[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

کچھ لوگ کبھی واپس نہیں آتے

[/vc_column_text][vc_column_text]

بدن بستروں کو طلاق دے دیتے ہیں
انگلیاں تصویروں کے فریم تھامے لکڑی ہو جاتی ہیں
کلینڈر تاریخوں سے بهرے رہتے ہیں
لیکن دن خالی ہو جاتے ہیں
پیروں کو عدالت کا رستہ یاد ہو جاتا ہے
ہونٹوں کو دعائیں بڑبڑانے کی عادت پڑ جاتی ہے
مائیں ہر آنے والے کو یوں تکتی ہیں جیسے وہ ڈاکیا ہو
راتوں کو رونے والے باپ سورج نکلتے ہی بہادر بن جاتے ہیں
انتظار ہیروں جیسی آنکھوں سے نمک کا پانی تاوان لیتا ہے
کچھ لوگ کبھی واپس نہیں آتے

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

One Response

  1. Humaira

    کچھ لوگ کبھی واپس نہیں آتے۔ لفظوں کی عمدہ منظر کشی۔ داد قبول کیجیے۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: