(سریندر پرکاش سے معذرت کے ساتھ)
“شہزادہ طرابلس کے سر پر تاج رکھا گیا۔ شادیانے بجنے لگے۔ امراءاور رؤساء نے اس کو مبارکباد دی۔ ہر تال اور ہر مبارکباد سے طرابلس کے دل میں ملک کو خوشحال بنانے کی ہمت جوان ہوتی گئی۔ سرخ ایرانی قالین پر نظریں جمائے ہوئے اس نے دل ہی دل میں یہ عزم کیا کہ وہ اپنے ملک سے انسانیت دشمن عناصر کا خاتمہ کر دے گا۔ ایک بھی ٹھگ، کوئی بھی ڈاکو اور رشوت خور اس کے ملک میں زندہ نہ رہنے پائے گا۔ پھر ہر طرف امن و امان ہو گا، ہر طرف اس کی جے جے کار ہو گی، لوگوں میں محبت ہو گی، کوئی بھی کسی کی حق تلفی نہ کر سکے گا، کمزوروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس ملک میں تمام لوگوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے گا، مگر میرے لیے اور میرے مقربین کے لیے لوگوں کی نظریں کیوں دوسری طرح کی ہو جاتی ہیں۔
اس نے کھلی ہوئی کتاب بائیں ہا تھ پر رکھی اور دایاں ہاتھ کھلے ہوئے صفحات پر پھیرتے ہوئے قسم کھائی کہ وہ ہر طرح سے اس کتاب کی حفاظت کرے گا۔
تب ہی طرابلس کا باپ آگے بڑھا اور بیٹے کو گلے لگا کر کہنے لگا “بیٹے! یہ ہمارے ملک کی کتاب الدستور ہے۔ ہماری سات پشتوں نے اس کی حفاظت کی اور اس کی تقدیس پر، اس کی آن پر حرف نہیں آنے دیا۔ تم بھی اس کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ کہ اس میں درج قوانین سے انحراف نہیں کرو گے، اور اسی کے مطابق فیصلے کرو گے۔“ طرابلس نے بوسیدہ سی موٹی کتاب کو دیکھا، جس کی جلد پر بے شمار انگلیوں کے نشانات تھے۔ کتاب بائیں ہاتھ میں لے کر اس نے دائیں ہاتھ سے کتاب کے اوراق پلٹے، اندر کے صفحات، جوں کے توں بے داغ تھے، بس قدامت کی وجہ سے قدرے خستگی آ گئی تھی۔ البتہ کتاب کی جلد کو چھوتے ہی ہاتھوں میں چپچپاہٹ کا احساس پیدا ہوا۔ اس نے کھلی ہوئی کتاب بائیں ہا تھ پر رکھی اور دایاں ہاتھ کھلے ہوئے صفحات پر پھیرتے ہوئے قسم کھائی کہ وہ ہر طرح سے اس کتاب کی حفاظت کرے گا۔ اسی کی روشنی میں فیصلے کرے گا، اور ہر حالت میں اس میں درج قوانین پرعمل کرے گا۔ حلف لینے کے بعد جب اس نے کتاب سے ہاتھ واپس اٹھایا تو ساری چپچپاہٹ وہ جذب کر چکی تھی۔
تاج پوشی کی وجہ سے ہر طرف خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ دربار عام میں بھی رقص وسرور کے لیے کئی ٹولیاں آگے بڑھیں۔ لیکن طرابلس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ اور حکم دیا کہ آج عدالت لگے گی اور وہ فیصلے کرے گا۔ چنانچہ امیر عرض آگے بڑھا، جھک کر سلامی دی،اور آواز لگائی ”ملزم اشحاص ابن اکموس کو حاضر کیا جائے۔“ کچھ دیر کے بعد ایک موٹا سا آدمی دو سنتریوں کی موجودگی میں پیش کیا گیا۔ اس کا ایک ہاتھ پیٹ پر تھا، دوسرا جیب پر۔ امیر عرض نے الزام پڑھ کر سنایا۔ ”جہاں پناہ! اس پر الزام ہے کہ یہ اناج کم تولتا ہے، بہت بولتا ہے، لوگوں کی جیبیں ٹٹولتا ہے، اور ملاوٹ کر کے دام خوب وصولتا ہے۔“ اشحاص ابن اکموس آگے بڑھا اورجھک کر سلامی دینی چاہی، لیکن اس کی نظریں قدموں تک پہنچنے سے پہلے ہی پیٹ سے الجھ کر رہ گئیں۔ گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگا ”حضور میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، باہر سے مال ہی ایسا آیا، شاید راستے میں اناج کی بوریاں پھٹ گئیں تھیں، جس سے اناج میں کنکروں کی ملاوٹ ہو گئی۔“
طرابلس نے ہاتھ کے اشارے اسے چپ رہنے کو کہا اور دوسرا ملزم پیش کرنے کا حکم دیا۔ امیر عرض نے سر کو خم کیا اور صدا لگائی ”ملزم گلفش ابن النغرہ کو حاضر کیا جائے۔“ ایک دبلا پتلا سا آدمی زنجیروں میں جکڑا ہوا لایا گیا۔ اس کے چہرے پر لمبی لمبی مونچھیں تھیں، جس کے دونوں کنارے تلوار کے خم کی طرح اوپر اٹھے ہوئے تھے۔ لمبی سی طوطے جیسی ناک ہونٹوں تک جھکی ہوئی تھی۔ امیر عرض نے الزام پڑھ کر سنایا۔ ”جہاںپناہ اس پر الزام ہے کہ یہ لوگوں میں دشمنی پیدا کرتا ہے۔ اپنی فہم کا غلط استعمال کرتا ہے۔ لمحوں میں یہ دو بہترین دوستوں کو اتنا بھڑکا دیتا ہے کہ دیرینہ دوست بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی لڑکی رکمہ بنت گلفش ہشتارہ کے سروں سے لوگوں کو اس قدر مسحور کر دیتی ہے کہ سننے والا اچھے برے کی تمیز ہی کھو بیٹھتا ہے۔ وہ اپنی موسیقی سے لوگوں کے دلوں میں بےہودہ قسم کے جذبات پیدا کر دیتی ہے، نیز اپنے باپ کی شر انگیز مہمات میں اپنے فن کا استعمال کرتی ہے۔“ طرابلس نے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور امیرعرض اپنا سر خم کرتے ہوئے الٹے قدموں واپس اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔
رکمہ بنت گلفش کو لوگوں کو بھڑکانے، انسانیت کے خلاف کام کرنے والے گلفش ابن النغرہ کی مدد کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا جائے، اور تینوں کو، یعنی اشحاص ابن اکموس، گلفش ابن النغرہ اور رکمہ بنت گلفش کو کل سر عام پھانسی دے دی جائے۔
طرابلس کچھ دیر خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر ایک نگاہ حاضرین پر ڈالی، کنکھار کے گلا صاف کیا، اور فیصلہ سنایا۔ ”رکمہ بنت گلفش کو لوگوں کو بھڑکانے، انسانیت کے خلاف کام کرنے والے گلفش ابن النغرہ کی مدد کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا جائے، اور تینوں کو، یعنی اشحاص ابن اکموس، گلفش ابن النغرہ اور رکمہ بنت گلفش کو کل سر عام پھانسی دے دی جائے۔ امراءکی سانسیں ایک لمحے کے لیے رک گئیں۔ انہوں نے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں، جو انہیں حلق میں پھنستی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ایک امیر نے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی اور یوں گویا ہوا ”جہاں پناہ آپ کا فیصلہ بلاشبہ عوام کے حق میں ہے۔ آپ کا فیصلہ ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن جہاںپناہ، ایک بار،اگر آپ کی اجازت ہو تو صرف ایک بار۔۔۔۔۔ آخری مرتبہ رکمہ کی موسیقی سن لی جائے وہ ہشتارہ بہت اچھا بجاتی ہے۔طرابلس نے کچھ پس و پیش کے بعد سر کے اشارے سے اجازت دے دی، اور چند لمحے سوچنے کے بعد رکمہ کو دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی جشن کے شروع کرنے کی اجازت۔
اجازت ملتے ہی ایک رقاصہ آگے بڑھی، جھک کر سلامی دی، اور طبلے کی تھاپ پر رقص کا آغاز کیا۔ ابھی رقص اپنے شباب پر بھی نہیں پہنچا تھا کہ ایک محافظ نے رکمہ کو پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ طرابلس نے رقص کے دوران ہی اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سر سے پیر تک کپڑوں میں لپٹی ہوئی ایک دوشیزہ ہاتھوں میں سازسنبھالے ہوئے حاضر ہوئی۔ اس کے قدموں کے چاپ سے بھی موسیقی پھوٹی پڑ رہی تھی۔ تخت کے قریب پہنچ کر وہ جھکی، اور ایک طرف ہو کر کھڑی ہو گئی۔ رقص کے بعد طرابلس نے اس کو اپنا فن پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس نے جھک کر شکریہ ادا کیا، اور ساز سنبھال کر ایک دھن چھیڑی، بہت دھیمے دھیمے کہ حاضرین موسیقی کے ساتھ ساتھ ملفوف حسن اور پیٹ کے مسائل کے بارے میں بھی سوچتے رہے۔ آہستہ آہستہ موسیقی تیز ہوتی چلی گئی۔ اب اس بھرے پرے دربار میں موسیقی ہی یک وتنہا بول رہی تھی۔ ہر شئے ساکت، طرابلس جو کچھ دیر پہلے ملک کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنا رہا تھا دھن کی لہروں پر بہہ نکلا، اب نہ تو حسن کا خیال تھا، نہ ہی پیٹ کا مسئلہ، اور نہ بادشاہ کی موجودگی احساس۔ ہر ایک اپنے آپ کو موسیقی کی لہروں کے سپرد کر چکا تھا۔ جو سحرآگیں نشیب و فراز سے گزر رہی تھی، لہراتے ہوئے پہاڑ کی بلندی کی طرف گامزن، گرتے ہوئے تیز جھرنوں کی شکل میں سمندر کی جانب، اور قریب تھا یہ لہریں سمندر سے ہم آہنگ ہو کر دوئی کو ختم کر دیں، پہاڑ کی بلندیوں کو پہنچ کر نشیب کی طرف سفر شروع کر دیں، کہ موسیقی رک گئی۔ ساز کے سارے تار الجھ گئے۔ وہی ساز، وہی انگلیاں جو ایسی کیفیت پیدا کر دیتی تھیں کہ ہر شخص دماغ کے بجائے محض اس کی دھنوں پر سب کچھ کر گذرتا تھا، آج اس نے سامعین کو بلندیوں کی معراج کے قریب لے جا کر چھوڑ دیا اور سب عرش سے فرش پر آ رہے۔ رکمہ بنت گلفش کی انگلیاں خون سے شرابور تھیں۔ اور ان پر ٹوٹے ہوئے تاروں کی کئی کئی لپٹیں انگلیوں کی عظمت کا احساس دلا رہی تھیں۔ طرابلس نے بیٹھے بیٹھے اپنے دونوں پیر کچھ اوپر اٹھائے، پھر جنھجھلا کر پٹک دئیے۔ ہوا میں لہراتا ہوا ہاتھ گویا بے جان ہو کر تخت کے قبضے پر آ گرا۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طرابلس جھنجھلا کر کھڑا ہو گیا اور لڑکی کو تخت کے قریب بنے چبوترے پرلانے کا حکم دیا۔ فوراً تین کنیزوں نے رکمہ کو اٹھا کر چبوترے پر لٹا دیا۔
کہانی کار نے قلم بند کر کے پیٹھ کرسی کی پشت سے ٹکائی۔ آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سی سانس لی۔”ہاں! اب کہانی کلائمکس پر پہنچ چکی ہے۔ لیکن میری کہانی کا کردار کچھ زیادہ سخت ہو گیا ہے۔ یہ تو میرے تخلیق کردہ پلاٹ سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تو میری مرضی کے خلاف جا رہا ہے۔ حالانکہ میں نے اس کردار کی تخلیق اس لیے کی تھی کہ وہ صبر و سکون اور خوش اسلوبی کے ساتھ معاشرے کو سنوار دے، لیکن یہ تو انتہا پسند اور جذباتی ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف گناہوں سے نہیں بلکہ گناہ گاروں سے بھی نفرت کرتا ہے۔ اس طرح تو ملک کا ایک بڑا حصہ جیل بن جائے گا، یا بیشتر لوگ موت کے گھاٹ اتار دئیے جائیں گے۔ جب بروں اور برائیوں کا سرے سے خاتمہ ہو جائے گا تو اچھائیوں اور اچھے لوگوں کی کیا قیمت ہو گی۔ مجھے کہانی کو نیا موڑ دینا چاہیے۔ “ کہانی کار نے قلم دانتوں میں دباتے ہوئے سوچا ”آخر اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے۔ شاید دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود یا احساس نا ممکن ہے لیکن یہ لڑکی بے ہوش کیوں ہو گئی۔ “
تب ہی کاؤنٹر کی دوسری جانب تیز تیز بات کرنے کی آواز سنائی دی۔ کوئی لڑکا لائبریری اسٹاف سے کہہ رہا تھا کہ ”کیا سارے اصول ہمارے ہی لیے ہیں۔ میں جو کتاب اِیشو [issue ] کرانا چاہتا تھا یہ کہہ کر مجھے نہیں دی گئی کہ ریزرو [Reserve ]ہے، ایشو نہیں ہو سکتی۔ لیکن روما نے کیسے ایشو کرا لیا؟ “ اوہ ہاں! وہ لڑکی بے ہوش ہوگئی۔ اس کی کیا وجہ لکھی جائے۔ طرابلس بہت سخت ہے اس کو نرم اور معتدل مزاج ہونا چاہیے۔ تب ہی وہ معاشرے کی اصلاح کر سکتا ہے۔ کوئی نرمی اور پیار سے طرابلس کو سمجھائے اب کہانی یوں آگے بڑھنی چاہئیے کہ طرابلس لڑکی کو ہوش میں لانے کی ترکیب کرتا ہے اور چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے۔کہانی کار نے قلم سنبھال کر پھر لکھنا شروع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طرابلس جھنجھلا کر کھڑا ہو گیا اور لڑکی کو تخت کے قریب بنے چبوترے پرلانے کا حکم دیا۔ فوراً تین کنیزوں نے رکمہ کو اٹھا کر چبوترے پر لٹا دیا۔ وہ کچھ دیر تک خاموش کھڑا رہا، کھویا ہوا۔ اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے، اور مٹھیاں تیزی سے کھل رہی تھیں، بند ہو رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد اچانک بے خیالی سے چونک پڑا اور پانی لانے کا حکم دیا۔ ایک کنیز نے صراحی سے پانی انڈیل کر ادب کے ساتھ پیش کیا۔ طرابلس نے نقشین پیالہ ہاتھ میں لیا اور داہنا ہاتھ بھگو کر لڑکی کے چہرے کے قریب لے گیا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر ہٹا لیا۔ پانی کے چند قطرے رکمہ کے سیاہ نقاب سے ڈھکے ہوئے چہرے پر ٹپک پڑے، کپڑے کے بھیگے ہوئے حصے سے جلد کی سرخی و سپیدی جھلکنے لگی۔ طرابلس رکمہ کے چہرے کے قریب دو زانوں بیٹھ گیا۔ داہنا ہاتھ دو بارہ کٹورے میں ڈالا، پھر کچھ سوچ کر واپس نکال لیا۔ اچانک اس کے ذہن میں کوئی خیال آیا اور اس نے جھٹکے سے چہرے کی نقاب ہٹا دی۔ حسین و با رعب نسوانی چہرہ، شوخی و فکر،اور نہ جانے کتنی طرح کی شعاعیں بیک وقت پھوٹ رہی تھیں کہ اس نے گھبرا کر سارا پانی اس کے چہرے پر انڈیل دیا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی کار سوچ میں پڑ گیا۔ طرابلس کو دیوانے یا مجنوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مصلح، مفکر اور ہوش مند کی حیثیت سے پیش کرنا ہے، جو ایک پر امن سماج کی مثال پیش کر سکے۔ اگر میں اس کی ملاقات رکمہ جیسی لڑکی سے کرا رہا ہوں تو جہاں اس بات کے امکانات ہیں کہ وہ معتدل ہو جائے، وہیں ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ مزید تیز و تند ہو جائے۔ یا پھر قدیم کہانیوں کا مجنوں بن جائے۔ لیکن یہ سب تو میرے بس میں ہے کہ میں کس طرح سے کردار کو پیش کرتا ہوں۔ ایسا ہے کہ رکمہ بنت گلفش کا ایسا خاکہ تیار کروں جو محض حسین ہی نہ ہو بلکہ نرمی، مستقل مزاجی، کشادہ دلی اور پاکیزگی کی علامت بھی ہو، جو نرمی سے اسے سمجھا کر سیدھے راستے پر لا سکے۔ اس کے جذبات کو اعتدال پر رکھ سکے۔ کچھ یوں کہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الماریوں میں لگی ہوئی کتابوں سے چند کردار بڑی آہستگی سے باہر نکل آئے۔ پھر تو جیسے کرداروں کا جم غفیر امڈ پڑا، جن کے پیچھے تخلیق کار کف افسوس ملتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
”کشادہ پیشانی، بالوں میں مانگ نکالنے پر پیشانی کے عین بیچ وبیچ ایک محراب کی شکل نمایاں ہو جائے، مقدس محراب۔ کم خوابی اور بے پناہ محنت کی وجہ سے حلقوں سے کچھ باہر نکلی ہوئی، بڑی بڑی آنکھیں، جس میں فکر کی گہرائی ہو، کشش ہو۔ ناک کے نچلے حصے، جہان ناک اور رخسار آپس میں ملتے ہیں، ایک ہلکی، موہوم سی لکیر، جوہونٹوں میں نیچے کی جانب ہلکا سا خم پیدا کر دے، جس کو دیکھ کر انسان کی فکرمیں تیزی آ جائے۔ سرخ یاقوتی ہونٹ۔ بالائی ہونٹ کے دونوں گوشے کچھ اندر کی جانب دبے ہوئے۔ نچلے ہونٹ کے دونوں کنارے باریک، مگر درمیانی حصہ نسبتا بھرا پورا۔ بھرے ہوئے حصے کے عین بیچ میں جمالیاتی حس کو بیدار، اور لذت دہن کو سیراب کر دینے والی ایک موہوم سی نہر۔ اور آواز آواز ایسی کہ کانوں میں شہد گھول دے۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ بے قابو کردار، کیا پتھر کا کوئی حسین مجسمہ ہے کہ جس کے کانوں میں شہد گھولو ہاں! اس نے دیکھا اور پتھر کا ہو گیا۔اب کھنکتا ہوا حسین قہقہہ لگاؤ، یا ملٹری پریڈ کی کرخت آواز سناؤ۔ ہاں ! میرا یہ ٹوٹا ہوا جوتا کافی آواز کرتا ہے۔ کل ہی دوسرا خریدوں گا۔ مگر پیروں کے بجائے یہ جوتا کانوں میں کیوں بج رہا ہے۔
کھٹ کھٹ کھٹ لائبریری کے چکنے فرش پر نوکدار سینڈل کی تیز آواز ”اچھا تو یہ روما ہے۔ سینڈل کی آواز میں بھی غصہ شامل ہے۔ شاید اس نے لڑکے کی بات سن لی ہے۔ وہ تیزی سے کہانی کار کے پاس سے گزر گئی۔ اس کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکا۔ لیکن انگلیاں یہ انگلیاں روما کی ہیں یا رکمہ بنت گلفش کی؟ ان انگلیوں میں تو قلم پھنسا ہوا ہے۔ جب کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے یہی انگلیاں ساز کے تاروں سے الجھی ہوئی تھیں۔ اس کی حرکتیں تو میرے تخلیق کردہ کردار سے ملتی جلتی ہیں۔ تصور کی آنکھوں سے میں نے کچھ دیر پہلے رکمہ کو ایسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جسم کی ساخت بھی تو ویسی ہی ہے۔ شاید وہ واپس آ رہی ہے۔ ارے یہ کیا اس کا چہرہ بھی تو بالکل ویسا ہی ہے، جیسا میں نے قلم سے بنایا تھا۔ یہ روما ہے یا رکمہ؟ کیا میری تحریرمجسم ہو کر روما کی شکل اختیار کر گئی ہے؟ اتنی جلدی تخلیق مکمل ہونے سے قبل ہی مجھ سے علیحدہ ہو گئی۔ کتنا خون پلا کر تخلیق کار کسی تخلیق کی تکمیل کرتا ہے۔ اور وہ مکمل ہونے کے بعدنہ صرف خود اپنی علیحدہ شناخت قائم کر لیتی ہے، بلکہ تخلیق کار کو اکیلا چھوڑ کر کسی اور کی تخلیق میں ڈھل جاتی ہے۔ لیکن میں نے تو ابھی اس کومکمل بھی نہیں کیا تھا۔ “کہانی کار نے اپنی کہنیاں میز پر ٹکا دیں اور دونوں ہتھیلیوں پر اپنا چہرہ رکھ کر ایک ٹک الماریوں میں لگی ہوئی کتابوں کو دیکھنے لگا۔ الماریوں میں لگی ہوئی کتابوں سے چند کردار بڑی آہستگی سے باہر نکل آئے۔ پھر تو جیسے کرداروں کا جم غفیر امڈ پڑا، جن کے پیچھے تخلیق کار کف افسوس ملتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان میں کچھ ایسے عظیم اور خوبصورت کردار تھے، جن کے بے شمار بال بچے بھی تھے۔ لیکن ان کرداروں کے خالق اس قدرکوتاہ قد اور چھوٹے تھے کہ ان کو پہچاننا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ بعض طاقت ور، عظیم کرداروں نے مقبول و معروف تخلیق کاروں سے انسیت دکھائی۔ اور ان کا بھی خون پی کر مزید جواں اور خوبصورت ہوتے چلے گئے۔ اور تخلیق کار مزید جھکتا چلا گیا۔ ننھے منے بچے سمجھ کر جب انہوں نے اپنے اپنے کرداروں کو سمیٹنا چاہا تو کرداروں نے اپنے چہرے آگے کر دئیے۔ ان کے چہروں سے اچانک تیز روشنی نکلی، اور تخلیق کاروں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ وہ سب اپنے اپنے کرداروں کو محض ایک بار دیکھ لینے کی خواہش میں مزید جھکتے چلے گئے حتی کہ ان کی داڑھیاں فرش سے جا لگیں۔ مختلف عظیم کہانی کاروں کے تمام جانے پہچانے اور مکمل کرداروں نے مل کر میری کہانی کے کرداروں کو اکسانا شروع کیا کہ جلد از جلد مکمل ہو جاؤ، بلکہ اس کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی تکمیل خود کرو۔
تب ہی پیچھے سے ایک سریلی آواز، احساس کے نہ جانے کتنے گوشوں کو چھوتی ہوئی، بدن کی ساری نسیں رباب کے تاروں کی طرح بج اٹھیں۔ مدھم مدھم موسیقی، دل نے تھاپ ملائی۔ یہ تو روما ہے۔ وہی جو ابھی ابھی یہاں سے گذری ہے۔ جو میری کہانی کا کردار ہے۔ اس کی آواز بھی تو رکمہ کی موسیقی سے مشابہ ہے کہانی کار نے پلٹ کر دیکھا اور پتھر کا ہو گیا۔ کہانی سے بھاگ نکلنے والا کردار واپس آیا۔ اس نے اپنی مرضی کے مطابق خود اپنی تکمیل کی، اور کہانی کار کے ہاتھ سے قلم چھین کر کہانی یوں لکھنی شروع کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے زندگی میں پہلی بار دل میں وہ حرارت محسوس کی، جس کی تپش میں زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس ہلکی سی تپش نے سارے عزم اور بڑے بڑے ارادے ایک آن میں جلا کر خاکستر کر دئیے۔
“بوکھلا کر اس نے کٹورے کا سارا پانی اس کے چہرے پر الٹ دیا۔ لیکن فوراً اپنی گھبراہٹ کا احساس ہوا۔لہٰذا چپکے سے اس نے ایک نظر درباریوں پر ڈالی۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے رکمہ کی نرم گرم پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا۔ جس کی خوش کن حرارت ہاتھوں اور آنکھوں کے ذریعہ اس کے رگ و پے میں اترتی چلی گئی، اور وہ ہر چیز سے بے خبر اس کے چہرے میں کھو گیا۔ بند پلکیں گویا ایک نیم دائرے میں جنبش کرتی ہوئی چونٹیوں کا روشن ہالہ۔ لبوں سے جھانکتے ہوئے دانت جیسے انار کے سرخ اور شفاف دانوں سے جھلکتی ہوئی بیجیں۔ ایک لے پر سانسوں کی رفتار۔ جلد اس قدر شفاف کہ گزرتی ہوئی ہوا کو بھی گردن کی نلیوں میں محسوس کیا جا سکے۔ جزئیات سمیت اس کا مکمل عکس طرابلس کے آئینہ دل میں روشن ہو گیا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار دل میں وہ حرارت محسوس کی، جس کی تپش میں زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس ہلکی سی تپش نے سارے عزم اور بڑے بڑے ارادے ایک آن میں جلا کر خاکستر کر دئیے۔ اب نہ کوئی منصوبہ رہا نہ مملکت کے مسائل۔ تصورات کے افق پر اب صرف ایک چہرہ روشن تھا۔ اس افق سے پرے دوسرے افق پر کچھ اتھل پتھل ہوئی۔ درباری آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے، جس سے طرابلس کا انہماک ٹوٹا، اس نے ایک تیز نگاہ درباریوں پر ڈالی، تمام لوگ بالکل خاموش ہو گئے۔ اس نے گردن دوبارہ سیدھی کی اور زیرلب مسکرا پڑا۔ ایک نگاہ بے ہوش سراپے پرپر ڈالتے ہوئے ایک لمبی سانس کھینچی اور کھڑا ہو گیا۔ پھر حاضرین کی طرف منہ کر کے کہنے لگا۔ ”ہمارے انصاف سے شاید اس لڑکی کو صدمہ پہنچا ہے۔ غالباً یہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتی ہے۔ ہمیں پہلے اس کا بیان سن لینا چاہیئے تھا۔ لیکن چونکہ ہم جلد از جلد مملکت میں امن چاہتے ہیں، اس لیے جلد بازی میں تینوں کے لیے پھانسی کا حکم صادر کرگئے۔ یعنی اس کتاب الدستور کے پہلے ہی قانون سے انحراف۔ اس کتاب کا پہلا حکم یہ ہے کہ لاکھوں مجرم چھوٹ جائیں،لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے۔ پھر ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔لہٰذا ہم پھانسی کی سزا منسوخ کرتے ہوئے یہ حکم دیتے ہیں کہ فیصلہ ہونے تک ملزم اشحاص ابن اکموس اور گلفش ابن النغرہ کو حراست میں رکھا جائے اور رہی رکمہ بنت گلفش تو ہمارے خیال میں اس کا کوئی جرم نہیں ہے۔ وہ تو ایک فن کارہ ہے، جو اپنا فن پیش کرتی ہے۔ اب اگرکوئی اس سے غلط اثرات اخذ کرتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور۔ ہم باغباں کو محض اس لیے توسزا نہیں دے سکتے کہ وہ گلاب کے پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹوں کی بھی پرورش کرتا ہے۔ چنانچہ ہم رکمہ بنت گلفش کو باعزت بریں کرتے ہیں۔ ایک لمحے توقف کے بعد اس نے دربار برخواست کرنے کا حکم دیا۔ کپڑوں کی سرسراہٹ ہوئی۔ سارے درباری کھڑے ہو گئے۔ جھک کر تعظیم دی، اور ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔
درباریوں کے رخصت ہو جانے کے بعدطرابلس نے طبیب کو طلب کیا۔ فوراً ایک باریش بزرگ حاضر ہوئے۔ اور طربلس کے حکم کے انتظارمیں ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد طرابلس نے ایک پر غرور نگاہ طبیب پرڈالی اور تخت کے قریب لیٹی ہوئی لڑکی طرف اشارہ کر کے کہا ”اس کو شاہی مہمان خانے میں لے جاؤ اور اس کے علاج میں شب و روز ایک کر دو“۔ طبیب کا جواب سنے بغیر وہ اپنے محل کی طرف واپس چل پڑا۔ چند قدم چل کر پھر ٹھہر گیا۔ اور کہا ”ہاں ! آج شام آ کر اس کی خیریت سے آگاہ کرو۔“
واپس آکر اپنے آرام دہ بستر پر لیٹ گیا، اور دیر تک رکمہ کے متعلق سوچتا رہا۔ اس کے تصور نے دن کو آہستہ آہستہ سنولا دیا۔ شام کے چوتھے پہر طبیب نے آکر اطلاع دی کہ اب اس کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ بس انگلیوں کے زخم رہ گئے ہیں۔ وہ بھی دو تین دن میں بھر جائیں گے۔ طرابلس نے ان باتوں کو بغور سنا، لیکن بظاہر نظرانداز کرتے ہوئے، طبیب کو مہمان خانے میں انتظار کرنے کا حکم دیا۔
طبیب کے جانے کے بعد اس نے کنیزوں کی مدد سے ہاتھ منہ دھوئے، کپڑے تبدیل کیے، خوشبو لگائی، ہیروں سے مزین پگڑی سر پر رکھی۔ ایک کنیز نے آگے بڑھ کر قیمتی تلوار اس کی کمرسے باندھ دی۔ طربلس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ایک تنقیدی نگاہ اپنے سراپے پر ڈالی اور مطمئن ہو کر مہمان خانے کی طرف چلا۔ حکم کے مطابق دو ملازم پھولوں اور پھلوں کی ٹوکریاں لے کر ساتھ ہو لیے۔ راستے بھر طرابلس خاموش رہا، بس پیروں تلے سرخ بجریاں دب کر احتجاجاً چیختی رہیں۔
مہمان خانے کے دربانوں نے جھک کر سلامی دی، اور دروازہ کھول کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ نقیب نے آوز لگائی ”عقل و دانش آگاہ رہے، شہنشاہ، عالم پناہ، ظل سبحانی، جہاں پناہ، حضرت طرابلس تشریف لا رہے ہیں۔“ مہمان خانے کے در و دیوار سے ٹکرا کر یہ آوز دیر تک گونجتی رہی۔ رکمہ نے بھی اس آوز کو سنا مگر لیٹی رہی۔ طرابلس وسیع و عریض غلام گردش کو طے کرتا ہوا مہمان خانے میں داخل ہوا جہاں طبیب نے اس کا استقبال کیا، اور وہ دونوں ملازم سمیت مہمان خانے کے ایک کمرے میں داخل ہوا۔ رکمہ بظاہر چونک کر کھڑی ہونے لگی۔ لیکن طرابلس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا اور خیریت دریافت کی۔
“جہاں پناہ کا اقبال بلند ہو۔ آپ کی عنایت سے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس انگلیوں کے زخم رہ گئے ہیں۔ پھر پھانسی لیکن عالیجاہ آپ کو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی حکم دیا ہوتا، کنیز خود حاضر ہو جاتی۔“
طرابلس نے ایک لمبی سانس لی۔ گردوپیش پر نظر ڈالی اور ”تخلیہ“ کہا۔ سب کے چلے جانے کے بعد طرابلس نے کہا ہم تمہیں ایک خوشخبری سنانے آئے ہیں۔ ہم نے تمہارے قصور کو معاف کر دیا۔“
“جہاں پناہ کی رحم دلی سے کنیز کو ایسی ہی امید تھی۔ لیکن میرے والد محترم۔ “
شاہی طبیب کے علاج کی وجہ سے تیسرے ہی دن اس کا زخم بھر گیا اب وہ اس قابل ہو چکی تھی اپنی ادھوری موسیقی کو پورا کر سکے۔
“ان دونوں کا فیصلہ بعد میں ہو گا“۔ لیکن رکمہ تم بے ہوش کیسے ہو گئی“ طرابلس نے اس کی آنکھوں میں اتر کر پوچھا۔
“حضور مجھے خود بھی معلوم نہیں۔ میں سروں کے ساتھ محو پرواز تھی کہ اچانک میری انگلیاں ساز کے تاروں سے الجھ گئیں۔ پھر مجھے ایسا لگا کہ بہت اونچائی پرپرواز کرتے ہوئے اچانک میرے بال و پر جل گئے اور میں نیچے آ گری۔ اس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا۔“ رکمہ نے اپنی زخمی انگلیوں کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ طرابلس کو یہ انگلیاں اپنے دل و دماغ میں پیوست ہوتی ہوئی نظر آیئں۔ کانوں میں اسی ادھوری موسیقی کی گونج سنائی دینے لگی، جس نے اس کے نقطہ نظر تک کو تبدیل کر دیا۔ اب اسے رشوت خوری اور اٹھائی گیری میں بھی فن کاری نظر آنے لگی۔ جیسے موسیقی۔ ہوا میں بھی موسیقی ہوتی ہے۔ یہ خس وخاشاک کو اڑا لے جاتی ہے۔ لیکن رکمہ اور اس کی موسیقی۔ یہ سوچتے اس نے اس کی آنکھوں میں جھانکنا چاہا لیکن رخسار کے قریب پڑے ہوئے زخمی ہاتھ سے اس کی نگاہیں الجھ گئیں اور ندامت سے اس کا سر جھکتا چلا گیا۔
“حضور مجھے خود بھی معلوم نہیں۔ میں سروں کے ساتھ محو پرواز تھی کہ اچانک میری انگلیاں ساز کے تاروں سے الجھ گئیں۔ پھر مجھے ایسا لگا کہ بہت اونچائی پرپرواز کرتے ہوئے اچانک میرے بال و پر جل گئے اور میں نیچے آ گری۔ اس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا۔“ رکمہ نے اپنی زخمی انگلیوں کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ طرابلس کو یہ انگلیاں اپنے دل و دماغ میں پیوست ہوتی ہوئی نظر آیئں۔ کانوں میں اسی ادھوری موسیقی کی گونج سنائی دینے لگی، جس نے اس کے نقطہ نظر تک کو تبدیل کر دیا۔ اب اسے رشوت خوری اور اٹھائی گیری میں بھی فن کاری نظر آنے لگی۔ جیسے موسیقی۔ ہوا میں بھی موسیقی ہوتی ہے۔ یہ خس وخاشاک کو اڑا لے جاتی ہے۔ لیکن رکمہ اور اس کی موسیقی۔ یہ سوچتے اس نے اس کی آنکھوں میں جھانکنا چاہا لیکن رخسار کے قریب پڑے ہوئے زخمی ہاتھ سے اس کی نگاہیں الجھ گئیں اور ندامت سے اس کا سر جھکتا چلا گیا۔
ندامت سے بھیگی ہوئی آواز میں کہنے لگا ”رکمہ! ہم بہت بڑی غلطی کرنے جا رہے تھے لیکن تم نے بچا لیا۔ ہم تمہارے شکر گذار ہیں۔ ہاں! زخم ٹھیک ہوتے ہی اس ادھورے نغمے کو ضرور پورا کرنا۔ دیکھو تمہارا۔۔۔ تمہارے فن کے تصور ہی نے رات کو گہرا دیا۔ رات ہو گئی اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچھا اب ہم چلتے ہیں طبیب اور مہمان خانے کا عملہ تمہارا پورا خیال رکھے گا۔“ رکمہ نے جاتے ہوئے شہزادے کو دیکھا اور زیر لب مسکرا کر آہستہ سے کہا ”موسیقی کا تصور ؟”
شاہی طبیب کے علاج کی وجہ سے تیسرے ہی دن اس کا زخم بھر گیا اب وہ اس قابل ہو چکی تھی اپنی ادھوری موسیقی کو پورا کر سکے۔ اسی ادھوری موسیقی کو جو رات کو سنولا دیتی ہے جس کو سن کر لوگ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں۔ طرابلس بھی مملکت کی مصروفیات میں سب کچھ بھول چکا تھا، لیکن ڈوبتے ہوئے سورج اور شفق کی سرخی نے اسے سب کچھ دوبارہ یاد دلا دیا۔ اسے وہ سانولی شام یاد آئی جب اس نے رکمہ بنت گلفش سے باتیں کی تھیں۔ وہ ادھوری موسیقی یاد آئی جس کو سن کر وہ کسی اور دنیا میں پہنچ گیا تھا، نہایت حسین دنیا، آج کی شام بھی کتنی سہانی ہے۔ طرابلس ٹہلتا ہوا مشرقی برج تک پہنچ گیا، جس کے نیچے دریائے غیاب نرم روی سے بہہ رہا تھا۔ اور دور مشرق میں کافی اونچائی سے ایک آبشار گررہا تھا، جس کا پانی دریائے غیاب میں آکر یوں مل رہا تھا جیسے کوئی گھڑوں موتی دریا میں انڈیل رہا رہا ہو۔ آبشار کے گرنے، اور اس کے پانی کے دریا میں شامل ہونے سے ایک موسیقی، جلترنگ جیسی موسیقی بکھر رہی تھی۔ طرابلس کو وہ ادھوری موسیقی اور بھی شدت سے یاد آئی۔ اس نے رکمہ کو طلب کیا۔
شاہی طبیب کے علاج کی وجہ سے تیسرے ہی دن اس کا زخم بھر گیا اب وہ اس قابل ہو چکی تھی اپنی ادھوری موسیقی کو پورا کر سکے۔ اسی ادھوری موسیقی کو جو رات کو سنولا دیتی ہے جس کو سن کر لوگ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں۔ طرابلس بھی مملکت کی مصروفیات میں سب کچھ بھول چکا تھا، لیکن ڈوبتے ہوئے سورج اور شفق کی سرخی نے اسے سب کچھ دوبارہ یاد دلا دیا۔ اسے وہ سانولی شام یاد آئی جب اس نے رکمہ بنت گلفش سے باتیں کی تھیں۔ وہ ادھوری موسیقی یاد آئی جس کو سن کر وہ کسی اور دنیا میں پہنچ گیا تھا، نہایت حسین دنیا، آج کی شام بھی کتنی سہانی ہے۔ طرابلس ٹہلتا ہوا مشرقی برج تک پہنچ گیا، جس کے نیچے دریائے غیاب نرم روی سے بہہ رہا تھا۔ اور دور مشرق میں کافی اونچائی سے ایک آبشار گررہا تھا، جس کا پانی دریائے غیاب میں آکر یوں مل رہا تھا جیسے کوئی گھڑوں موتی دریا میں انڈیل رہا رہا ہو۔ آبشار کے گرنے، اور اس کے پانی کے دریا میں شامل ہونے سے ایک موسیقی، جلترنگ جیسی موسیقی بکھر رہی تھی۔ طرابلس کو وہ ادھوری موسیقی اور بھی شدت سے یاد آئی۔ اس نے رکمہ کو طلب کیا۔
مشرقی برج کے قریب غالیچہ کا فرش لگا دیا گیا۔ ادھر رات نے چودہویں کے تھال نما چاند سے ہلدی اور صندل کا لیپ نکال نکال کر اپنے بدن پر ملنا شروع کیا اور خود سے شرمانے لگی۔ لجاتی بل کھاتی وہ کبھی دریا کی گہرائی میں چلی جاتی تو کبھی اونچی چٹانوں سے چھپ کر جھانکتی۔ رکمہ آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی رات کے دامن سے نکل کر نمودار ہوئی اور طرابلس نے چاندکو اپنے پہلو میں پایا۔
“رکمہ ہم وہی ادھوری موسیقی سنا چاہتے ہیں۔“طرابلس نے کہا۔
“جہاں پناہ موسیقی کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ جب تک دل مطمئن نہ ہو، جب تک حالات اس کے لیے سازگار نہ ہوں، کسی نغمے یا دھن کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا۔“
“حالات کے سازگار ہونے سے تمہارا مطلب۔“ طرابلس نے قدرے برہمی اور تعجب سے پوچھا۔
“جہاں پناہ اگر میری جاں بخشی کی ضمانت دیں تو یہ کنیز کچھ عرض کرے۔“
طرابلس کے وعدے پر رکمہ کہنے لگی ”حضور ! میرے والد محترم کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ تو لوگوں کو ان کی شئے مطلوبہ کے حصول کے طریقے بتاتے ہیں۔ اب اگر لوگ لڑ بیٹھتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ؟ انہوں نے کسی کو مارنا پیٹنا تو درکنار آج تک کسی کو گالی بھی نہیں دی۔”
جہاں پناہ موسیقی کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ جب تک دل مطمئن نہ ہو، جب تک حالات اس کے لیے سازگار نہ ہوں، کسی نغمے یا دھن کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا
“ہاں! ہم بھول گئے تھے۔“ طرابلس نے کہا۔ ”ہم نے بھی تحقیق کر لی ہے۔ ہمیں بھی اس کا کوئی قصور نظر نہیں آیا اس لیے آج ہی ہم اس کو آزاد کرنے کا حکم صادر کر دیں گے۔“
رکمہ کے لیے دوسرا ہشتارہ منگوایا گیا۔ اس نے چاندنی راتوں سے دھلی ایک دوسری موسیقی چھیڑی، جس میں جھرنے کی آواز اورندی کے بہاؤ نے ایک نیا آہنگ پیدا کر دیا تھا۔ بل کھاتی، لجاتی رات موسیقی میں ایسی کھوئی کہ مشرق سے بڑھتے ہوئے آتشیں ہاتھوں کی اسے خبر بھی نہ ہوئی۔اس کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر سورج نے اس گیسو نوچ ڈالے، لیکن رات کسی طرح بچ نکلی اور رکمہ اس ادھوری موسیقی کی تکمیل سے۔
طربلس سارا دن سوتا رہا۔ مملکت بادشاہ کے بغیر بھی ایک دن آگے بڑھ گئی۔ شام ڈھلے طرابلس کی آنکھ کھلی۔ رات کی خواب ناک موسیقی ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بارہا اسے ایسا محسوس ہوا تھاکہ وہ تنگ وتاریک دروں سے گذرتا ہوا ایک وسیع وعریض کھلے میدان میں آ گیا، جس پر چاندنی کھیت کر رہی ہو، دور دور تک نرم گھانسوں کا بستر بچھا ہوا ہو۔ لیکن وہ ادھوری موسیقی جو احساس کو اپنے کمال عروج تک پہنچا دیتی ہے، شاید اس کے بعدنہ کوئی بلندی ہے نہ پستی، نہ پہاڑ نہ کھائی، نہ آبشار نہ سمندر، سب کچھ اسی موسیقی میں سما کرایک نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ ایسی دنیا جہاں سب کچھ ہے اور۔۔۔۔ اور شاید کچھ بھی نہیں!!! جہاں بہت سارے احساسات بیک وقت سر ابھارتے ہیں۔ ساتھ ہی ایسا بھی ہوگا کہ ہمارا ذہن ہر قسم کے احساسات سے عاری ہو جائے۔ شاید میں ایسی دنیا کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اس پر جھنجھلاہٹ سوا رہو گئی، رکمہ پر غصہ بھی آیاکہ وہ مجھے ایسے جہان کے قریب لے جا کر واپس کھینچ لائی۔ وہ جلد از جلد اس دنیا کی سیر کرنا چاہتا تھا چنانچہ وہ تیار ہو کر پھر مہمان خانے میں پہنچ گیا۔
“جہاں پناہ! اس کنیز کے لیے ابھی اس دنیا تک لے جانا نا ممکن ہے۔دراصل موسیقی میں نہیں چھیڑتی، میری روح چھیڑتی ہے۔“رکمہ نے کہا۔
“جہاں پناہ! اس کنیز کے لیے ابھی اس دنیا تک لے جانا نا ممکن ہے۔دراصل موسیقی میں نہیں چھیڑتی، میری روح چھیڑتی ہے۔“رکمہ نے کہا۔
“ہم اس موسیقی کو سنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔”
“جہاں پناہ! گستاخی معاف۔۔۔۔۔۔”
“جہاں پناہ! گستاخی معاف۔۔۔۔۔۔”
“ہاں۔ہاں۔ کہو۔۔ ہم تمہاری خواہش کو پورا کرنے کی قسم کھاتے ہیں اور سب کو یہ معلوم ہے کہ وعدہ خلافی ہماری فطرت نہیں ”
“تو حضور میرے والد محترم کو ان کی فہم وفراست کے شایان شان انعام و اکرام ملنا چاہیے اگر حضور کی عنایت ہو تو۔۔۔۔۔“
“ہاں! میں تو بھول ہی گیا تھا۔ کل ہم نے بہت دیر تک اس سے بات کی۔ واقعی اس کی فہم وفراست کی داد دینی پڑے گی۔ سوچ رہا ہوں کو اس کو اپنا وزیر بنا لوں۔مملکت کو ایسے ذہین آدمی کی ضرورت ہے۔”
“تو حضور میرے والد محترم کو ان کی فہم وفراست کے شایان شان انعام و اکرام ملنا چاہیے اگر حضور کی عنایت ہو تو۔۔۔۔۔“
“ہاں! میں تو بھول ہی گیا تھا۔ کل ہم نے بہت دیر تک اس سے بات کی۔ واقعی اس کی فہم وفراست کی داد دینی پڑے گی۔ سوچ رہا ہوں کو اس کو اپنا وزیر بنا لوں۔مملکت کو ایسے ذہین آدمی کی ضرورت ہے۔”
“حضور کا اقبال بلند ہو۔ آپ کا فیصلہ ہمیشہ لا جواب ہوتا ہے۔“ طرابلس نے پرانے اور وفا دار وزیر کو برخواست کر کے گلفش بن النغرہ کے وزیر ہونے کا حکم صادر کر دیا۔ امراءاور روساء نے حلق میں پھنسی ہوئی انگلیاں باہر نکال لیں اور گلفش ابن النغرہ بادشاہ کا منتری اور عوام کے پیٹ سنتری بن گیا۔
(2)
مغربی برج پر تعینات سنتری نے احساسات سے عاری نظروں سے برج کے قریب بچھتی ہوئی سرخ قالین کو دیکھا، جو آج کچھ زیادہ ہی سرخ نطر آ رہی تھی۔ دور پہاڑیوں کے بیچ اترتے ہوئے سورج نے آسمان کو بھی سرخ بنا دیا تھا۔ اسی سرخی میں نہائے ہوئے رکمہ اور طرابلس آکر قالین پر بیٹھ گئے۔ خدام ایک طرف ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے اور رکمہ نے ہشتارہ سنبھال کر وہی ادھوری دھن چھیڑی۔
لیکن وہ ادھوری موسیقی جو احساس کو اپنے کمال عروج تک پہنچا دیتی ہے، شاید اس کے بعدنہ کوئی بلندی ہے نہ پستی، نہ پہاڑ نہ کھائی، نہ آبشار نہ سمندر، سب کچھ اسی موسیقی میں سما کرایک نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔
پہلے آہستہ آہستہ، جو بتدریج تیز سے تیز تر ہونے لگی کہ طرابلس اور دور کھڑے ہوئے محافظ بھی جھومنے لگے۔ مختلف مراحل اور نشیب وفراز سے گذر کر موسیقی ایک ایسی پر سکون جگہ پر پہنچ گئی جہاں سے ہر سمت کو معطر اور سایہ دار راستے جاتے تھے۔ موسیقی کی چھوٹی چھوٹی لہریں ان راستوں پر بہنے لگیں۔ سب سے بڑی لہر نے ان میں سے ایک خوبصورت ترین راستے کا انتخاب کیا اور چھوٹی موٹی رکاوٹوں کو عبور کرتے پہاڑ کی بلندی پر پہنچ گئی، پھر پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر کہ سنے والوں کی سانسیں تک رک گئیں، ہر شئے ساکت ہو گئی۔ ایک لمحے کے بعد بڑی آہستگی سے واپسی کا سفر شروع ہوا،اس نقطے سے جہاں سے ہرطرف یکساں نشیب تھا۔موسیقی نے یکساں رفتار سے بہنا شروع کیا،پانی کی طرح، کچھ اس طرح کی سارا پہاڑ اور ساری وادی سیراب ہو اٹھے،حتی کہ پہاڑ کا نچلا حصہ، غار اور دراڑیں بھی کھل اٹھیں۔ اب یہ پانی راستے کی تمام چیزوں کو سیراب کرتا ہوا،خس وخاشاک کو بہاتا ہوا سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا، بتدیج آہستہ ہوتا ہوا، مدھم مدھم، پھر نرم ترین رفتار سے، اور بالاخر ایک گونج میں تبدیل ہو کرموسیقی مکمل ہو گئی، امر ہو گئی،اور ایک لحظے کے لیے ہر چیز رک گئی۔
طرابلس اچانک بول پڑا ”سچ ہے تکمیل موت ہے اورموت ہی تکمیل۔”
“ہاں! جہاں پناہ “رکمہ نے کہا ”موت ہی تکمیل ہے اور تکمیل ہی موت اور شایدآغاز بھی موت ہے اور انجام بھی موت”
“ہاں! جانِ طرابلس میں سوچتا ہوں کہ طرابلس کو ختم کردوں اور تمہارے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کروں”
“ختم ہوں آپ کے دشمن“ رکمہ نے سرشار ہو کر کہا۔
دشمن تو نہیں مرے البتہ اس غم میں طرابلس کا بوڑھا باپ مرگیا اور ساتھ ہی طرابلس کا عزم بھی۔ اب رکمہ اور اس کا باپ ہی مملکت کے سیاہ وسفید کے مالک تھے جو چاہتے تھے کرتے تھے اور طرابلس۔۔۔ تو اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا، رکمہ کی ہر جائز وناجائز خواہش کی تکمیل، جس کے جنون میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کو اپنا دشمن بنا لیا اور امراء و رؤساء کو رکمہ کی موسیقی کا گرویدہ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی کار کی گرویدگی اتنی بڑھی کہ وہ خود اپنے ساتھ ساری غیر انسانی حرکتیں ہوتے ہوئے دیکھتا رہا جو مقدس مندروں میں پتھر کے بتوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ بھگوان کی مورتی نے سوچا کہ کیا میں ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتی ہوں، کیا میں ان کی خواہشات کی تکمیل کر سکتی ہوں۔۔ لیکن خواہشات کی تکمیل ہوتی رہیں، بھگوان کی مورتی کے حوالے سے اور کہانی کار کے حوالے سے بھی۔ اور تکمیل۔۔۔۔۔۔
اور تکمیل تو ایک خلا کا نام ہے۔ ایک نقطہ انجام کے ساتھ ساتھ ایک نقطہ ابتداء۔ بلکہ دونوں کے درمیان ایک مختصر تریں لمحہ۔ قلم رک گیا۔ تکمیل کا رس کہانی کار کو سیراب کر گیاکہ وہ پتھر سے انسان کی جون میں واپس آگیا۔ جب ذہن کا پتھریلا پن کچھ کم ہوا، بدن میں حرکت واپس آ گئی، تو اس نے کاغذات سمیٹے اور لائبریری سے بھاگ کھڑا ہوا۔ بھاگتا رہا، سڑک کے کنارے اگی ہوئی جھاڑیوں اورکانٹوں سے الجھتا ہوا تا کہ سحر سے آزاد ہو سکے۔ مختلف آوازیں اس کا پیچھا کرتی رہیں لیکن پلٹ کر دیکھے بغیر وہ آوازوں کے حصار سے باہر نکل آیا۔ تھکان سے نڈھال ہو کر وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ جب حواس کچھ درست ہوئے تو اس نے کاغذات کی طرف دیکھا۔یہ کیا؟ کہانی تو مکمل ہو گئی۔ لیکن وہی فرسودہ سی کہانی، اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے کردار۔ میں ایسی کہانی تو نہیں لکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ کہانی کار جھنجھلا اٹھا۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے کہانی پھر سے لکھنی شروع کی۔ نئے سرے سے کردار کا سراپا بنایا کچھ یوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تکمیل تو ایک خلا کا نام ہے۔ ایک نقطہ انجام کے ساتھ ساتھ ایک نقطہ ابتداء۔ بلکہ دونوں کے درمیان ایک مختصر تریں لمحہ۔
“شکار کی تاک میں پھیلی ہوئی آنکھیں، جبیں جیسے کسی کھنڈر کی ایک بوسیدہ سی محراب، خون سے سرخ ہونٹ، گالوں پر نہ جانے کتنی آہوں اور آنسوؤں کے نشانات ایک لکیر کی شکل میں، انگلیوں اور ناخنوں پر خون کے دھبے اور دامن پر اس کے چھینٹے، خونیں اور نکیلے دانت نکوستی ہوئی رکمہ۔“
پھر طرابلس نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹائی اور اس کا خوفناک چہرہ دیکھ کر ڈر گیا۔ اس نے شاہی طبیبوں کو اس کے علاج پر معمور کیا۔
جب رکمہ ہوش میں آئی تو طرابلس نے اس سے اس کی بے ہوشی کا سبب پوچھاتو کہنے لگی کہ میں موسیقی لہروں میں بہتی جا رہی تھی کہ آپ کا خیال آگیااور انگلیاں تاروں میں الجھ گئیں۔طرابلس نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا شاید میں پہلے ہی دن بہت بڑی غلطی کر بیٹھتا لیکن میرے مالک نے مجھے بچا لیا۔ میرے خیال میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمہیں اس شرط پر رہا کیا جا سکتا ہے کہ تم اپنے چہرے پر نقاب نہیں ڈالو گی۔ تم ایک اچھی فنکارہ ہو اس لیے بھی حقیقت کو چھپانا تمہیں زیب نہیں دیتا۔ اور رہا اشحاص ابن اکموس ہم اس کو تین سال کال کوٹھری اور گلفش ابن النغرہ کو کو پھانسی کی سزا دیتے ہیں۔ کل سر عام گلفش ابن النغرہ کو نفرت پھیلانے اورلوگوں کو آپس میں لڑانے کے جرم میں پھانسی دے دی جائے۔ درباریوں کے چہرے لٹک گئے۔ طرابلس نے ایک لمحے توقف کے بعد دربار برخواست کرنے کا حکم دیا اور محل کی طرف چل پڑا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی مکمل کر کے کہانی کارنے کاغذات سمیٹے۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر سگریٹ سلگائی اور سوچنے لگا اس تیسرے جذبے کا بھی کوئی نام ہونا چاہیے۔ میں اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکا۔ وہ اتنی بد صورت بھی نہیں ہو سکتی۔ دودھ گرم کرتے ہوئے اس نے سوچا، ہے کوئی درجہ حسن و قبح کے درمیان، گرم اور سرد، انسان اور پتھر کے درمیان، اور محبت اور نفرت کے مابین۔ لیکن کیا؟؟۔۔۔ شاید پتھر کو انسان بنانا، محبت سے نفرت کرنا۔ نہیں نفرت کے ساتھ محبت کرنا، یا کچھ اور۔ سچ تو یہ ہے کہ رکمہ کا یہ بدصورت چہرہ بھی میرے لیے حسین ہے اور شاید اس کے خوبصورت چہرے سے نفرت بھی، لیکن ان دو متضاد جذبوں کے درمیان یہ جذبہ کس جگہ واقع ہے۔ کیا اس جگہ کوئی سنگ میل یا کوئی نشان ہے۔ شاید کہانی کا یہ سنگ میل اس جائے وقوع کا تعین کرتا ہے۔