Laaltain

کھیلتا جا۔۔۔۔ شرماتا جا۔۔!!۔

12 جون، 2013
Picture of اجمل جامی

اجمل جامی

اجمل جامی

(دنیا کرکٹ کی “بہترین” بیٹنگ لائن کے نام۔۔۔)

چبھتی گرمی اور جان لیوا لوڈ شیڈنگ سے ستائے پاکستانی عوام کے جذبات اس وقت بھلا کیسے ہوں گے جب ان کی محبوب کرکٹ ٹیم پے در پے شکست سے دوچار ہو رہی ہو۔۔ ؟؟ یقننا آپ کو اس کا اندازہ بہت خوب ہوگا۔۔ عوام رنجیدہ ہیں، اور کیوں نہ ہوں، شائقین کرکٹ کے جذبات تسلسل کے ساتھ مجروح ہو رہے ہیں۔۔ آئیے ذرا گرین شرٹس کی حالیہ کارکردگی کا “پوسٹ مارٹم” کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
“کالی آندھی” کے خلاف “شاہین” رتی برابر بھی اڑان نہ بھر سکے۔۔ بیٹنگ لائن یوں دکھائی دی کہ جیسے بلے باز بیٹنگ کرنا بھول گئے ہوں۔۔ اور تب ہی کرکٹ کے پنڈتوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والے میچیز میں یہ بلے باز کیا گل کھلا سکتے ہیں۔ اڑتالیس اوورز میں محض ایک سو ستر رنز۔۔ بھلا ہو “بزرگ” کپتان اور “جوان” اوپنر ناصر جمشید کا۔۔ مصباح کے چھیانوے اور ناصر کے پچپن رنز نکال کر باقی پوری ٹیم فقط بیس رنز ہی بٹور سکی۔۔ رہی بات جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گئے میچ کی تو صاحب۔۔!! ان سے بہتر کون جانے، “آسان ہدف کو مشکل بنانا” ۔۔ دو سو پینتیس کا مجموعہ جوڑنے کے بعد، ہاشم آملہ کا کہنا تھا کہ یہ سکور قدرے کم ہے۔۔ لیکن معصوم آملہ شاید نہیں جانتے تھے کہ ہماری بیٹنگ لائن کم سے کم تر مجموعے کو بھی پہاڑ جیسا بنانے کی ماسٹر ہے۔۔ یعنی پینتالیس اوورز میں ہی ٹیم پاکستان نے اپنی بساط “اپنی مدد آپ” کے تحت لپیٹ لی۔۔ دونوں میچیز میں پاکستانی بلے باز پچاس اوورز پورے نہ کھیل سکے۔۔

“کالی آندھی” کے خلاف “شاہین” رتی برابر بھی اڑان نہ بھر سکے۔۔ بیٹنگ لائن یوں دکھائی دی کہ جیسے بلے باز بیٹنگ کرنا بھول گئے ہوں۔۔ اور تب ہی کرکٹ کے پنڈتوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والے میچیز میں یہ بلے باز کیا گل کھلا سکتے ہیں۔
اب آئیے “روشن ستاروں” کے کارناموں کی جانب۔۔!! اور اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اوپننگ کرنا پڑے گی “باکمال” اوپنر یعنی عمران فرحت سے!! جی ہاں!! الیاس صاحب کے داماد لگتے ہیں موصوف۔۔ یہ “مایہ ناز” بلے باز۔۔ اب تک اٹھاون ایک روزہ میچیز کھیل چکے ہیں۔۔ رنز صرف سترہ سو انیس۔۔۔ اوسط تیس کی۔۔۔ محض ایک سنچری۔۔۔ اور سٹرائیک ریٹ۔۔۔ پورا انہتر کا۔۔ واہ!! انہیں جب سے دوبارہ ٹیم میں چانس ملا ہے، پچیس ایک روزہ میچیز کھیل چکے ہیں اور ان میچز میں ان کے رنز کی اوسط رہی ہے محض اکتیس۔۔ ان لاجواب اعداد و شمار کے بعد اب ذرا عمران فرحت کی بیٹنگ کے نمایاں پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔۔ یہ وہ نابغہ روزگار ہیں جنہیں اکتیس سال کی عمر میں بھی آج تک اپنی آف سٹمپ کا علم نہیں ہو سکا۔۔ ‘ہک’ یا ‘پل’ شارٹ سے ان کا دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں، ‘آوے فرام دی باڈی’ جیسے سٹروکس یہ بہت “مہارت” سے کھیلتے ہیں۔۔ اور ان کے پورے کیرئیر کی کارکردگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ چیمپینز638476.html ٹرافی کے دونوں میچیز میں عمران فرحت نے دو دو رنز جوڑے۔۔ اور سٹرائیک ریٹ رہا۔۔ تینتس اور بائیس کا۔۔
ٹیم میں اپنی سلیکشن کو یقینی بنانے کے لیے تو عمران فرحت کی “موومنٹ” خاصی کامیاب رہی ہے۔۔ لیکن پچ پر’فٹ موومنٹ’ اتنی ہی غیر فرحت بخش۔۔۔
عرض یہ کہ جناب ٹیلنٹ کیرئیر کے آغاز میں ہی دھڑلے سے نظر آنے لگ پڑتا ہے۔۔ اکتیس سال کی عمر تک کیا الہامی ٹیلنٹ اترے گا؟؟ سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیوں ایسے نام نہاد بلے باز کو بار بار موقع دیا جا رہا ہے۔۔ الیاس صاحب!! خدا را!! کچھ خدا کا خوف۔۔۔ !!
اب ذکرخیرکریں گے “داماد ہند”،”دلہے میاں”، سابق کپتان، مایہ ناز آل راونڈر، اور”شوہر ثانیہ”۔۔۔ شیعب ملک (سیالکوٹی) کا۔ پہلے میچ میں انڈہ، اور دوسرے میں مر مر کے صرف آٹھ رنز۔۔ وہ بھی ستائیس کے تیز ترین سٹرائیک ریٹ کے ساتھ۔ ٹیم سے ‘ان’ اور ‘آوٹ’ ہوتے ہی رہےہیں لیکن جب سے ‘کم بیک’ کیا تئیس ایک روزہ کھیلے۔ تقریبا اٹھارہ کی حیرت انگیز اوسط سے فی میچ رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف یہ موصوف ایک انہتائی ‘ایوریج’ باولر ‘ڈومنی’ کو وکٹ دے بیٹھے۔ فرنٹ فٹ پر ‘سٹریچ’ کر کے ایک عام ڈلیوری کو روکنا چاہ رہے تھے لیکن وکٹ گنوا بیٹھے۔ صاف دکھائی دیا کہ ملک صاحب کو بال کی لائن لینتھ کا ذرا بھی علم نہیں تھا۔۔ فاسٹ باولرز کے خلاف ملک صاحب شاید ہی کبھی پر اعتماد دکھائی دیئے ہوں۔ رہی بات ان کی گیند بازی کی تو اب یہ ستارہ گیند گھمانے کے ہنر سے مکمل طور پر ناآشنا ہے۔ بحثیت آل راونڈر تو ان کی جگہ نہیں بنتی، اور بلے باز کے طور پر بھی ان کا نام ٹیم سلیکشن کے پرچے پر آنا یقنیا کسی “پرچی” کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔
اسد شفیق مذکورہ بالا دونوں “مہان” بلے بازوں سے بہت بہتر ہیں لیکن اس نوجوان کی بھی ‘فٹ موومنٹ’ متاثر کن نہیں ہے۔ اسد شفیق کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے ‘لمیٹڈ’ سٹروکس ہیں۔ لہذا اس کھلاڑی کو جلد از جلد خود کو جدید کرکٹ سے ہم آہنگ کرنا ہو گا مبادا ان کا شمار بھی “ملک” اور “فرحت” جیسے بلے بازوں میں ہو جائے۔
اب اگر جان کی امان پاوں تو کچھ دیر ذرا ذکر ‘کامران اکمل’ ہو جائے۔۔۔؟؟ خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کی بلے بازی بہتر ہونے لگی تو وکٹ کیپنگ کرنا بھول گئے اور جیسے ہی وکٹ کیپنگ میں کچھ عقل ان کے پلے پڑی تو بیٹنگ کرنے کے فن سے بھی جاتے رہے۔۔ مزید اگر کچھ کہا تو غالبا آپ یہ “تحریر” یہیں ادھوری چھوڑ دیں گے۔۔
دونوں میچز کا سکور کارڈ ملاحظہ کریں اور ہمارے بلے بازوں کا سٹرائیک ریٹ بھی چیک کیجیے۔۔ ایک وارم اپ میچ میں آسٹریلیا کے خلاف بھارت کے پینسٹھ پر پانچ کھلاڑی آوٹ ہو گئے تھے۔ دھونی اور کارتک نے شاندار پارٹنر شپ جمائی اور دفاعی انداز اپنانے کی بجائے سٹرائیک روٹیٹ کرتے رہے۔ اور پھر عمدہ ہٹنگ کی بدولت مجموعہ تین سو سے بھی زائد کر دیا۔۔ جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ کو دیکھ لیجیے پاکستان کے خلاف۔ انہوں نے کوئی لمبے چوڑے سٹروکس ہر گز نہ کھیلے۔ لیکن وہ سٹرائیک بدستور روٹیٹ کرتے رہے۔ اور پھر انہی کی اکیاسی رنز کی اننگز میچ کی فیصلہ کن اننگز ثابت ہوئی۔ ہمارے نام نہاد بلے باز ضرورت سے زیادہ ناکام دفاعی حکمت عملی اپنانے کی کوشش میں وکٹیں گنواتے ہیں۔ جس سے نہ صرف رن ریٹ کم ہوتا ہے بلکہ آنے والے بلے بازوں پر پریشر بھی بڑھتا رہتا ہے۔ دفاعی حکمت عملی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ محض بیک فٹ پر جا کر ہر بال ‘ڈک’ کرنی ہے۔ بلکہ آج کی کرکٹ میں اس کا مطلب یہ کہ غیر ضروری سٹروکس سے اجتناب کیا جائے۔ اور سنگلز ڈبلز تسلسل کے ساتھ نکالے جائیں۔ لیکن ہماری بیٹنگ لائن ہے کہ ایسی کسی بھی سمجھ بوجھ سے گویا مکمل طور پرعاری!!
ٹیلنٹ کا ہونا یا نہ ہونا بعد کی بات ہے، ان بلے بازوں کے ہاں تو مہارت اور عقل کی بھی شدید کمی ہے۔ یہ بلے باز موجودہ کرکٹ کے بہت بنیادی معیارات پر ہی پورا نہیں اترتے۔ کپتان البتہ اچھا کھیلے۔ لیکن مجھے یہ کہنے دیجیئے کہ “بزرگوں” کے بھی کچھ مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں اپنی بیٹنگ لائن کی کرتوت کا خوب اچھی طرح علم تھا۔ اس کے باوجود یہ موصوف ون ڈاون نہ آئے۔ اگر مصباح اپنا بیٹنگ آرڈر ذرا اوپر کر لیتے تو اسکے کچھ فوائد ضرور حاصل ہو سکتے تھے۔ ایک اینڈ ضرور سنبھلا رہتا۔۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف جب مصباح اور ناصر کی پارنٹر شپ جم رہی تھی تو ‘بیٹنگ پاور پلے’ جلد لے لینا چاہیے تھا۔ پاور پلے کا بر وقت استعمال نہ کرنا ہمیشہ سے ہی مصباح کی خامی رہی ہے۔ فیلڈ میں بھی مصباح زیادہ تر دفاعی حکمت عملی سے ہی کام چلاتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کی باولنگ لائن ایک بہتر یونٹ ہے تو ایسے میں کپتان کو تھوڑا جارح مزاج ہونا چاہیے۔ مثلا اگر کوئی اچھا بلے باز آوٹ نہیں ہورہا تو مصباح کے پاس اسے آوٹ کرنے کے لیے شاید ہی کبھی کوئی پلان بی یا سی رہا ہو۔ فیلڈ پوزیشن بھی زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ جنوبی افریقہ کہ خلاف ہاشم آملہ کا ایک کیچ ڈراپ ہوا۔ کوئی اور ٹیم ہوتی تو یقنیا ایسا نہ ہوتا۔ پوائنٹ پر عمر امین کھڑے تھے۔ جو کیچ کو اچھی طرح جانچنے میں ناکام رہے۔ اور پھر آملہ میچ وننگ اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے۔ اگر اسی پوزیشن پر کوئی بہتر فیلڈر ہوتا تو شاید یہ کیچ لے لیا جاتا۔

۔ دفاعی حکمت عملی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ محض بیک فٹ پر جا کر ہر بال ‘ڈک’ کرنی ہے۔ بلکہ آج کی کرکٹ میں اس کا مطلب یہ کہ غیر ضروری سٹروکس سے اجتناب کیا جائے۔ اور سنگلز ڈبلز تسلسل کے ساتھ نکالے جائیں۔

مڈل آرڈر انتہائی غیر متوازن اور غیر ذمہ دار رہا۔ آج کل تو تقریبا ہر ٹیم کے پاس ٹیل اینڈرز تک بیٹنگ لائن ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں آخری چار کھلاڑی تو ایسے ہیں کہ جیسے انہوں نے کبھی بلا تھاما ہی نہ ہو۔ مڈل آرڈر اور لوئر مڈل آرڈر میں مستند آل راونڈرز کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ شاید اسی لیے اظہر محمود، شاہد آفریدی اور عبدالرزاق کی بہت یاد آئی۔ یعنی۔۔
“تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد”
جہاں تک شاہد آفریدی کا تعلق ہے تو ‘بوم بوم’ اگر ٹیم میں ہوں تو شائقین مایوس، اور نہ ہوں تو اور بھی زیادہ مایوس۔۔ لہذا بہتر ہے کہ انہیں کھلا ہی لیا جائے۔ کیونکہ اچھی فیلڈنگ، لیگ بریک باولنگ، اور جتنی دیر بھی وکٹ پر رہیں جارہانہ انداز میں رہتے ہیں، جیسے فوائد ان سے یقننا حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اب ذرا تسلی سے، ٹھنڈے دماغ سے سوچئے۔ کیا ہماری موجودہ ٹیم میں “مصباح” کے علاوہ کوئی ایک بھی میچ وننگ بلے باز ہے؟؟ یقینا نہیں!! اور یہی سب سے بڑی بد قسمتی ہے۔۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے۔۔ بھئی ٹیلنٹ کہاں ہے؟؟ ایک عاصم کمال تھا، محلاتی سازشوں کی نظر ہو گیا۔ حماد اعظم، اچھا آل راونڈر ہے لیکن معاف کیجیے گا، یہ نوجوان باولنگ میں کوئی خاص چمتکار نہیں دکھا سکتا۔ ہاں البتہ اسے پالش کیا جا سکتا ہے۔ عزیز دوست فیضان لاکھانی اگلے دن بتا رہے تھے کہ حارث سہیل ایک بہت عمدہ ٹیلنٹڈ بلے باز ہے لیکن بد قسمتی سے اسے نہ تو پالش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی چانس دیا جا رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ ٹیلنٹ کو دریافت کرنا بھی ایک ہنر ہے، اور اس کے لیے نیک نیتی درکار ہے نہ کہ “داماد گیری”۔ پھر ایسے کسی ہیرے کو تراشنا بھی جواہری کا کام ہے نہ کہ “جواری” کا۔۔
بیٹنگ ٹیلنٹ ہو تو پھر ‘شیکھر دھون’ جیسا، جو آتے ہی ثابت کر دے کہ اسے ٹیم سے کسی طور بھی نہیں نکالا جا سکتا۔ کوہلی کو ہی دیکھ لیں، جب سے کیرئیر کا آغاز ہوا یہ بلے باز ایک تسلسل کے ساتھ پرفارم کر رہا ہے۔ مورگن کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ہسی کی پرفارمنس کو دیکھ لیں۔ ٹراوٹ کی بلے بازی آزما لیں یا پھر ڈویلیرز کی۔۔ نظر آتا ہے کہ ان کے ہاں ٹیلنٹ تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ ان کی پرفارمنس میں مہارت اور سمجھداری بھی واضح جھلکتی ہے۔ ہم نے تو ٹیم پاکستان میں ایسا کوئی بلے باز ایک مدت سے نہیں دیکھا۔ آپ نے دیکھا ہو تو مجھے ضرور اطلاع دیجیے گا۔
جدید دور کی کرکٹ ایک مکمل سائنس ہے۔۔ جس میں ٹیلنٹ اور مہارت کا حسین امتزاج ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ روایتی انداز اور گھسے پٹے تبصرے ناکامیوں کو ہر گز نہیں روک سکتے۔ معجزے کبھی کبھار ہی ہوتے اچھے لگتے ہیں۔ وہ ٹیمیں اور وہ کھلاڑی جنہوں نے خوب محنت کی ہوتی ہے، کامیابی انہی کے قدم چومتی اچھی لگتی ہے۔ لیکن ہماری بیٹنگ لائن تو شاید اس جملے پر عمل پیرا ہے کہ “کھیلتا جا۔۔۔ شرماتا جا۔۔۔!”

ajmal-jami(اجمل جامی۔۔ دنیا نیوز کے لیے اینکر سپیشل کورسپونڈنٹ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔۔ ملکی سیاسی منظر نامے پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *