اس کے پیچھے سناٹے سے گونجتا ہوا گھر تھا اور سامنے اندھیرے کے علاوہ پہاڑیوں کا سلسلہ۔ پہلے دو چھوٹی پہاڑیاں جو تیسری بڑی پہاڑی کو جگہ دینے کے لیے سمٹتی اور پیچھے ہٹتی ہوئی بلاآخرایک دوسرے میں گھس گئی تھیں۔ ‘استحصال جو ہر طاقتور کا پیدائشی حق ہے۔’ اس نے طنز سے سوچا اور اس باغیانہ خیال کی پاداش میں یخ ہوا کا ایک جھونکا گوشت سے گزرتے ہوئے اس کی بوڑھی ہڈیوں پر زنگ کی طرح چپک گیا۔ وہ لرزا اور عادتاً بیوی کی غصیلی تنبیہ اور پھر گرم کپڑا اوڑھائے جانے کا منتظر ہوا۔ پھر یہ بے دھیان لمحہ پوری رفتار اور سفاکی سے اسے روندتا ہوا گزر گیا۔ وقت گزر گیا تو پیچھے جو بچا، وہ کھنڈر تھا۔ اسے یاد آ گیا کہ بیوی کو مرے ہوئے تین دن ہو چکے ہیں۔ اس کے بچے اور تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگ واپس جا چکے تھے۔ ان سب کی موجودگی اور دیگر کاموں کی مصروفیات نے دکھ کے ساتھ مل کے اسے اتنا نڈھال کر دیا تھا کہ رونے کی فرصت ہی نہ ملی تھی۔
دراصل اسے اپنی زندگی میں اس اس واقعہ کے ہو سکنے کا گمان تک نہ تھا مگر اب وہ اس بے یقینی کو مزید سہار نہ پایا اور برف ہوتی دیوار سے لگ کر بچوں کی طرح رو دیا۔ کسی یاد یا خیال کے اثر سے پاک ، گریہ کی خالص ترین حالت میں وہ گھنٹوں رویا اور روتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ گرم آنسو بخارات بن کر اڑنے لگے اور بادلوں سے جا ملے۔ برفیلی ہوا نے سرد موسم میں اٹھنے والی اس بھاپ کو اچھی نظر سے نہ دیکھا اور اسے ٹھنڈا کرنے میں جٹ گئی۔ آنسو قطروں کی صورت میں واپس پلٹے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہوا نے انہیں برف بنا دیا تا کہ وہ پھر سے اس کے کام میں مداخلت نہ کر سکیں۔
اسے یاد آ گیا کہ بیوی کو مرے ہوئے تین دن ہو چکے ہیں۔ اس کے بچے اور تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگ واپس جا چکے تھے۔ ان سب کی موجودگی اور دیگر کاموں کی مصروفیات نے دکھ کے ساتھ مل کے اسے اتنا نڈھال کر دیا تھا کہ رونے کی فرصت ہی نہ ملی تھی۔
سردی ہڈیوں کے بعد گوشت کو بھی جما چکی تھی مگر وہ ہر بات سے بے نیاز روتا رہا اور برف برستی رہی۔
ان کا تقریباً پچاس برس کا ساتھ رہا تھا اور یہ گھر دونوں نے مل کر بنایا تھا۔ دکھوں اور آسائشوں کے ایک طویل سفر کے بعد ملنے والی منزل کی صورت جو بہرحال مل گئی تھی۔ اور اس تمام عرصہ میں وجہ چا ہے جو بھی رہی ہو، وہ کبھی ایک دن کو الگ نہ ہوئے تھے۔ یہ خیال آیا تو اس نے ٹھنڈ سے کانپتے ہاتھوں سے آنکھیں اور ناک پونچھا اورذرا دیر کے لیے رونے میں حیرت کا وقفہ ڈالا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ مگر بہت سوچنے کے بعد بھی اسے یہی یاد آسکا کہ آج سے پہلے وہ کبھی اکیلا نہیں ہوا۔ اور اس بار وہ تنہائی اور دکھ کے مکمل ادراک کے ساتھ رویا۔ ‘اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔’ بہت دیر کی گئی اس گردان میں کسی انجان شخص کے لیے کوئی خبر نہ تھی۔
اسے خود پہ غصہ آنے لگا کہ آخری وقت تک بیوی کی بیماری کو وقتی سمجھ کر اس کے پاس نہ بیٹھا تھا۔ اس کے اندر کوئی خوف تھا جو اسے ماننے نہ دیتا تھا کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔وہ شک کی ہر آواز کو اکھڑ مردانہ پن سے سن کر سر جھٹک دیتا کہ”ہوں، دو دن میں ٹھیک ہو جائے گی۔”
وہ دو دن تو نہ آئے مگر تیسرا ضرور آگیا اور بڑھیا کو لے کر چلتا بنا۔ آخری لمحے اور تین دن گزر جانے کے بعد تک اسے یقین نہ آسکا اور آج چوتھا دن تھا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اوراس کا غصہ خود سے ہوتا ہوا خدا تک جا پہنچا۔ ‘طاقتور استحصالی’ وہ اندھیرے خلا کی جانب رخ کر کے چلایا۔ ہچکیوں نے یہ لفظ ہجے کر خدا کو سنائے اور اسے ہمیشہ کی طرح کچھ سمجھ نہ آسکا؛ پہاڑیوں میں چھپی بیٹھی گونج بہت دیر تک اس کے لفظ دوہراتی اور اسے چڑاتی رہی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا۔
وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اوراس کا غصہ خود سے ہوتا ہوا خدا تک جا پہنچا۔ ‘طاقتور استحصالی’ وہ اندھیرے خلا کی جانب رخ کر کے چلایا۔
بوڑھے کے ذہن میں آنے والے کل کی کوئی شکل نہ تھی کہ اب اسے کیا کرنا اور کیسے رہنا ہے۔ بیوی نے لاڈ اٹھا کر اس کو ضدی بچوں جیسا کر دیا تھا۔ ہر کام کہے بغیر ہوجاتا تھا اور وہ خود اٹھ کر پانی تک پینے کا روادار نہ تھا، اس کے ذمے صرف نخرے کرنا تھا۔ وہ خود بھی ہرطریقے سے بیوی کا خیال رکھتا۔ ان کی چھوٹی سی زندگی مدتوں سے ایک دوسرے کے گرد گھوم رہی تھی اور دونوں میں سے ایک بھی یہ سوچنے پر تیار نہ تھا کہ اس میں کوئی بدلاو ممکن ہے۔ کسی زبانی وعدے یا اقرار کے بغیر انہیں اکٹھے رہنا ہے۔۔۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔ ۔ ۔
وہ شام کے وقت بچوں کو الوداع کہنے گھر سے نکلا اور گھر کے خالی پن سے خوفزدہ ہو کر واپس نہ جا سکاتھا۔ اب وہ داخلی دروازے کے آگے بنے برآمدے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا۔ تبھی سردی نے اس کی کمر دیوار سے ہٹائی اور پتھریلے فرش پر رکھ دی۔ اس نے دونوں ہاتھ برف بنے گھٹنوں میں دیے اور گھٹنے سمیٹ کر سینے سے لگا لیے۔ وہ ایک بار پھر بلند آواز سے رونا چاہتا تھا مگر سردی کی کپکپاہٹ اور ہچکیوں کی لرزش نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔ بوڑھا بے بسی سے آواز گھونٹ کر رونے لگا۔ مسلسل رونے سے آنسو گاڑھے اور گرم ہو گئے تھے اور آنکھیں جھپک جھپک کر انھیں باہر نکالتے تنگ آگئی تھیں۔
کہیں راہ نہ پا کر آنسو اندر کی جانب بہنے لگے۔ وہ اس کی رگوں میں لاوا بن کر دوڑے اور برف بن کر جم گئے۔ اسے دکھ اور تھکن سے وہیں نیند آگئی۔
اگلی صبح اس کی بیٹی نے اپنے بیٹے کے ہاتھ ناشتہ بھیجا۔ وہ اسی گاءوں کے دوسرے سرے پر رہتی تھی اور قریب ہونے کی وجہ سے باپ کا خیال رکھنے کی ذمہ داری اسے سونپی گئی تھی۔ بوڑھا کسی بیٹے، بیٹی کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہوا تو آخری حل یہی نکالا جا سکا تھا۔
لڑکے نے بوڑھے کو گھر کے باہر سکڑ کر سوتے ہوئے دریافت تو کر لیا مگر وہ اسے جگا نہ سکا۔
اس رات موسم کی پہلی برف پڑی تھی اور تا حدنظر ہر شے سفید ہو رہی تھی۔ گاوں کے بڑے بوڑھے قسم اٹھانے کو تیار تھے کہ یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی برف باری تھی۔
بوڑھے کی موت کو سردی کے سر تھوپ دیا گیا تھا۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: