں میں سے کتنے لوگوں کی تحریروں کا باقاعدہ فاروقی صاحب مطالعہ کرتے ہیں اور انہوں نے نئے لوگوں کی تحدید کہاں تک کی ہوئی ہے یا کس لکھنے کو وہ لکھنا سمجھتے ہیں۔
یہ مسئلہ ایک فاروقی صاحب کا ہی نہیں کہ ہمارے بزرگوں اور بزرگوں کے بزرگوں کو زیادہ تر اپنے بعد والوں سے یہ شکایت رہی ہے کہ ہماری اگلی نسل کو زبان نہیں آتی ۔ زبان آنے اور نہ آنے کا جھگڑا اردو میں پرانا ہے، مگر اب ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اس عہد میں ہمیں کم از کم اردو کے تعلق سے تو یہ قطعی غلط فہمی نہیں پالنی چاہیے کہ کوئی شخص اردو میں شعر کہہ رہا ہے اور اچھے شعر کہہ رہا ہے یا افسانہ لکھ رہا ہے یا مضمون لکھ رہا ہے اس کے باوجود اس کو زبان نہیں آتی ۔کیا کوئی اس امر کو مدلل انداز میں بیان کر سکتا ہے کہ زبان کا نہ آنا کسی شاعر کے حق میں کس طرح سے ظاہر کیا جا سکتا ہے؟ شااعر اپنے شعر میں قواعد کو لوٹتا پلٹتا ہے، بلاغت کے نئے قاعدے بناتا ہے، فصاحت کو مختلف انداز میں وضع کرتا ہے اور لفظوں میں حروف کی ترتیب تک سے چھیڑ خانی کرتا ہے ۔ ایسے میں ایک شاعر کے زبان نہ آنے کے تصور پر کس طرح سوال قائم کیا جا سکتا ہے ۔ اردو میں نئی نسل میں شعر کہنے والے بھی اپنے پیش رووں کی طرح شاعری میں یہ کام کر رہے ہیں اور مجھے تو فاروقی صاحب کے برعکس کافی مقدار میں نظر آتا ہے کہ بحسن و خوبی کر رہے ہیں۔ ادب لکھنے کی بنیادی شرط زبان ہے۔ اس سے کسی کو بھی انکار نہیں مگر زبان کے آنے کا مظاہرہ کرنے کے عمل میں بے ہنگم طریقے سے تخلیق اور تنقید میں زبان کا استعمال کرنا یہ ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے ۔ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ نئی نسل کو زبان آتی ہے یا نہیں ایسا ہی ہے جیسا کہ خود فاروقی صاحب کے سلسلے میں یہ کہا جائے کہ انہیں زبان آتی ہے یا نہیں ۔بھئی جس اردو زبان میں انہوں نے زندگی بھر لکھا پڑھا اسی زبان میں نئی نسل کے لوگ لکھ اور پڑھ رہے ہیں پھر اس کا سوال ہی کیوں قائم ہو کہ نئی نسل کو زبان نہیں آتی ۔ فاروقی صاحب کے نزدیک زبان آنے یا نہ آنے کا کیا معیار ہے اللہ جانے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلاغت، فصاحت، بیان، بدیع ، صنائع اور عروض کی موٹی موٹی اصطلاحوں کو جاننا اور ان کا گاہے بہ گاہے استعمال کرنا زبان آنے یا نہ آنے کا کوئی معیار نہیں۔ مثلا ً نئی نسل کا ایک اہم شاعر سید کاشف رضا ہے۔ اس کا شعر ہے۔
ملے ہوئے تھے مجھے چاہتوں کے در کتنے
مگر میں وہ کہ ہواوں پہ مستقر رکھا
یا ایک اور شاعر ادریس بابر ہے ۔ اس کا بھی ایک شعر دیکھ لیجیے :
تو یہی کچھ ہے وہ دنیا یعنی
ایک متروک ارادہ میرا
اگر ان دونوں کے تعلق سے فاروقی صاحب کا دل صاف ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نئی نسل کے ہیں اور انہیں زبان آتی ہے تو پھر اس بات کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا کہ ان کی کہی ہوئی بات درست ہے اور ان کے پاکستانی ہونے پر انہیں اطمینان ہے تو ہندوستان کے نئے لکھنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے اشعار اور افسانے اور مضامین موجود ہیں جن میں زبان کی کہیں کوئی غلطی نظر نہیں آتی ۔ مثلاً:
مرے خیال کے وحشت کدے میں آتے ہی
جنوں کی نوک سے پھوٹا ہے آبلہ شب کا
(ابھیشیک شکلا)
“بہرحال ہم بات کررہے تھے لکھنوی تہذیب کے ایسے نقش کی، جس کا عیب اس کی ظاہری نفاست و رنگارنگی نے ڈھانپ رکھا ہے۔یہاں ہندوستان میں میں جب بھی دیکھتا ہوں کہ ہندو مغلوں کو برا بھلا کہتے ہیں تو انہیں بتاتا ہوں کہ بھائی! مغل تو پھر بھی ہندوؤں کے حق میں بہتر تھے، سلاطین اور نوابین کے دور کے بارے میں پڑھ لو گے تو نسلوں تک پیدا ہونے والی نفرت کی خلیج پاٹنا مشکل ہو جائے گی۔ دراصل عورتوں کے پاس مردوں کا ہونایا مردوں کے پاس عورتوں کا ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام تر واقعات جو ہوتے رہے اور اب بھی ہمارے سماجوں میں ہوتے ہیں، عورتوں کی مرضی جانے بغیر بلکہ ان کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں۔ امیر طبقے کے لیے آج بھی اپنی پسند کی عورت اٹھالے جانا، اس کا ریپ کردینا اور بچ جانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اور ہم تب تک ان مسائل کا شکار رہیں گے، جب تک اپنی تاریخ، اپنے مذہب، اپنے سماج اور اپنی زندگیوں میں موجود ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکے ان کی گندگی اور غلاظت کا انہیں احساس نہ دلائیں۔انہیں یہ نہ بتائیں کہ وہ شاہی دور گزر گیا جب کسی عورت کو اس کی مرضی کے بغیر یا اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ہاتھ لگانا ایک نہایت واہیات اور کریہہ عمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر چاہے آپ کا مذہب آپ کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہو یا آپ کا طرز زندگی آپ کو سو عورتوں کو گٹھلیوں کی طرح چوس کر پھینک دینے کی سہولت عطا کرتا ہو۔بہرحال یہ واقعہ پڑھیے۔یہ واقعہ ہماری تہذیبوں کو عریاں کرنے والا محض ایک اشارہ ہے، تاریخ ایسے سنگ دل معاملات سے اٹی پڑی ہے۔”
(اور جب لکھنوی تہذیب سے پردہ اٹھتا ہے /تصنیف حیدر)
کام ہر روز یہ ہوتا ہے کس آسانی سے
اس نے پھر مجھ کو سمیٹا ہے پریشانی سے
(سالم سلیم)
لگتا ہے تباہی مری قسمت سے لگی ہے
یہ کون سی آندھی مرے اندر سے اٹھی ہے
(معید رشیدی)
اک لمحہ فراق پہ وارا گیا مجھے
کیسی حسین شام میں مارا گیا مجھے
(وپل کمار)
اس کے علاوہ فیاض احمد وجیہہ کے افسانے امیر امام اور امیر حمزہ ثاقب کی شاعری ۔پاک اور ہند سے مشترکہ طور پرعلی اکبر ناطق کی نظمیں اور ناول نو لکھی کوٹھی ۔ شہرام سرمدی کی کتاب نا موعود ۔زمرد مغل کے مضامین ۔ صلاح الدین درویش ،زیف سید ،فرخ ندیم ، مکرم نیاز، قاسم یعقوب ، راغب اختر، غالب ایاز، عزیز نبیل ،صابر اور زاہد امروز کس کو زبان نہیں آتی اور اگر ان میں سے کسی کو زبان نہیں آتی تو یہ لوگ گزشتہ دس ، پندرہ برس سے کیوں ادب لکھ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔
زبان آنے سے شعر کے حسن کو سمجھنا اس میں باریک نکات تلاش کرنا یا اپنی جودتِ طبع سے اپنی تخلیقات میں جہان معنی پوشیدہ کرنا فاروقی صاحب کے کہنے کا مقصد ہے تو بھی نئی نسل کے اردو ادیب اپنے اگلوں سے کسی طور پیچھے نظر نہیں آتے۔ شاعری میں بھی اور افسانے میں بھی اردو کے نئے لکھنے والوں نے اچھے تجربے کیے ہیں اور مستقل کر رہے ہیں ۔اردو میں لکھنے والوں کی جو نئی نسل اب سامنے آ رہی ہے ان کے یہاں ایک اچھی اور قابل ذکر بات یہ نظر آتی ہے کہ وہ زیادہ تر سامنے کے مسائل کو اپنا محرک بناتے ہیں اور ان سے سامان تخلیق جمع کرتے ہیں۔ اس کو سادہ زبان میں بیان کرتے ہیں اور جہاں تشبیہات و استعارات، علامت اور کنائے کی ضرورت ہوتی ہے حسب ضرورت اس کا استعمال کرتے ہیں۔
زبان آنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ لفظ کا ذومعنی استعمال اگر کوئی کرنا جانتا ہو تو اسی کو زبان جاننے والا قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ زبان آنے کا یہ بھی معنی نہیں کسی کا ذخیرہ لغت اتنا وسیع ہو کے اس کے احاطہ علم میں ہزار ہا الفاظ ہوں۔ عین ممکن ہے آج سے پچاس برس پہلے یا تیس برس پہلے تک بھی کسی کو کرگس کے معنی نہ معلوم ہوں تو اس کو زبان نا جاننے والا کہا جا سکتا ہو مگر آج صورت حال بالکل مختلف ہے ، پوری لغت کو جاننا زبان جاننے کے مترادف نہیں زبان جاننے کا دعوی ہر وہ ادیب کر سکتا ہے جو اپنی بات کو فنی انداز میں بیان کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ جس کو معلوم ہو کے کسی شعر میں کس طرح سامنے کے الفاظ یا بول چال کے الفاظ سے بھی شعریت کیوں کر پیدا کی جا سکتی ہے یا کسی علمی مضمون میں بغیر اصطلاحوں کا استعمال کیے کس طرح اپنے مافی الضمیر کو بیان کیا جا سکتا ہے ۔ زبان خوا ہ وہ تخلیق ہو یا تنقید دونوں کے لیے اتنی ہی جاننا ضروری ہے جتنی کے ذریعے اچھی تخلیق یا اچھی تنقید کا حق ادا ہو جائے اور ہر وہ شخص زبان جاننے والا کہلائے گا جس نے ان دونوں میدانوں میں اپنا کام بحسن و خوبی پورا کیا ہو۔مثلا ً میں نے اپنے ایک مضمون “شعر شور انگیز جلد اول کے چند ابتدائی اشعار ایک مطالعہ “میں فاروقی صاحب کی طرز پہ میر کے ایک شعرپر کچھ یوں تنقید کی ہے:
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
اس شعر کی تشریح فاروقی صاحب نے جس انداز میں کی ہے یا گوپی چند نارنگ نے جس طرح شعر کا عقدہ سلجھایا ہے، کچھ باتوں کو چھوڑ کر مجھے ان سے صد فی صد اتفاق ہے ۔لیکن میں نے اس شعرکو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی ہلکی سی جھلک بھی ان دونوں ناقدین کی تشریحات میں نظر نہیں آتی۔ جہاں تک اختلاف کی بات ہے تو مجھے فاروقی صاحب کے اس جملے سے اختلاف ہے کہ ’پہلے مصرع میں جو سوال ہے اس کا مخاطب کوئی نہیں۔ وہ کلی تو ہر گز نہیں جس نے اسے سن کر جواب دیا۔بلکہ محض تبسم کیا ہے۔‘ اس کے علاوہ خود کلامی، اظہارِ حیرت جیسے مفروضے بھی ہیں،لیکن ان کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فاروقی صاحب کی اپنی رائے ہے۔ اسی طرح انہوں نے کلی کی مسکراہٹ کو جن وجوہات کی بنا پرعام اشارہ، طنزیا انداز یا الم ناک و قار وغیرہ سے تعبیر کیا ہے یہ سب ذاتی آرا ء کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن پر سوال قائم نہیں کیا جا سکتا ۔رہی نارنگ صاحب کی بات تو مجھے ان کی تشریح میں اس جملے سے اختلاف ہے جو بہر حال مجھے پسند آیاکہ انہوں نے فارو قی صاحب سے یا ایک حد تک سب سے مختلف رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے مضمون ’اسلوبیات میر‘ میں اس شعر کے ضمن میں فرماتے ہیں۔ ’مکالمہ جاندار اور بے جان کے پیچ میں ہے۔‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا حقیقتاً کوئی شخص یا ذی رو ح ہے ۔اس جملے سے شعر کو سمجھنے کی ایک نئی جہت فراہم ہوتی ہے۔ جس کی جھلک فاروقی صاحب کی تشریح میں نظر نہیں آتی۔ لیکن میں ان سے اس حد تک اختلاف رکھتا ہوں کہ میری تشریح ان کے اس خیال کی تر دید کرتی ہے ورنہ شعر کو دیکھنے کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے۔
نارنگ صاحب سے چوک ہوئی کہ انہوں نے صرف خطیب پر نگاہ کی اور بظاہر معنی سے استفادہ کرتے ہوئے مخاطب کی شخصیت کا بغور جائزہ نہیں لیا ورنہ انھیں محسوس ہوتا کہ مکالمہ جاندار اور بے جان کے پیچ نہیں، بلکہ دو ذی روح اشخاص کے درمیان ہو رہا ہے۔ شعر میں بنیادی طور پر دو کردار ہیں۔ ایک عاشق دوسرا معشوق۔ عاشق وہ ہے جو سوال پوچھ رہا ہے اور معشوق وہ ہے جو جواباً مسکرا رہا ہے۔ میر ؔ کا یہ کمال ہے کہ اس نے معشوق کو بیک وقت ’گل‘ اور ’کلی‘ دو استعاروں سے نو ازا ہے۔ کردار ایک ہی ہے پر نام دو ہیں۔ لہٰذا جب عاشق اپنے معشوق سے یہ سوال کرتا ہے کہ آج اس خلوت خانے میں تمہارا ثبات یا پائداری یا قیام کتنا ہے۔ تو اس ’ کتنا‘ میں جھلّاہٹ اور خفگی کے ملے جلے اثرات نظر آتے ہیں۔ جس سے اس بات کا بھی اظہار ہو رہاہے کہ کل تو تم آتے ہی چل دئے تھے لہٰذا کیا آج بھی وہی کرنے کا ارادہ ہے۔ کلی (جو معشوق کا دوسرا استعارہ ہے۔) نے جیسے ہی اپنے عاشق کا یہ شکوہ سنا تو وہ مسکرا اٹھی۔اس مسکرا ہٹ میں چھیڑ چھاڑ بھی ہے اور قیام کے اقرار کا اظہار بھی۔ مزاجاً بھی شعر کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ میرؔ صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے یہاں بھی متضاد رویہ بخوبی برقرار رکھا ہے ۔پہلے مصرع میں اگر خفت اور ناراضگی کا اثر ہے تو دوسرے میں لفظ مسکراہٹ سے پورا ماحول خوشگوار بنا دیا ہے۔
اسی طرح سدرہ سحر عمران جو پاکستان کی نو وارد نظم کی شاعرہ ہیں انہوں نے ایک نظم “ناکام مذاکرہ “کہی ہے :
لوگ ربر بینڈ کی طرح
ہاتھوں پہ
چڑھائے جا سکتے ہیں
پہنے جا سکتے ہیں
پیروں میں
کاغذ چھوٹی چھوٹی گولیوں میں
تبدیل کئے جا سکتے ہیں
جنہیں
جب چاہو دیوار پہ دے مارو
ان کو کوڑے دان میں پھینکا جا سکتا ہے
جالے اور وحشت اتاری جا سکتی ہے کمروں کی
اتنی بھیانک اور نوکیلی ہیں
ان کی آوازیں
جو سوراخ کر دیتی ہیں
دیوار کے کانوں میں
لوگ اپنی لمبی زبانوں کا برادہ
بھر دیتے ہیں ان سوراخوں میں
جو تہہ خانوں میں جا نکلتے ہیں
تہہ خانوں کے زینوں پر
کالی سطریں ہیں
چیونٹیوں کی
اور مکڑی کی عالی نسلیں
جو تھوک سے شامیانے بنتی ہیں
مکڑی کے جالے کالی سطریں اور لوگ
ایک ہی گھر میں رہتے ہیں
لیکن انجان رہتے ہیں
ایک دوسرے کے ناموں سے
اس لئے بحال نہیں ہو پاتے
ان کے سفارتی تعلقات
رکھی رہ جاتی ہیں کونوں کھدروں میں
ذہنی ہم آہنگی کی ساری فائلیں
اور لوگ
ربر بینڈ کی طرح ان پر
چڑھ جاتے ہیں
ان میں زبان کی غلطیاں فاروقی صاحب کو کہاں نظر آتی ہیں۔ نئی زبان میں اظہار کے نئے طریقے اور سلیقے بھی پیدا ہو رہے ہیں اور نئے لکھنے والے نئی زبان اور اظہار کے تقاضوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ایسے میں ان کی مثال اپنے سے پیش رووں سے زیادہ بہتر ہے۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنے میں بھی نئی نسل کے ادیبوں میں خاصہ تمیز پایا جاتا ہے۔ کیا فاروقی صاحب نے نئی نسل کے لکھنے والوں میں سے کسی کی تقریر سنی ہے اور اگر نہیں سنی تو اوپر جتنے نام دیئے ہیں ان میں سے کسی ایک کو دھیان سے سنیں اور پھر اس کا فیصلہ کریں۔
نئے عہد کے تقاضوں اور نئی زندگی کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی نسل کے ادیب جتنا بہتر بول اور لکھ رہے ہیں اس کی مثال ان سے اگلوں میں خال خال ہی نظر آتی ہے ۔ ہماری نسل میں گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں کرائسس کی مقدار زیادہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نئے ادیبوں کو اپنے اگلوں کے ان گناہوں کی بھی تلافی کرنا پڑ رہی ہے جو فاروقی صاحب کی نسل سے ذرا سی ہمدردی کی خاطر اردو کے اہم اداروں اور شعبوں کے حق میں سر زد ہوئے ہیں ۔
اردو کا وہ زمانہ گیا جب ذرا سے تلفظ پر بات ہاتھ سے نکل جاتی تھی اور اب نا ہی یہ وہ عہد ہے کہ ہم کسی کی زندگی بھر کی محنت اور لگن کو ایک غلط ادائیگی پر قربان کر دیں ۔ ہمارے اگلوں نے تو صرف اسی میں زندگیاں گزار دیں کے کسی لفظ کا زیر زبر غلط نہ ہونے پائے مخاطب اور مخاطب کے زیر زبر کی بحث میں طلبہ اور طلبا کے املا کے جھگڑے میں بیس بیس برس گزار دینے کے بعد بھی کچھ حاصل نہ آیا۔ یہ سب کرنے کے بجائے اگر پطرس بخاری کی طرح دس دس انشائیوں کے مجموعے ہی اردو زبان کو دے جاتے یا مختار مسعود اور مشتاق احمد یوسفی کے انداز میں زبان سیکھانے پر مصر ہوتے تو اردو کا منظر نامہ اس سے کہیں زیادہ روشن ہوتا ۔
موجودہ عہد میں نئی نسل کی جو ذمہ داری ہے اس کو پورا کرنے کے لیے نئے ادیب صرف شاعری ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اردو زبان میں نئی لفظیات کا ذخیرہ بھی جمع کر رہے ہیں ۔ اردو کی نئی نسل اس بات کو جدیدیت کے نعرے لگانے والوں سے کہیں بہتر سمجھتی ہے کہ کمپیوٹر ، کیلکیولیٹر ،ٹائپ رائٹر اور مشین گنوں کا ترجمہ اردو زبان میں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ وہ اس حماقت آمیز عمل میں وقت ضائع کرنے سے بہتر اردو کے ذخیرہ الفا ظ میں ان کو شمار کرنا زیادہ بہتر سمجھتی ہے ۔ اگر کسی کواس بات کی تحقیق کرنا ہے تو وہ نئی شاعری پڑھ لے ۔ساتھ ہی نئی نسل نے یہ بھی کیا ہے کہ پرانی کہانیوں اور قدیم داستانوں سے استفادہ کر کے اپنی زبان میں سحر انگیزی کا عنصر شامل کرے۔ میں نے خود اپنے ایک مضمون میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ادب کے نئے معیار کو مزید بلند کرنے میں سید کاشف رضا کی تحریروں کی سحر انگیزی کا بڑا ہاتھ ہے۔ نئی نسل کو زبان اگر نہیں آتی ہے تو وہ پرانے شاعروں کا کلام پڑھ پڑھ کے کلاسکیت سے جدیدیت تک کے تجربات کو کس طرح اپنی شاعری میں جذب کر پا رہے ہیں؟کس طرح ان کے اشعار اور گیت اور رباعیات اور دوہے لوگوں کو یاد ہو رہے ہیں؟ کس طرح ان کے مضامین کا تذکرہ اردو کے سنجیدہ ادیبوں کی زبان پر ہے؟ کس طرح ان کے انشائیوں پر انہیں داد مل رہی ہے ؟ کس طرح شمیم حنفی تصنیف حیدر کی نظموں کی تعریف کر رہے ہیں؟کس طرح عتیق اللہ نے اپنے دس جلدوں کے تنقیدی نصاب میں معید رشیدی کا مضمون شامل کیا ہے؟ کس طرح خودفاروقی زمرد مغل کو انٹرویو دے رہے ہیں؟ کس طرح ناموعود اور نو لکھی کوٹھی کو اہل ادب نے سراہا ہے؟ کیوں کاشف رضا اور تصنیف حیدر کی کہانیاں اجمل کمال نے آج میں شائع کی ہیں؟ وہی اجمل کمال جن کو فاروقی صاحب علی گڑھ میں پچھلے دنوں خلیل الرحمان اعظمی کے سیمینار کے موقع پر آج کے کارنامے پر سراہ رہے تھے۔ کس طرح سالم سلیم کو فرحت احساس اتنا عزیز رکھتے ہیں اور کیوں اردو کےادیب وپل کمال، وکاس شرما، ابھیشیک شکلا اور امیر امام کی شاعری کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ نئی نسل کو زبان آتی ہے اور یہ ساری باتیں اس کی دلیل ہیں کہ فاروقی صاحب نئی نسل سے پوری طرح لا علم ہیں اور انہیں اپنی جدیدیت اور اپنے دشمن قبیلے کی مابعد جدیدیت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اگر آتا تو وہ اتنا غیر ذمہ دارانہ اسٹیٹمینٹ ریختہ جیسے مشہور پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ہر گز نہ دیتے۔