[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
کھڑکیاں
[/vc_column_text][vc_column_text]
کھڑکیاں منظر دکھاتی ہیں
دلوں کی ہوں، دماغوں کی
مکانوں کی کہ آنکھوں کی
وہ باہر کی طرف کھلتی ہوں یا اندر کی جانب،
روشنی اُس پار کی اِس پار لاتی ہیں
دلوں کی ہوں، دماغوں کی
مکانوں کی کہ آنکھوں کی
وہ باہر کی طرف کھلتی ہوں یا اندر کی جانب،
روشنی اُس پار کی اِس پار لاتی ہیں
کھڑکیاں باتیں بھی کرتی ہیں
لبوں کے قفلِ ابجد کھولتی ہیں
کھڑکیوں پہ رات جب تاریکیوں کے جال بُنتی ہے
تو عمریں درد کی پاتال سے سرگوشیوں میں بولتی ہیں
کھڑکیاں خاموش رہتی ہیں
زباں بندی کے دن، بے داد کی راتیں، ستم کے دور سہتی ہیں
لبوں کے قفلِ ابجد کھولتی ہیں
کھڑکیوں پہ رات جب تاریکیوں کے جال بُنتی ہے
تو عمریں درد کی پاتال سے سرگوشیوں میں بولتی ہیں
کھڑکیاں خاموش رہتی ہیں
زباں بندی کے دن، بے داد کی راتیں، ستم کے دور سہتی ہیں
کھڑکیاں صدیوں کے خوابوں کی کہانی ہیں
فصیلوں، آنگنوں، اجڑے مکانوں کی گواہی ہیں
ازل سے وقت کے جبری تسلسل میں
تھکن سے چرچراتے زنگ آلودہ زمانوں کی گواہی ہیں
فصیلوں، آنگنوں، اجڑے مکانوں کی گواہی ہیں
ازل سے وقت کے جبری تسلسل میں
تھکن سے چرچراتے زنگ آلودہ زمانوں کی گواہی ہیں
کھڑکیاں عورت کا دل رکھتی ہیں
خوشبو، دھوپ، بارش، چاند کی کرنیں
ہوا کے ایک جھونکے سے
بدن کے موسموں پر کھول دیتی ہیں
اڑا کر کاغذی پیکر
انوکھی خواہشوں میں زندگی کو رول دیتی ہیں
خوشبو، دھوپ، بارش، چاند کی کرنیں
ہوا کے ایک جھونکے سے
بدن کے موسموں پر کھول دیتی ہیں
اڑا کر کاغذی پیکر
انوکھی خواہشوں میں زندگی کو رول دیتی ہیں
کھڑکیوں کے سامنے جب تتلیاں پرواز کرتی ہیں
تو شیشوں سے لگی آنکھوں میں یادوں کی
دوپہریں بھیگ جاتی ہیں
سفید و سرخ پھولوں سے لدی بیلیں
انھیں جب ڈھانپ لیتی ہیں
تو شامیں خوبصورت اجنبی لوگوں کا رستہ دیکھتی ہیں
مٹھیوں میں جگنوؤں کا لمس بھرتی ہیں
تو شیشوں سے لگی آنکھوں میں یادوں کی
دوپہریں بھیگ جاتی ہیں
سفید و سرخ پھولوں سے لدی بیلیں
انھیں جب ڈھانپ لیتی ہیں
تو شامیں خوبصورت اجنبی لوگوں کا رستہ دیکھتی ہیں
مٹھیوں میں جگنوؤں کا لمس بھرتی ہیں
کھڑکیاں اکثر کُھلی رہنے کی ضد کرتی ہیں
نیلا آسماں، بادل، پرندے دیکھ کر حیران ہوتی ہیں
ہمیشہ بند رکھنے سے
انھیں کمروں کی، دیواروں کی سانسیں ٹوٹنے کا خوف رہتا ہے
مکینوں کے چلے جانے پہ ڈرتی ہیں
انھیں بھی زندگی ویران لگتی ہے، اداسی کاٹنے کو دوڑتی ہے
کھڑکیاں انسان ہوتی ہیں!
نیلا آسماں، بادل، پرندے دیکھ کر حیران ہوتی ہیں
ہمیشہ بند رکھنے سے
انھیں کمروں کی، دیواروں کی سانسیں ٹوٹنے کا خوف رہتا ہے
مکینوں کے چلے جانے پہ ڈرتی ہیں
انھیں بھی زندگی ویران لگتی ہے، اداسی کاٹنے کو دوڑتی ہے
کھڑکیاں انسان ہوتی ہیں!
Image: Sabine Jacobs
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
One Response
Windows — Poem by Naseer Ahmed Nasir
Windows show vistas
of hearts, of minds or of eyes for us —
whether they open outward or inward and
bring light from the other end to this end.
Windows communicate too
opens the alphabet locks of our lips.
When the night knits laces of darkness on the windows
life speaks up in whispers from chasms of pain —
windows, then, stay silent, and
endure the tongue-tied days, nights of oppression
and eons of coercion.
Windows are chronicles of dreams of the centuries
voiceless witnesses of abysmal depth,
quads and ‘destructed’ houses
in the time of the tormentor’s forced anlage continuum
bearing proof of the rusted times howling with fatigue.
Windows have the heart of a woman —
perfume, sunshine, rain or moonbeams
with a single gust of wind
they unfasten their body’s wings, and
blow away the paper images
to waste away life in unknown longings.
When butterflies sway in front of windows, then
the eyes on the window panes turn tearful.
Noontides get soaked
when the white and red flowers laden climbers
truss them, then
the evenings await the beautiful strangers
filling their fists with the touch of fire beetles.
Windows at times become adamant on being kept open
They get stunned to watch the lazuline sky,clouds and birds.
If they’re kept shut forever
they have fear of the walls and rooms getting asphyxiated.
They’re afraid of the residents abandoning their houses.
They too feel lonely,
despondency engulfs them.
Windows are human beings!
(English translation by Dr. Bina Biswas)