راہی معصوم رضا نے اپنے ناولٹ ٹوپی شکلا میں لکھا ہے:
‘یہ بات کہانی اور آپ بیتی دونوں ہی کے اصولوں کے خلاف ہے کہ قاری کو اندھیرے میں رکھا جائے۔قاری اور گاہک میں فرق ہوتا ہے۔مصنف اور دکاندار میں فرق ہوتا ہے۔دکاندار کو اپنی چیز بیچنی ہوتی ہے، اس لیے وہ جاسوسی کتھاکار کی طرح کچھ چھپاتا ہے اور کچھ بتاتا ہے۔ لیکن مصنف کے پاس بیچنے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی۔کہانی کا تانا بانا گف ہو تو قارئین سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔’
اس بات سے قطع نظر کہ کہانی کیسے کہی جائے، یہ سوچنا چاہیے کہ کہانی خود کیا کہتی ہے۔ایک اخبار کی خبر سے متاثر ہوکر کہانی لکھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے، مگر کہانی، کہانی بننی چاہیے، خبر نہیں۔کیونکہ قاری خبر پڑھ چکا ہے اور کہانی خبر کو خبر بنانے والے محرکات پر بات کرتی ہے،کہانی کا بیانیہ سیدھا ہو، ٹیڑھا ہو، گنجلک ہو یا مبہم ہو، لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خبر کی بھیل پر تھوڑی سی چٹنی ڈال کر اسے لوگوں کے سامنے پروس دیں گے تو یہی کہانی کے بنیادی اصول کو سمجھنے میں کی گئی غلطی ہوگی۔راہی معصوم رضا نے جاسوسی کتھاکار کو دکاندار سے تشبیہ دی ہے، میں نے ان کا قول یہاں صرف اپنی بات بڑھانے کے لیے نقل کیا ہے، میرا یہ ماننا بالکل نہیں کہ کوئی جاسوسی کہانی، کہانی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں کچھ چھپایا اور کچھ بتایا جارہا ہے۔بلکہ یہ بعض غیر جاسوسی کہانیوں کا بھی وصف خاص رہا ہے۔بہت سے ایسے لکھنے والے ہیں، جنہوں نے جاسوسی کہانیاں نہیں لکھی ہوں گی مگر یہ بھید بھرا اسلوب انہیں پسند ہوگا۔جیسے ملیالم ادیب ویکوم محمد بشیر کی کہانیاں ہیں۔بشیر بہت کچھ نہیں بتاتے، ان کی کہانیاں بالکل آخر میں نہ سہی، لیکن کسی نہ کسی مقام پر اپنے ایک بالکل انوکھے پہلو سے چونکادیتی ہیں۔اور جب پڑھنے والا چونک اٹھتا ہے تو اس کے ذہن کو دھکا لگتا ہے، وہ اسی مقام سے کہانی کے بارے میں، کہانی میں موجود واقعات کے بارے میں نئی رائے بناتا ہے یا پرانی رائے کو قائم رکھتے ہوئے احتیاط سے آگے بڑھتا ہے۔اچھی کہانیوں کا بہترین پہلو یہ ہے کہ انسان کو Judgmentalہونے سے روکتی ہیں۔لیکن راہی صاحب کی اس بات کو میں بھی مانتا ہوں کہ مصنف کے پاس بیچنے کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اس میں اور دکاندار میں ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ فائدے کے لیے ناپ تول میں کسی قسم کی دھوکا دھڑی کا راستہ نہیں تلاش کرتا۔اب وہ صاف گوئی کا راستہ کیسے اختیار کرتا ہے، قاری کے ذہن کے ساتھ کس طرح کا رویہ اپناتا ہے یہ مکمل طور پر اسی لکھنے والے کا حق ہے۔بعض اوقات مجھے ہندی کہانیوں میں مصنف کا قاری سے لمبا چوڑا ناصحانہ خطاب بور کرتا ہے، یہ پرابلم اردو والوں کے ساتھ نہیں ہے، اردو کے افسانہ نگار یہی کام بیانیے سے لیتے ہیں، وہ بات بڑھاتے رہتے ہیں، جب تک پیرا مکمل نہیں ہوجاتا۔دور کیوں جائیں، خود منٹو کے یہاں یہ مسئلہ موجود ہے، منٹو کو جتنا میں نے پڑھا اس سے میری رائے یہ بنی کہ وہ اقوال لکھنے میں ماہر ہیں، جملے گھڑنے میں ماہر ہیں، ان کی چند بہترین کہانیوں سے قطع نظر زیادہ تر میں منٹو ایک بات کہتے ہیں، جو بہت گہری معلوم ہوتی ہے، اور پھر اس پر لیپ ملنا شروع کردیتے ہیں۔اسی چکر میں انہیں معلوم نہیں ہوتا اور وہ اپنی باتوں کو دوہرائے جاتے ہیں۔منٹو جن واقعات پر کہانی لکھتے ہیں، وہ ان کے سماج میں کتنے ہی متنازعہ حیثیت کے حامل کیوں نہ ہوں، بعض اوقات ان کے تعلق سے بھی وہ جذباتی معلوم ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر منٹو نے بلیو فلم پر کہانی لکھی، برقعے پر کہانی لکھی، جنسی عمل کے دوران پیدا ہونے والی آوازوں سے پیدا ہونے والے فرسٹریشن کو موضوع بنایا، فلم انڈسٹری کے ناکام لوگوں کو ڈھونڈا، مزار پرستی،اخلاقیات کے بھوت اور انسانی نفسیات کے بالکل انوکھے پہلووں پر پاوں رکھنے کی کوشش کی۔مگر وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے معاملات تلاش کرتے ہیں، جن سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی کہانیوں کو ڈسکشن کا موضوع بنائیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کہانیوں کے لیے کچھ جملے پہلے سے سوچتے ہیں اوربعض دفعہ تو پوری کہانی اس جملے کا حق ادا کرنے میں صرف ہوجاتی ہے۔عورت کے معاملات میں بھی منٹو طوائفوں کی نفسیات، ان کے کام کرنے کے طریقوں اور ان سے تعلق کا ذکر کرکے ایک خاص قسم کی جانبدارانہ فضا پیدا کرتے ہیں۔ یہ صرف سوال ہے جس پر ممکن ہے کہ اردو کے ناقدین کچھ منہ ٹیڑھا کریں، لیکن پچھلے دنوں شرت چندر کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے مجھے ایک عجیب سا خیال آیا، خیال بعد میں اور سوال پہلے پیش کرتا ہوں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ منٹو اپنے اور ان طوائفوں کے درمیان ایک قسم کا فاصلہ رکھنے کے لیے اکثر ان کے منہ سے خود کو ‘بھائی’کہلواتے ہیں۔یہ فاصلہ کسی اخلاقی اصول کے زیر اثر نہیں قائم رکھا گیا ہے،بلکہ منٹو کے بارے میں ایسا سوچنا ہی بے وقوفی ہے۔لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور کہانی کار پیش کرنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ طوائف سے ان کا تعلق قاری کا دھیان کسی اور سمت بھٹکادے اوروہ طوائف کی زندگی کو منٹو کا Obsession سمجھ لے۔صرف اس پہلو پر سوچ کر دیکھیے۔یہ سوال شرت چندر کو پڑھتے ہوئے کیسے پیدا ہوا؟
شرت چندر نے اپنی بیشتر کہانیوں میں عورت اور مرد کے جس تعلق کو درشایا ہے، وہ دراصل نام نہاد رشتے ہیں۔ان کی کہانیوں میں لڑکا اور عورت، لڑکی اور مرد، لڑکا،لڑکی یا مرد، عورت۔ایک دوسرے سے سوتیلا، دور کا یا بغیر کوئی رشتہ رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کو بھائی، دیدی یا ایسے ہی ناموں سے پکارتے ہوئے بھی ان سے ایک قسم کے جذباتی تعلق کو محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر مضبوطی سے ڈٹے بھی رہتے ہیں۔سماج میں اس رجحان کو Incestسے تعبیر کرسکتے ہیں، مگر اس سے بچنے کے لیے شرت چندر نے (جو کہ ظاہر ہے ان کے زمانے کی ایک بڑی مجبوری بھی ہوگی)ان رشتوں میں کوئی جسمانی تعلق پیدا نہیں کیا ہے اور کیا بھی ہے تو بے حد احتیاط سے کام لیا ہے۔مگر ان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قاری اس جذباتی لگاؤ سے کسی قسم کے جسمانی تعلق کا تصور پیدا کرکے حظ اٹھا سکتا ہے یا نہیں یا وہ ان رشتوں میں جسمانی تعلق پیدا کرنے کی خواہش کے عنصر کو ڈھونڈ سکتا ہے یا نہیں۔میرا مقصد ان دو کہانی کاروں کا تقابلی مطالعہ نہیں ہے۔میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ اردو کہانی کا بڑا نقصان منٹو کی اس جانبداری سے کیسے ہوا، منٹو اپنے کہانی کار کو بچانے کے چکر میں بعض دفعہ عورتوں کی جسمانی ضرورتوں اور فطری خواہشات کی تذلیل کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
اب آتے ہیں دوسری جانب۔کہانی میرے خیال میں صرف یہی کہتی ہے کہ اس کو جس کا تس قاری کے حوالے کردیا جائے۔اس میں کسی قسم کا گھوٹالہ کرنا، اس کو اپنے فلسفے کی آنچ پر زیادہ تپانا یا پھر اسے بیانیے کی ملمع سازی کا شکار بنانا دونوں غلط باتیں ہیں۔فلسفہ بھی ہو، بیانیہ بھی، مگر کہانی گم نہیں ہونی چاہیے۔بہت سی کہانیوں میں (حالانکہ میرا مطالعہ بے حد کم ہے)فلسفوں کی تپش زیادہ محسوس ہوتی ہے، مذکورہ بالا بیان ہی دیکھیے۔راہی معصوم رضا نے کہانی لکھی ہے، ٹوپی شکلا۔ایک فرد کی کہانی، مگر اس کہانی کے درمیان کبھی وہ دوسری اولاد کے دکھ پر تقریر کرتے ہیں، کبھی کہانی کے فن پر، کبھی فلاں بات پر کبھی فلاں بات پر۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فلسفوں کو کہانی کے درمیان کھپانے کا ان کا طریقہ بہت خوبصورت ہے، جملے بڑے چست، باتیں بہت اہم اور گہری ہیں۔مگر کہانی کو واپس لانا پڑتا ہے۔حالانکہ ہر لکھنے والا کہانی لکھتے وقت اپنا انداز، اپنا بیانیہ اور اپنا اسطور خود گڑھتا ہے اور اس انتخاب کی اسے مکمل آزادی ہے، مگر مجھے ذاتی طور پر ایسی کہانیاں کھلنے لگتی ہیں، جن میں کسی واقعے کے جنم لینے کے اسباب پر مصنف کہانی کے دوران روشنی ڈالنے لگے۔یہ شاید اس کمزوری کی طرف ایک اشارہ ہے، جسے کہانی لکھنے والا خود بھی سمجھ جاتا ہے کہ قاری تک اس کی بات صرف اس کی کہانی نہیں پہنچاسکتی، اس لیے چپکے سے اپنا نقطہ نظر مذہبی متن کی تفسیر کی طرح چپکا دینا ہی زیادہ بہتر ہے۔یہ خیال ان دنوں کچھ اور شدت اس لیے اختیار کرگیا کیونکہ پریمل موروگن کی کہانیوں نے مجھ پر اپنا گہرا اثر ثبت کیا ہے، ان کے مختصر ناول،بھیانک سماجی حادثوں کا ننگا ثبوت ہونے کے باوجود کبھی اس طرح کے جملوں کے روادار نہیں ہوتے کہ ‘رمیش سوچ رہا تھا کہ کیا ہم برسوں تک ایسے ہی رہیں گے؟ کیا ہم کبھی بدل نہیں سکتے؟ وغیرہ وغیرہ’
حالانکہ میں اپنے اس مضمون میں ساری باتیں نہیں کہنا چاہتا، کہانی کی زبان پر کسی اور روز گفتگو ہوگی۔مگر یہ بات سچ ہے کہ ہم نے اس مسئلے پر غور نہیں کیا کہ کہانی کا چھوٹا بڑا ہونا، اس کی قوت کو کم نہیں کرتا۔مگر کہانی کا غیر ضروری طور پر لمبا ہونا اس کی طاقت کو ضرور متاثر کرتا ہے۔مکالمے کی صورت میں لکھی جانے والی کہانیاں کسی کی بھی ہوں، مجھے پسند نہیں آتیں۔اس کے لیے ڈرامہ موجود ہے، میرے خیال میں کہانی میں مکالمہ صرف اسی وقت لکھا جانا چاہیے، جب وہ بے حد ناگزیر ہوجائے۔
خیر، ہندوستانی جامعات کے اردو شعبوں میں تو اردو افسانہ اپنے تمام اجزائے ترکیبی کے ساتھ آج بھی پڑھایا جاتا ہے۔اور ان کے تعارف، ابتدا اور ارتقا پر نوٹس بھی لکھوائے جاتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ کہانی پر سوچنے کے نئے طریقوں کا راستہ کیسے کھولا جائے۔ اجزائے ترکیبی کی مدد سے کسی صنف کو سمجھنا بالکل ویسا ہی مذاق ہے، جیسا کہ اوسط نکالے جانے سے کسی سماج کی اصل معاشی، تعلیمی اور فکری دنیا کو سمجھنے کا دعویٰ کرنا ہے۔آپ افسانے کو مختلف حصوں میں بانٹ کر، یعنی علامت نگاری یا سلیس کہانی یا پتہ نہیں کیا کیا کہہ کر پڑھا تو سکتے ہیں مگر اس سے کوئی ایسا فائدہ پڑھنے والوں کو نہیں ہوگا،جب تک انہیں بھانت بھانت کی کہانیاں پڑھنے کا تجربہ نہ ہو۔ہمیں صرف اردو کی کہانیاں پڑھنے کے بجائے کہانی پڑھنے پر زور دینا چاہیے۔ہندوستان میں بنگالی، تمل، ملیالم، گجراتی، مراٹھی، کشمیری، آسامی اور نہ جانے دوسری کتنی زبانوں کی کہانیاں موجود ہیں، جو یہیں کے مختلف سماجی چہروں کو ان کی جھریوں سمیت دیکھنے کا موقع عطا کرتی ہیں۔یہ کہانیاں چہرے ہوں یا چہروں پر سجے زخم ہوں، مگر ان سے مختلف زمانوں میں انسانی نفسیات، انسانی ارتقا میں حائل بنیادی رکاوٹیں،مختلف تہذیبیں اور موجودہ دور میں ان کی اچھائیوں برائیوں کے تعلق سے مطالعے کا جو موقع ملتا ہے، وہ کسی اور طریقے سے ممکن ہی نہیں۔تکنیکی تنقید نقصان دہ ہے، اس کے بندھے ٹکے اصولوں سے دامن چھڑانا ضروری ہے۔جب ہم ان کہانیوں کو طلبا کی آنکھوں کے میدان میں آزاد چھوڑ دیں گے تو کسی امتحان کی ضرورت نہ ہوگی اور وہ خود کو تخلیقی و فکری اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ محسوس کریں گے۔
یہ مختصر کہانیوں کا دور ہے، اور کئی کہانیاں تو اپنے کامیاب تخلیقی سفر میں ناولز کو مات دے رہی ہیں۔ایسے میں ناول لکھنا آسان اور کہانی لکھنا زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ اور جاتے جاتے ہمارے بہترین تعلیمی نظام کی کامیابی کا ایک روشن پہلو دکھاتا چلوں کہ اب ہمارے پاس ہندوستان کی تازہ نسل میں اردو افسانہ لکھنے والا ایک ایسا نام نہیں، جس کی تخلیقی صلاحیت کہیں سے بھی ذکر کے قابل ہو۔اور یہ نتیجہ ہے اس بات پر کان نہ دھرنے کا کہ کہانی خود کیا کہتی ہے۔