Laaltain

کچھ بات انقلاب کی۔۔۔

19 فروری، 2013
کچھ چالیس برس پہلے ہندوستانی فلموں میں ایک منظر بہت عام تھا۔ کالج کا آوارہ نوجوان، گریبان چاک، جیب سے پھاٹک، جب کارخانے دار کی پٹاخہ صاحب زادی سے شادی میں ناکام ہو جاتا تو دس پندرہ لونڈوں کے ساتھ ایک جھنڈا اٹھائے گلی میں نکل آتا تھا اور نعرہ بلند کرتا تھا، “انقلاب زندہ باد!”۔ انقلاب کا یہ نعرہ ، کسی واضح سیاسی فکر کی عدم موجودگی میں، بے بسی اور جھنجلاہٹ کا بے معنی اور بودا اظہار تھا۔ یہ “فلمی انقلاب” گویا جذبہ انقلاب کی توہین تھا۔
بھارت تو شاید انقلاب کی چیخ و پکار کی منزل سے آگے نکل گیا ہے۔ ان دنوں پاکستان میں انقلاب کی یہ وبا بے طرح پھیلی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اچھے خاصے سیاستدان تھے۔ جب سے بدوؤں کی میزبانی کا لطف اٹھایا ہے، ایک تو اچھی بھلی آئینی اصطلاح ‘وزیر اعلیٰ’ کو ترک کر کے خادم حرمین شریفین کے اتباع میں خادم اعلیٰ ہو گئے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے خونی انقلاب کی خوش خبری دیتے رہتے ہیں۔
شہباز شریف ہی پر کیا موقوف ہے، معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کی بغل بچہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ بھی انقلاب کا دعویٰ رکھتی ہے۔ کامریڈ لال خان بھی انقلاب کا نام لیتا ہے اور عابد حسن منٹو بھی۔ سرگودھا اور راجن پور میں ذات پات کے نام پر ووٹ بٹورنے کے خواب دیکھنے والے بھی انقلاب کے نام لیوا ہیں۔ جو ہزاروں برس پرانے بلوچ سرداری نظام میں عورتوں کی بدترین محکومی کی نشاندہی کی ہمت نہیں رکھتے، سنا ہے انہیں بھی سامراج کی مخالفت کا تتا پانی درکار ہے۔اس منجدھار کے کچھ شناوروں نے پختون ولی میں انقلابی روح دریافت کی ہے۔ کچھ بلند ہمت ایسے ہیں کہ ان کے انقلاب کو صدیوں پرانے صوفی شاعروں کے کلام پر وجد آتا ہے۔ خبر آئی ہے کہ لال مسجد والے بھی انقلاب لانے نکلے تھے۔ دنیا بھر کے اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم دینے اور پالنے والے بھی آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں۔بہت سے انقلابیوں نے پاکستان چھوڑ کر یورپ، امریکا میں بستیاں بسالی ہیں اور ایک عدد زوجہ اور نصف درجن ذرًیات کی انقلابی بٹالین لیے سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے زفافی مورچوں میں بیٹھے ہیں۔ اب سے کوئی ایک ڈیڑھ برس پہلے غالباً انقلاب کی ایک دھجی اعتزاز احسن کے بھی ہاتھ آ گئی تھی جسے وہ وکیل لوگوں کے جلسوں میں لہراتے تھے۔ لاہور اور کراچی کے مہنگے بوتیک سے ہزاروں روپے مالیت کا عبایہ خرید کر چہرہ چھپانے والی خواتین میں بھی، اطلاعات کے مطابق، انقلاب کا ذوقِ فراوں ہے۔ غلام احمد پرویز، علی شریعتی، اسرار احمد، ابتسام ظہیر، طاہر القادری، جاوید غامدی اور مولانا سمیع الحق کے جملہ پیروکار بھی اپنے اپنے رنگ میں اسی انقلاب نامی چلبلی، شوخ طرحدار پر فدا ہیں۔ اب یہ گتھی تو پیپلز پارٹی کا کوئی جیالا ہی کھول سکتا ہے کہ مصطفیٰ کھر اور حنیف رامے میں اصل انقلابی کون تھا۔
یادش بخیر اردو کے ادیب حسن عسکری نے بھی پاکستان کے قیام کو انقلاب قرار دیا تھا۔ اب سنا ہے پاکستان توڑنے کی بات کو انقلابی سمجھا جاتا ہے۔
اقبال مرحوم نے قرآن کو اس بنا پر مظلوم قرار دیا تھا کہ جو اٹھتا ہے، اس کی ایک تفسیر لکھ دیتا ہے۔ یہاں انقلاب کے ساتھ کچھ ایسی ہی واردات نظر آ رہی ہے۔ چراغ حسن حسرت زندہ ہوتے تو انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں فقرہ کسا ہوتا؛ “مولانا، اتنی بہت تعبیروں میں تو آپ کے انقلاب کا خواب پریشان ہوتا نظر آتا ہے۔ نہ ہوا سعادت حسن منٹو، ورنہ وہ ضرور لکھتا، “انقلاب نہ ہوا، سالا غریب کی جورو ہو گیا”۔
ان حالات میں مسلکِ انقلاب کے منحرفین کےلیے یہی بہتر ہے کہ ان گیانیوں کے اشلوک چھوڑ کر ‘فرہنگِ آصفیہ’ سے رجوع کریں۔ مولوی سید احمد دہلوی نے انقلاب کے معنی ‘تغیر و تبدل، الٹ پھیر، الٹ پلٹ، گردشِ دور’ دیے ہیں۔ جب قدیم اجتماعی بندوبست انسانی سماج میں سامنے آنے والے نئے ذرائع پیدوار اور ان کے نتیجے میں بننے والے پیداواری رشتوں کو جذب کرنے میں ناکام ہو جائے تو ایک ایسی بنیادی تبدیلی جو پرانے سیاسی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچوں کو یک قلم مسترد کر کے انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کرے، سیاسی اصطلاح میں اسے انقلاب کہتے ہیں۔
اب اس میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ محض مقتدر گروہ کی تبدیلی (Crisis of Regime)کو انقلاب نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ اس میں نئے ذرائع پیداوار اور ان کے نتیجے میں بننے والے نئے پیداواری رشتوں کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ اسی طرح محض خون خرابے یا شکست و ریخت کو بھی انقلاب نہیں کہتے۔ ورنہ ہر ریاست کا انہدام انقلاب کہلاتا اور ہر عسکری شکست یا خانہ جنگی انقلاب پر منتج ہوتی۔ اسی طرح اگر کوئی بادشاہت یا خلافت کے قیام کا خواہش مند ہے تو کسی قدیم نظام کے احیاء کی کوشش کو بھی انقلاب نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ انقلاب پیچھے کی طرف نہیں، آگے کی سمت بڑھنے کا نام ہے۔ قدیم ڈھانچوں کے احیاء سے وہ تضادات تو دور نہیں ہو سکتے جو نئی زمینی حقیقتوں کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ماضی کا کوئی سانچہ، نئے بندوبست کے تقاضے پورے کر سکتا تو سرے سے متروک ہی کیوں ہوتا۔ کوئی نظام کسی سازش کا شکار نہیں ہوتا، اپنے عہد کے معاشی، سماجی اور سیاسی تقاضوں سے پیچھے رہ جانے کے باعث منہدم ہوتا ہے۔
یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ علی گڑھ کے ایک بزرگ نے اب سے کوئی سو برس پہلے اعلان کیا تھا کہ دنیا کی دوسری قوموں کی ترقی آگے بڑھنے میں ہے، مگر ہماری (مراد مسلمانوں کی) ترقی پیچھے کی طرف جانے میں ہے۔ اس قول فیصل کے بہت بعد آنے والے ایک شاعر نے لکھا؛
ہمارے پاؤں الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
اب یہ تو پڑھنے والے خود بھی بتا سکتے ہیں کہ اس آنکھ مچولی میں کچھ ترقی ہوئی یا پچھلی بھی کھوئی۔
کالم کا ورق نبڑ گیا اور بات ابھی باقی ہے۔ خیر بات انقلاب کی ہے تو تھوڑا طول تو کھینچے گی۔ فیض صاحب والی ایک مزے کی بات ابھی کر لیں او رزہد و اتقا کی گفتگو کل پہ اٹھا رکھتے ہیں۔
ایک انقلابی صاحبزادے بے قرار ہو کر فیض صاحب کی خدمت میں پہنچے اور مچل کر پوچھا؛ “فیض صاحب، انقلاب کی آئے گا؟”
فیض نے سگریٹ کا کش لیا، ایک مخصوص دھیمی سی ‘ہوں’ کی اور کہا؛
“بھئی آ جائے گا، انقلاب آ جائے گا۔ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔”

 

(ماخوذ)

One Response

  1. Author should focus more on the content and point of the article, rather than showboating his “Salees Urdu” skills

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. Author should focus more on the content and point of the article, rather than showboating his “Salees Urdu” skills

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *