Laaltain

کھڑکیاں

21 نومبر, 2016
Picture of نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

کھڑکیاں

[/vc_column_text][vc_column_text]

کھڑکیاں منظر دکھاتی ہیں
دلوں کی ہوں، دماغوں کی
مکانوں کی کہ آنکھوں کی
وہ باہر کی طرف کھلتی ہوں یا اندر کی جانب،
روشنی اُس پار کی اِس پار لاتی ہیں

 

کھڑکیاں باتیں بھی کرتی ہیں
لبوں کے قفلِ ابجد کھولتی ہیں
کھڑکیوں پہ رات جب تاریکیوں کے جال بُنتی ہے
تو عمریں درد کی پاتال سے سرگوشیوں میں بولتی ہیں
کھڑکیاں خاموش رہتی ہیں
زباں بندی کے دن، بے داد کی راتیں، ستم کے دور سہتی ہیں

 

کھڑکیاں صدیوں کے خوابوں کی کہانی ہیں
فصیلوں، آنگنوں، اجڑے مکانوں کی گواہی ہیں
ازل سے وقت کے جبری تسلسل میں
تھکن سے چرچراتے زنگ آلودہ زمانوں کی گواہی ہیں

 

کھڑکیاں عورت کا دل رکھتی ہیں
خوشبو، دھوپ، بارش، چاند کی کرنیں
ہوا کے ایک جھونکے سے
بدن کے موسموں پر کھول دیتی ہیں
اڑا کر کاغذی پیکر
انوکھی خواہشوں میں زندگی کو رول دیتی ہیں

 

کھڑکیوں کے سامنے جب تتلیاں پرواز کرتی ہیں
تو شیشوں سے لگی آنکھوں میں یادوں کی
دوپہریں بھیگ جاتی ہیں
سفید و سرخ پھولوں سے لدی بیلیں
انھیں جب ڈھانپ لیتی ہیں
تو شامیں خوبصورت اجنبی لوگوں کا رستہ دیکھتی ہیں
مٹھیوں میں جگنوؤں کا لمس بھرتی ہیں

 

کھڑکیاں اکثر کُھلی رہنے کی ضد کرتی ہیں
نیلا آسماں، بادل، پرندے دیکھ کر حیران ہوتی ہیں
ہمیشہ بند رکھنے سے
انھیں کمروں کی، دیواروں کی سانسیں ٹوٹنے کا خوف رہتا ہے
مکینوں کے چلے جانے پہ ڈرتی ہیں
انھیں بھی زندگی ویران لگتی ہے، اداسی کاٹنے کو دوڑتی ہے
کھڑکیاں انسان ہوتی ہیں!

Image: Sabine Jacobs
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

ہمارے لیے لکھیں۔